وزیر اعظم عمران خان اور امریکی صدر ٹرمپ کے مابین واشنگٹن میں ہونے والی حالیہ ملاقات میں ایک مرتبہ پھر اس عہد کی توثیق کی گئی کہ افغانستان میں جاری داخلی کشیدگی کا افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے سیاسی حل نکالا جائے گا اور اس کے بدلے میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کی راہ ہموار کی جائے گی۔ یہ عمران خان کا بطور وزیر اعظم امریکہ کا پہلا دورہ تھا اور ان کے وفد میں چیف آف آرمی سٹاف جناب قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید بھی شامل تھے‘ جس کی اہم وجہ یہ ہے کہ پاکستانی فوج انسداد دہشت گردی کی تمام کارروائیوں میں مرکزی کردار ادا کر رہی ہے اور پاکستان اور امریکی افواج کی اعلیٰ قیادت کے مابین باقاعدہ تعامل کی پریکٹس ہے۔
اگر ہم پاکستان اور امریکہ کے درمیان پُر جوش دوستانہ تعلقات کا جائزہ لیں تو ہمیں دونوں ملکوں کی افواج میں باہمی تعاون نمایاں نظر آتا ہے۔ دونوں افغانستان میں امن کے قیام اور انسداد دہشت گردی سمیت علاقائی سلامتی کے امور کے علاوہ پاکستانی افسروں کی پاکستان یا امریکہ کے فوجی اداروں میں تربیت کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ دوسرا بڑا اہم مسئلہ پاکستانی فوج، فضائیہ اور بحریہ کے لئے امریکی اسلحہ اور فوجی آلات کی خریداری ہے۔ پاکستان میں امریکی اسلحے اور عسکری آلات کی فراہمی کو امریکہ کی طرف سے پاکستان کی حمایت کا اہم اشارہ سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کو اسلحے کی فراہمی کا حالیہ سلسلہ 2018ء میں معطل ہوا تھا‘ حالانکہ افغانستان کے حوالے سے دونوں ملکوں کی افواج میں مشاورت کا محدود عمل بعد میں بھی جاری رہا۔
پاکستان کو امریکی اسلحہ کی فراہمی کا عمل 1954ء میں شروع ہوا تھا‘ جب پاکستان اور امریکہ نے Mutual Defence Assistance Treaty پر دستخط کئے تھے۔ اس کے بعد پاکستان امریکی سرپرستی میں چلنے والے علاقائی سکیورٹی اتحاد SEATO اور 1955ء میں بغداد پیکٹ (جو بعد میں CENTO کہلایا) میں شامل ہو گیا۔ چوتھا سکیورٹی معاہدہ 1959ء میں Mutual Security Pact کے نام سے ہوا۔ اسے معاہدے کے بجائے امریکہ کی ایگزیکٹو مفاہمت کہا گیا۔
امریکہ نے سوویت یونین کی عسکری سرگرمیو ں کی جاسوسی کرنے کے لئے پشاور کے قریب ایک ائیر پورٹ حاصل کر لیا۔ پاکستان 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں اس معاہدے پر عمل درآمد نہ کروا سکا؛ تاہم ان معاہدوں کے نتیجے میں پاکستان نے امریکہ سے اقتصادی امداد، اسلحہ گرانٹس اور سیلز‘ اور پاکستان کے فوجی اہلکاروں کی پاکستان میں یا امریکہ کے فوجی اداروں میں ٹریننگ کی سہولیات حاصل کر لیں۔ پاکستان کے امریکہ کے اتحادی بننے سے پاکستان کو اپنے فوری نوعیت کے سکیورٹی چیلنجز کا سامنا کرنے میں مدد ملی‘ مگر امریکہ اور سوویت یونین میں جاری عالمی سیاست میں پاکستان امریکی بلاک میں شامل ہو گیا؛ چنانچہ سوویت یونین پاکستان سے ناراض ہو گیا اور اس نے بھارت اور افغانستان کے ساتھ پاکستان کے جاری تنازعات میں مخالفین کا ساتھ دیا۔
پاکستان کو فوجی لحاظ سے طاقت ور بنانے کی حکمت عملی کا مقصد ایک ایسا فوجی نیٹ ورک قائم کرنا تھا جو سوویت یونین اور کمیونزم کے پھیلائو کو روکنے میں معاون ثابت ہو۔ پاکستان کا مسئلہ سوویت یونین یا کمیونزم نہیں تھا بلکہ اس کے اپنے سے بڑے ملک بھارت کے ساتھ کشیدہ تعلقات تھے اور وہ بھارت سے درپیش خطرات کے پیش نظر خود کو عسکری لحاظ سے مضبوط بنانا چاہتا تھا۔ چونکہ پاکستان اور امریکہ سکیورٹی تعلقات اور اسلحہ کی سپلائی کے حوالے سے مختلف رائے رکھتے تھے‘ اس لئے دونوں کے باہمی روابط میں وقتاً فوقتاً تلخی آتی رہی جس کے نتیجے میں اسلحہ کی سپلائی اور عسکری تربیت کے پروگرام متاثر ہوتے رہے۔
امریکہ نے 1965ء اور 1971ء کی جنگوں کے دوران پاکستان کو اسلحہ کی فراہمی بند کر دی؛ تاہم اس پابندی کا اطلاق بھارت پر بھی ہوا تھا۔ چونکہ پاکستان اسلحہ کی فراہمی کے لئے امریکہ پر بہت زیادہ انحصار کر رہا تھا؛ چنانچہ بھارت کے مقابلے میں اس پابندی کا زیادہ نقصان پاکستان کو ہوا۔ 1965ء کی جنگ اور خاص طور پر 1971ء کی جنگ کے بعد پاکستان نے اپنی دفاعی پیداوار کی صنعت کو پروان چڑھانے پر توجہ دینا شروع کی اور اسلحے کی سپلائی کے دیگر ذرائع تلاش کرنا شروع کئے۔ اس نے 1966ء میں پہلی مرتبہ چین سے ٹینک اور طیاروں سمیت فوجی آلات حاصل کرنا شروع کر دیئے۔ 23 مارچ 1966ء کو یوم پاکستان کی پریڈ میں ان چینی ہتھیاروں کی نمائش کی گئی۔ پاکستان نے 1969-70ء کے دوران سوویت یونین سے بھی محدود پیمانے پر MI ہیلی کاپٹرز‘ کمیونیکیشن اور ٹرانسپورٹیشن آلات بھی حاصل کئے۔
اگرچہ امریکہ نے1965ء اور 1971ء کی جنگوں کے بعد اسلحہ سپلائی پر عائد پابندی میں نرمی کر دی تھی مگر اس کے بعد کوئی جنگی طیارہ فراہم نہ کیا‘ اور دسمبر 1979ء میں افغانستان پر سوویت جارحیت تک محدود مقدار میں نئے ہتھیار فراہم کئے گئے۔ ابتداء میں امریکی سی آئی اے نے افغانستان میں روس کے خلاف افغان مزاحمت کیلئے درپردہ ہتھیار اور گولہ بارود فراہم کئے۔ 1981ء میں امریکہ نے پاکستان کی مدد کیلئے ایک چھ سالہ معاشی پیکیج کا اعلان کیا جس کی مالیت 3.2 ارب ڈالر تھی۔ اسے مساوی طور پر معیشت اور اسلحہ خریداری کیلئے کریڈٹ میں تقسیم کر دیا گیا۔ اس امدادی پیکیج کے تحت اسلحہ کی خریداری کے علاوہ پاکستان نے ایک ارب ڈالر کی نقد قیمت سے چالیس F-16 طیارے بھی خریدے۔ 1987-93ء کے چھ سال کیلئے 4.02 ارب ڈالرز کا نیا پیکیج دیا گیا۔ اس میں سے صرف 1.74 ارب ڈالرز فوجی ہتھیاروں کی خریداری کیلئے کریڈٹ تھا۔ ایک الگ معاہدے کے تحت امریکہ آئندہ برسوں میں مزید ساٹھ F-16 طیارے فروخت کرنے پر رضامند ہو گیا۔
جب پاکستان نے اپنے ایٹمی پروگرام پر کام جاری رکھا تو امریکہ نے 1990ء میں فوجی اسلحہ، ٹریننگ پروگرام اور معاشی امداد کا سلسلہ منقطع کر دیا۔ F-16 طیاروں کی خریداری کا دوسرا معاہدہ منسوخ کر دیا گیا اور ان کیلئے ادا کی گئی پیشگی نقد رقم کی واپسی کے لئے پاکستان کو 1995-96ء تک انتظار کرنا پڑا۔ امریکہ نے پاکستان کو جو گندم فراہم کی تھی اس کی قیمت اور ان جنگی طیاروں کے پارکنگ چارجز کی کٹوتی کے بعد یہ رقم واپس کی گئی جب کہ یہ طیارے بنائے تو گئے مگر پاکستان کو فراہم نہیں کئے گئے تھے۔ اکتوبر 1990ء میں عائد کی گئی پابندیاں 2001ء میں اس وقت واپس لے لی گئیں جب پاکستان بھی امریکہ پر نائن الیون حملوں کے بعد دہشت گردی کے خاتمے کی عالمی کوششوں میں امریکہ کے ساتھ شامل ہو گیا۔ پاکستان نے اکتوبر‘ نومبر 2001ء میں افغانستان کے خلاف فوجی ایکشن میں امریکہ کی سپورٹ کی تھی۔
نائن الیون حملوں کے بعد پاکستان کو ملنے والی اقتصادی اور فوجی امداد اور ٹریننگ کا سلسلہ ٹرمپ حکومت نے 2018ء کے اوائل میں دوبارہ منسوخ کر دیا۔ کیا افغانستان میں امن کے حالیہ مشترکہ پالیسی ایجنڈے کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے پاکستان کیلئے اسلحہ خریداری اور عسکری تربیت کا عمل محدود پیمانے پر بحال کر دے گا؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ امریکہ سے اسلحہ خریداری میں بے یقینی کے پیش نظر پاکستان نے دفاعی پیداوار کی اپنی مقامی صنعت کے فروغ کے ساتھ دیگر ذرائع سے بھی اسلحہ خریداری کا عمل جاری رکھا ہوا ہے۔ ابتدا میں پاکستان نے اسلحہ کی فراہمی کیلئے چین کیساتھ تعلقات قائم رکھے۔ 2018ء میں پاکستان نے روس سے بھی کچھ ہیلی کاپٹرز خریدے اور وہ مزید خریدنے میں بھی دلچسپی رکھتا ہے۔
اسلحہ سپلائی کے لئے بھارت کے پہلے ہی روس کے ساتھ تعلقات استوار تھے۔ اب وہ امریکہ سے بھی اسلحہ خریدتا ہے۔ ایران اور ترکی دونوں روس کے ساتھ اپنے سکیورٹی انٹر ایکشن کو مستحکم کر رہے ہیں۔ ترکی روس سے ایک ائیر ڈیفنس سسٹم بھی خرید رہا ہے۔ اگر پاکستان بھی ترکی اور ایران کے نقش قدم پرچلتا ہے تو روس کے لئے خطے میں نئے مواقع پیدا ہو جائیں گے۔ روس وسط ایشیائی ممالک میں پہلے ہی خاصا اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ کیا امریکہ اسلحہ کی خریداری کے لئے پاکستان کو روس کی طرف جھکنے دے گا؟ شاید امریکہ کچھ عرصے کے لئے افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کے مثبت نتائج کا مزید انتظار کرے گا۔