"HAC" (space) message & send to 7575

پاکستانی سیاست میں تسلسل اور تبدیلی

حزب اختلاف کے گیارہ جماعتی اتحاد‘ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے عمران خان کی پی ٹی آئی کی حکومت گرانے کے لیے احتجاج اور جلسے جلوسوں کے جس پروگرام کا اعلان کیا ہے وہ کوئی عجیب شے نہیں۔ ملک میں قائم ہونے والی سویلین سیاسی حکومتوں کے عرصہ اقتدار میں وقتاً قوقتاً اس قسم کی سیاسی ہلچل کا یہ سلسلہ 1988میں جنرل ضیا کے مارشل لا کے بعد قائم ہونے والی محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی سویلین حکومت سے جاری ہے ۔ موجودہ حزب اختلاف کی جانب سے اپنی تحریک کوحق بجانب ثابت کرنے کے لیے جمہوریت‘ آئین پسندی او ر سویلین بالادستی کے جو نعرے بلند کیے جارہے ہیں وہ بھی جانی بوجھی حکمت عملی ہے۔ آج کل ہم پاکستانی سیاسی میں جس چیز کامشاہدہ کر رہے ہیں وہ تسلسل اور تبدیلی کی نمائندہ ہے۔ تبدیلی کا تعلق راہنمائوں اور سیاسی سیاق و سباق سے ہے اوراب جدید میڈیا خصوصاً انٹرنیٹ کی بدولت پیغام و اطلاعات رسانی کے ذرائع بھی باآسانی دستیاب ہیں۔ آج جو سیاست دان ہمیں فعال دکھائی دیتے ہیں ان میں سے اکثریت 1985کے بعد والے دور میں سامنے آئی۔ جنوری 1982میں جنرل ضیا کی نامزد کردہ مجلس شوریٰ اور پھرفروری 1985میں ہونے والے غیر جماعتی انتخابات نے نئے لوگوں سیاست دانوں کی نئی نسل کیلئے امکانات کے در وا کر دیے۔ ان میں سے کچھ رہنمائوں نے ضلعی سطح سے صوبائی اور قومی سطح کے سیاسی میدان تک کا سفر ڈرامائی رفتار ی سے طے کیا۔ 1985کے بعد سامنے آنے والے سیاسی طبقے میں دولت مندوں کا ایک نیا طبقہ بھی شامل تھا‘ ان لوگوں نے زیادہ تر دولت خلیجی ممالک میں لیبر بھیج کر یا رئیل اسٹیٹ کے کاروبار سے کمائی تھی‘ انہی کی وجہ سے ہماری سیاست میں پیسے کا چلن ہوا کہ سیاسی میدان میں داخلے کے لیے پیسے لگانا اور پھر سیاست کے ذریعے پیسہ کمانا۔اراکین پارلیمان کو ترقیاتی فنڈ دینا اس عرصے میں ایک عمومی روش بن گیا تھا۔ اس سب کچھ نے پاکستانی سیاست میں نمایاں تبدیلی پیدا کردی‘ یہ تبدیلی اتنی شدید تھی کہ اس کے اثرات ہمیں آج بھی دکھائی دیتے ہیں۔
اطلاعات و ابلاغ کے جدید ذرائع نے بھی ہماری سیاست کو نیا رخ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ الیکٹرانک و سوشل میڈیا کی دستیابی نے اپنے خیالات و نظریات کی ترویج کے کام نہایت آسان بنا دیا۔ موجودہ سیاست کا ایک حصہ تو اسی ابلاغ کے بل پر قائم دائم ہے۔ آپ صرف ایک نظر انفرادی ویب پیجز اور یو ٹیوب چینلوں پر ڈالیں‘ یہاں اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی مکمل آزادی ہے بھلے ہی یہاں موجود اطلاعات قابل اعتبار نہ ہوں لیکن یہ بہرحال موجود ہیں۔ پروپیگنڈا کی اکثر مہمات انہی ذرائع کے توسط سے چلتی ہیں۔ پیشہ ورانہ طور پر تگڑی میڈیا ٹیم بڑی آسانی سے اپنی مرضی کی جانبدارانہ ویڈیوز اور پیغامات نشر کر کے بہت بڑے احتجاج کا ماحول بنا سکتی ہے۔دسمبر 1988سے ملک میں سویلین حکومتوں کا دور بحال ہونے کے بعد سے سیاست میں کس شے کا تسلسل ہے؟ اور یہاں یہ تسلسل حکومت وقت اور اس کی حزب اختلاف دونوں کے ہاں پایا جاتا ہے۔ تمام حکومتیں بری گورننس کا مظاہرہ کرتی اور شہریوں کو بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی کا ذمہ دار گزشتہ حکومت کو ٹھہراتی ہیں۔ مہنگائی‘ نوجوانوں میں بیروزگاری اور سماجی بھلائی کی جانب عدم توجہ تمام حکومتوں میں مشترک نکات ہیں۔ کوئی حکومت اپنی بری کارکردگی کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتی اور وہ ہر شے کا الزام ماضی کی حکومتوں اور اپوزیشن کی جانب سے عدم تعاون پر ڈالتی رہتی ہے۔اپوزیشن کی کہانی میں بھی تسلسل کا طویل سلسلہ موجود ہے۔ اپوزیشن ہمیشہ حکومت کے قانونی جواز پر سوال اٹھاتی ہے اور وزیر اعظم کو سکیورٹی رسک قرار دیتی ہے۔ حکومت بھی حزب اختلاف کو اینٹی سٹیٹ قرار دینے میں تاخیر نہیں کرتی۔ تمام وزرائے اعظم بے نظیر بھٹو‘ نواز شریف‘ گیلانی ‘زرداری‘ اور عمران خان کو اپوزیشن کی جانب سے ایسے ہی الزامات کا سامنا رہا کہ وہ قومی سلامتی کیلئے خطرہ ہیں۔ کسی حکومت کو اپوزیشن کے احتجاجی ٹرین یا روڈ مارچ یا احتجاج سے مفر نہیں۔ بے نظیر بھٹو کا اپنے دونوں ادوار میں کے دوران احتجاج اور استعفیٰ کے مطالبہ کا سامنا کرنا پڑا۔ بہت سی اسلامی جماعتوں نے ایک عورت کو بطور سربراہ مملکت قبول کرنے سے ہی انکار کر دیا۔ نواز شریف نے‘ جو 1988تا 1990 پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے‘ بے نظیر کی وفاقی حکومت کے ساتھ پنجہ آزمائی کر کے مقتدرہ پر اپنا سکہ جما لیا۔نوبت بہ ایں جا رسید کہ بطور وزیر اعظم محترمہ جب لاہور آتیں تو انہیں سرکاری پروٹوکول تک نہ دیا جاتا تھا۔
جب نواز شریف وزیر اعظم بنے تو پیپلز پارٹی نے ہر ممکن کوشش کی کہ وہ کسی طور سکون سے حکومت نہ کر سکیں۔ نواز حکومت کو پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ اور ٹرین مارچ کا سامنا کرنا پڑا۔ اپنے دوسرے دور حکومت میں نواز شریف نے ایک مختلف حکمت عملی اپنائی اور اپنے اقتدار کو مضبوط بنانے کیلئے تمام اداروں کو مسخر کرنے کی کوشش کی۔ ان کی یہ کوشش اس وقت بری طرح ناکام ہو گئی جب انہوں نے غیر ملکی دورے پر گئے ہوئے آرمی چیف کو بھی ہٹانے اور اس کی جگہ اپنے ایک وفادار شخص کو تعینات کرنے کی کوشش کی۔ توقعات کے عین مطابق ان کی یہ کوشش ناکام ہو گئی۔
2008۔2013اور 2013۔2018 قائم رہنے والی سویلین حکومتوں کو بھی اپوزیشن کی جانب سے احتجاجی سیاست کا سامنا کرنا پڑا۔ اگرچہ اس عرصہ میں اپوزیشن حکومت گرانے کے اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوئی؛ تاہم اس احتجاج کی وجہ سے حکومت نارمل سیاسی حالات میں اپنا کام کرنے سے قاصر رہی۔ اب موجودہ حکومت کو بھی ایسے ہی چیلنجز کا سامنا ہے۔ یہ ویسے ہی حالات ہیں جیسے انہوں نے نواز شریف کیلئے 2014 میں پیدا کیے تھے۔ جب کبھی سویلین حکومت کا بوریا بستر لپیٹا گیا تو اس زمانے کی حزب اختلاف نے اس عمل کو خوش آمدید کہا۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی رہنمائوں پر سخت ترین تنقید بھی سیاستدانوں نے ہی کی۔ اگر آج کچھ جماعتوں کو جمہوریت‘ آئین پسندی اور سویلین سپرمیسی کا غم کھائے جا رہا ہے تو ایسا نہیں ہے کہ یہ جماعتیں حقیقی معنوں میں ان اصولوں سے کوئی لگائو رکھتی ہیں۔ یہ ان کا سیاسی طور پر وارے کا سودا ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں نے ماضی و حال میں کسی نہ کسی طور نوازشات سے فائدہ اٹھایا ہے۔اگر سیاسی رہنما حقیقی طور پر ملک میں جمہوریت اور سویلین بالادستی کے خواہاں ہیں تو انہیں اپنی روز مرہ کی سیاست میں تبدیلی لانا ہوگی۔ جمہوریت کا تقاضا ہے کہ آپ توازن اور برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جمہور کے فیصلے کو قبول کریں بھلے یہ فیصلہ آپ کے موافق نہ ہو۔ بجائے اس کے کہ آپ منتخب رہنما کی قانونی حیثیت پر ہی انگلی اٹھا دیں آپ کو چاہیے کہ ان معاملات پر بات چیت کو باہمی سہولت کے حساب سے آگے بڑھاتے رہیں۔ 
سویلین اداروں کی حقیقی قوت ان کے چلنے اور اس عوامی حمایت پر ہے جو اسی صورت میں انہیں دستیاب ہو سکتی ہے اگر وہ عام آدمی کو امید دلائیں کہ ان کے اندر اس کے مسائل حل کرنے اور اسے ایک محفوظ مستقبل دینے کی صلاحیت موجود ہے‘ اس کے علاوہ انہیں چاہیے کہ اپنی گورننس کے معیار میں بہتری لائیں تاکہ سماجی و معاشی مساوی ترقی ممکن ہو اور عام آدمی کی زندگی میں بہتری آئے۔ یہ کوئی ایک روز میں حل ہونے والے مسائل تو ہیں نہیں ان کے حل کیلئے حکومت اور اپوزیشن کے مابین ورکنگ ریلیشن شپ قائم ہونا ضروری ہے۔ محاذ آرائی پر مبنی اس سیاست کی وجہ سے سویلین پراسیس کمزور ہوتا ہے اور غیر منتخب ریاستی اداروں کو اپنی من مانی کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ سویلین رہنمائوں کو یہ امید نہیں رکھنی چاہیے کہ کوئی ریاستی ادارہ یا دوست ملک ان کے اقتدار کو استحکام دے سکتا ہے۔ انہیں جمہوری اقدار کو فروغ دے کر اپنا سیاسی قد بڑھانا چاہیے اور انہیں ایک دوسرے کو کسی بھی قیمت پر مطعون کرنے سے باز رہنا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں