"HAC" (space) message & send to 7575

پاکستان کے اندرونی و بیرونی سکیورٹی چیلنجز

پاکستان کی قومی سلامتی کے دو پہلو ہیں: اندرونی اور بیرونی۔ پاکستان نے بڑی کامیابی سے دہشتگردی جیسے اندرونی چیلنج پر قابو پایا ہے۔ جون 2014 میں آرمی اور پیراملٹری فورسزنے، جنہیں پولیس کی مدد حاصل تھی، قبائلی علاقوں میں بہت بڑا سکیورٹی آپریشن شروع کیا۔ 2017 تک شمالی وزیرستان کو دہشتگرد گروپوں سے پاک کرنے میں کامیابی حاصل کر لی۔ اگلے ایک برس میں دوسرے قبائلی علاقے بھی کلیئر کر لیے گئے۔ اس سے قبل 2009 میں سوات اور 2009-10 میں جنوبی وزیرستان میں بھی کامیاب سکیورٹی آپریشنز کیے گئے تھے۔
یہ بات بڑے تیقن سے کہی جا سکتی ہے کہ اس وقت پاکستان اندرونی دہشتگردی پر پچاسی سے نوے فیصد تک قابو پا چکا ہے۔ آپریشن کے نتیجے میں کچھ دہشتگرد گروہ افغانستان چلے گئے تھے۔ وہاں سے یہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے پاکستانی علاقے میں دہشتگردی کی وارداتیں کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ اکادکا گروہ موجود ہیں۔ اسی لیے کبھی کبھار دہشتگردی کی کوئی واردات ہو جاتی ہے لیکن مجموعی طور پر پاکستان کی اندرونی سلامتی کی صورتحال میں بہت بہتری آئی ہے۔ دہشتگردی کے معاملے کو عمومی جرائم یا شہری علاقوں میں ہونے والی وارداتوں سے خلط ملط نہیں کرنا چاہیے۔ یہ جرائم دہشتگردی یا منظم تشدد کے زمرے میں نہیں آتے۔ آج کل پاکستان کی سکیورٹی فورسز پاک افغان سرحدی علاقے میں مضبوط باڑ لگانے کا کام سرانجام دے رہی ہیں تاکہ سرحد سے غیر قانونی آمدورفت، سمگلنگ اور دہشتگردوں کی آمد پر روک لگائی جا سکے۔ ایسی ہی باڑ پاک ایران سرحد پر بھی لگائی جائے گی۔ دہشتگردانہ سرگرمیوں میں کمی اور اندرونی سکیورٹی صورتحال میں بہتری کے باوجود پاکستان کو بیرونی سکیورٹی معاملات کے حوالے سے سنجیدہ چیلنجز کا سامنا ہے۔ اس کی وجہ انڈیا کے پاکستان کے ساتھ مخاصمانہ تعلقات اور افغانستان کے اندر جاری کشمکش کے پاکستان پر اثرات ہیں۔
انڈیا کے پاکستان کی جانب مخاصمانہ رویے میں اُس وقت سے مزید شدت آ گئی ہے جب سے مودی کی قیادت میں انڈین حکومت نے ملک کو ایک سخت گیر ہندو ریاست بنانے کی طرف پیش قدمی شروع کی ہے۔ اس کیلئے یہ لوگ بھارت میں مذہبی رجعت پسندی اور احیائے مذہب کے اقدامات کر رہے ہیں۔ اس پالیسی سے انڈین سماج اور سیاست پر تو منفی اثرات مرتب ہوئے‘ لیکن اس کی وجہ سے وہاں (بھارت م) سرکاری سطح پر پاکستان مخالف جذبات بھی تقویت پکڑ گئے ہیں اور سخت گیر ہندو  جماعتوں  نے،  جنہیں ''سنگھ پریوار‘‘ کہا جاتا ہے اور جن کی سرخیل آر ایس ایس ہے، پاکستان کیلئے سخت رویہ اپنا لیا ہے۔اگست 2014ء میں نریندر مودی کی حکومت نے پاکستان کے ساتھ مذاکرات ختم کر دیے تھے اور تب سے دونوں ملکوں کے مابین کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔ مودی اور انڈیا کے سخت گیر دائیں بازو کے ہندو گروہوں کے مابین پائی جانے والی قربت کی وجہ سے انڈین حکومت پاکستان کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ نہیں کیونکہ اس کی وجہ سے مودی کے اندرونی سیاسی ایجنڈے کو زک پہنچے گی۔
گزشتہ کچھ عرصے سے انڈیا کے وزیر اعظم، چیف آف ڈیفنس سٹاف اور نئے آرمی چیف پاکستان کے متعلق بہت سخت بیان بازی کر رہے ہیں۔ چار ہفتے قبل انڈیا کے وزیر اعظم نے ایک بیان میں کہا تھاکہ انڈین ملٹری پاکستان کو جنگ کی صورت میں سات سے دس دن میں شکست دے سکتی ہے۔ آپ کو انڈیا کے خلاف سخت بیانات پاکستان کی جانب سے بھی نظر آئیں گے؛ تاہم دونوں ملکوں کے مابین صورتحال میں بنیادی فرق یہ ہے کہ پاکستان کی جانب سے ایسے سخت بیانات اُن اشخاص کی جانب سے آتے ہیں جنہیں جنگ اور نیوکلیئرہتھیاروں کے استعمال کے متعلق حتمی فیصلہ نہیں کرنا۔ انڈیا کے معاملے میں وہ لوگ‘ جنہوں نے سکیورٹی کے حوالے سے بلند ترین سطح پر فیصلے کرنے  ہیں  اورجن میں جنگ چھیڑنے اور نیوکلیائی ہتھیاروں کے حوالے سے فیصلے بھی شامل ہیں، ایسے اشتعال انگیز بیانات دیتے ہیں۔ ان دھمکیوں میں پاکستانی کشمیر کے علاقے میں جنگ یا ملٹری ایکشن کی دھمکیاں بھی شامل ہیں کہ اس پر حملہ کرکے اسے انڈیا کا حصہ بنا لیا جائے گا۔ سب سے زیادہ پریشان کُن چیز یہ ہے کہ انڈیا اپنے زیر انتظام کشمیر میں بم دھماکے کرا کے اس کا الزام پاکستان کے عسکری گروہوں اور خفیہ اداروں پر دھر سکتا ہے۔ انڈیا ایسے کسی خود ساختہ وقوعے کو جواز بنا کر فضائی حملہ کر سکتا ہے کہ وہ پاکستان میں دہشتگردی کے کیمپوں کے خلاف کارروائی کر رہا ہے۔
فروری 2019 میں پلوامہ بالاکوٹ واقعہ ایسی ہی ایک مثال ہے؛ تاہم پاکستان نے اُس وقت یہ بات ثابت کر دی تھی کہ وہ ایسی کسی فوجی مہم جوئی کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان نے اگلے روز ردعمل دیا‘ انڈین مقبوضہ کشمیر میں اہداف کو نشانہ بنایا‘ پاکستان میں داخل ہونے والے دو جہازوں کو مار  گرایا اور اس کے ایک پائلٹ کو گرفتار کر لیا۔ انڈیا کا یہ دعویٰ جھوٹ نکلا کہ انڈین جہازوں نے تین سو سے زیادہ دہشتگردوں کو بالاکوٹ حملے  میں  ہلاک کیا۔ فروری 2019کے اس واقعے سے یہ بات ثابت ہوئی کہ لائن آف کنٹرول کے پار انڈیا کے زمینی یا فضائی حملے کا پاکستان ملٹری مؤثر جواب دینے کی بھرپور اہلیت و صلاحیت کی حامل ہے اور وہ ایسا کرنے کا مصمم ارادہ بھی رکھتی ہے۔
انڈیا کے سکیورٹی حکام کو یہ غلط فہمی ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف بڑی جنگ کے بجائے محدود نوعیت کی فوجی کارروائی کرسکتے ہیں۔ یہ لوگ زمینی اورفضائی افواج کی جانب سے محدود جنگ یا سرجیکل سٹرائیک کی بات کرتے ہیں۔ کنٹرول لائن پر انڈیاکی جانب سے وقتاً فوقتاً کی جانے والی فوجی کارروائیاں بغیرروایتی بڑی جنگ شروع کیے پاکستان پر فوجی دبائو ڈالنے کی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ یہ سوچ انڈیا کیلئے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔انڈیا کے اندر انڈین ریاستی حکام اور غیرریاستی حلقوں میں ایک اور خطرناک سوچ بھی موجود ہے کہ بھارت پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کیلئے یہاں موجود ناراض گروہوں کو سیاسی اورمادی مدد فراہم کرے۔ انڈیا کی خفیہ ایجنسی اس سے قبل تحریک طالبان پاکستان کے ایک دھڑے کو مالی مدد فراہم کرتی رہی ہے تاکہ پاکستان پر سکیورٹی دبائو  میں  اضافہ کیا جائے۔ بہت سے ریٹائرڈ آرمی اور سیاسی تجزیہ کار اکثر انڈین ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی تراکیب و تجاویز دیتے نظر آتے ہیں۔
پاکستان اور بھارت دونوں کے پاس نیوکلیئر ہتھیار اور انہیں استعمال کرنے والے جدید میزائل ڈلیوری سسٹم موجود ہیں۔ ایسی صورتحال میں، کسی بھی قِسم کا فوجی ایڈونچر، جسے انڈیا محدود نوعیت کی جنگ یا سرجیکل سٹرائیک کا نام دیتا ہے، خطرناک سوچ ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستان یہ واضح کر چکا ہے کہ وہ اپنی آزادی، جغرافیائی وحدت اور اپنے علاقے پر اقتدار اعلیٰ کے تحفظ کیلئے کسی بھی حد تک جائے گا۔ پاکستان ایسے مزاحمتی توازن کی بات کرتا ہے جس میں تمام روایتی جنگی حکمت عملی اور غیرروایتی سکیورٹی سسٹم شامل ہیں۔ اسے فل سپیکٹرم ڈیٹرنس کا نام دیا جاتا ہے۔ پاکستانی سرزمین یا آزاد کشمیر پر کسی بھی روایتی حملے یا سرجیکل سٹرائیک کا جواب بھی اسی انداز میں دیا جائے گا۔ اگر یہ معاملہ نیوکلیائی ہتھیاروں کی سطح پر پہنچ جاتا ہے تو انڈیا کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ پاکستان کے پاس قابل اعتماد جوہری صلاحیت موجود ہے جو زمین، فضا اور سمندر پر محیط ہے اور اس کے پاس محاذِ جنگ پر استعمال کیے جانے والے نیوکلیئر ہتھیار بھی موجود ہیں۔
بڑی قوتوں اور دوست ممالک کوچاہیے کہ وہ فعال طریقے سے جنوبی ایشیا کی صورتحال میں مداخلت کریں اور انڈیا پردبائو ڈالیں کہ وہ پاکستان مخالف اپنی سیاست میںنرمی لائے اور مذاکرات کی میز پر بیٹھے۔ اگرچہ پاکستان کا مطالبہ یہ ہے کہ کشمیر کا سیاسی مستقبل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہو جو 1948-49میں منظور کی گئی تھیں؛ تاہم وہ تمام متنازعہ معاملات پر‘ بشمول کشمیر اور دہشتگردی، بات چیت کیلئے تیار ہے۔ پاکستان جنگ کو کوئی خوشگوار آپشن تصور نہیں کرتا؛ تاہم معطل شدہ مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کیلئے انڈیا کوکشمیر میں صورتحال کو نارمل کرنا ہوگا تاکہ پتا چل سکے کہ وہ مذاکرات کیلئے تیار ہے۔ اب تک انڈین حکومت کی جانب سے مذہبی سخت گیروں اور انتہا پسند ہندو گروہوں کی حمایت میں جتنی تیزی دکھائی جا رہی ہے ایسے میں مذاکرات کیلئے انڈین حکومت کی رضامندی حیران کن چیز ہی ہوگی۔ یوں محسوس ہوتا ہے‘ پاکستان اور انڈیا کے مابین تنائو اورمخاصمت کا سلسلہ ابھی چلے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں