20 جنوری 2021 کو جو (جوزف) بائیڈن کے امریکی صدر کے عہدے پر فائز ہونے کا پاکستان کے تمام سیاسی حلقوں نے خیرمقدم کیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے نئے صدر کو مبارکباد کا پیغام بھیجا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود نے کہا کہ پاکستان ''طویل مدتی، وسیع البنیاد اور کثیر جہتی تعلقات‘‘ کے قیام کیلئے نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہے۔
امریکہ میں قیادت کی تبدیلی امریکی پالیسیوں میں غیر متوقع اور اچانک اتار چڑھاؤ کے دور کا خاتمہ کرتی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے معاملے میں یہ عمل کچھ زیادہ تھا۔ توقع کی جا رہی ہے کہ نئے صدر امریکہ کی بحالی اور اپنے یورپی اتحادیوں کے ساتھ امریکی تعلقات میں بہتری لانے کیلئے کام کریں گے۔ صدر بائیڈن کے ابتدائی فیصلوں سے عالمی سطح پر امریکی ریاست کے امیج کی بحالی میں مدد ملی ہے۔ ان فیصلوں میں کووڈ19 سے مؤثر انداز میں نمٹنے‘ تیز رفتاری سے ویکسین کے انتظام پر فوری توجہ دینے، پیرس کے ماحولیاتی معاہدے میں واپسی، عالمی ادارہ صحت سے امریکہ کی واپسی کے عمل کو روکنے جیسے معاملات شامل ہیں۔ کچھ مسلم ممالک کے شہریوں کے امریکہ جانے پر عائد پابندی بھی ہٹا لی گئی ہے۔
امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات نے گزشتہ برسوں میں بہت سی تبدیلیاں محسوس کیں۔ دونوں نے وقتاً فوقتاً ایک دوسرے کے حوالے سے شکایات کیں؛ تاہم دونوں نے ہمیشہ ورکنگ ریلیشن شپ قائم رکھا۔ امریکہ پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ یہ تعلق تب بھی برقرار رہا جب دونوں ممالک کو اپنے باہمی تعلقات میں مشکلات کا سامنا تھا۔ امریکہ نے انسانی اور معاشرتی ترقی کے مختلف منصوبوں کیلئے معاشی مدد فراہم کی۔ اس نے ریاستی اداروں اور جمہوری عمل کو مضبوط بنانے کیلئے بھی مالی اور تکنیکی مدد فراہم کی۔ امریکہ نے بین الاقوامی مالیاتی اداروں جیسے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک سے مالی اور تکنیکی مدد اور مالی قرض حاصل کرنے کے سلسلے میں پاکستان کی مدد کی۔ پاکستان نے وقتاً فوقتاً امریکہ سے دفاعی سازوسامان اور تربیت کی سہولیات بھی حاصل کیں۔ پاکستان کے نقطہ نظر سے، امریکہ کے ساتھ تعلقات میں دلچسپی کے کئی بڑے شعبے ہیں‘ جیسے افغانستان، بھارت‘ امریکہ کی جانب سے سی پیک کی مخالفت، اور امریکہ ایران خراب تعلقات۔
پاکستان نے امریکی حکومت اور افغان طالبان کے مابین بات چیت میں آسانی پیدا کی، جس کے نتیجے میں ان کے مابین 29 فروری 2020 کو امن معاہدہ ہوا۔ بعد ازاں، کچھ تاخیر کے ساتھ ستمبر 2020 میں کابل حکومت اور طالبان کے مابین بھی بات چیت کا آغاز ہوا۔ دونوں جانب سے افغانستان میں مستقبل کے سیاسی نظام کے بارے میں سخت گیر رویے اور افغان نیشنل آرمی/ امریکی فورسز اور طالبان کے مابین جاری پُر تشدد واقعات کی وجہ سے بات چیت کے اس سلسلے میں زیادہ کامیابی حاصل نہیں کی جا سکی۔ طالبان نے اپنے اطمینان کیلئے افغان آئین میں کچھ تبدیلیوں پر راضی ہونے کے حوالے سے کابل حکومت سے یقین دہانی کا مطالبہ کیا ہے۔ افغانستان میں اقتدار کے انتظامات کی تنظیم نو کے مطالبے پر کابل قیادت کا رویہ ایسا نہیں کہ وہ اس کیلئے تیار ہے۔ نئی امریکی انتظامیہ اپنی فوج کو واپس لانے کی موجودہ پالیسی کو تبدیل نہیں کر سکتی؛ البتہ یہ پالیسی اس وقت تک عمل میں نہیں آ سکتی جب تک افغانستان میں امن و استحکام نہ ہو۔ اس ضمن میں بھی امریکہ کو اپنی پالیسی اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔
افغانستان میں امن عمل کی حمایت کرتے ہوئے، پاکستان امریکہ سے یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنا سفارتی دستہ کابل حکومت کو یہ سمجھانے کے لئے استعمال کرے کہ وہ وہاں مقیم پاکستانی طالبان اور بھارتی سکیورٹی ایجنسیوں کے ذریعے اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دے۔ ابھی تک، امریکہ اس سلسلے میں پاکستان کے لئے مددگار ثابت نہیں ہوا ہے۔ پاکستان افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کی حمایت کرتا ہے لیکن وہ چاہتا ہے کہ یہ کام ملک میں داخلی سیاسی انتظامات پر کابل حکومت اور افغان طالبان کے مابین کوئی سمجھوتہ طے پائے بغیر نہ ہو۔
اندیشہ ہے کہ بھارت‘ پاک امریکہ تعلقات میں دشواریاں پیدا کر سکتا ہے۔ امریکہ بھارت کو چین مخالف پالیسی میں ایک سٹریٹیجک شراکت دار کے طور پر دیکھتا اور بھارت کو ایشیا بحرالکاہل کی پالیسی میں ایک مددگار عنصر تصور کرتا ہے۔ امریکہ خطے میں چین کے اثرورسوخ کے سدِ باب کیلئے بھارت، آسٹریلیا اور جاپان کے ساتھ ایک سکیورٹی‘ مشاورتی معاہدے پر بھی دستخط کر چکا ہے۔ پاکستان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ بھارت اور امریکہ کے مابین 2005 سے بڑھتے ہوئے تعلقات نے پاکستان کے ساتھ بھارتی طرزِ عمل میں تکبر پیدا کر دیا ہے۔ ایک سپر پاور کا قریبی اتحادی ہونے کا یہ تکبر مئی 2014 کے بعد سے زیادہ واضح ہو چکا ہے، جب نریندر مودی بھارت کا وزیر اعظم بنا تھا۔ مودی حکومت نے اگست 2014 میں پاک بھارت مذاکرات کو معطل کر دیا تھا اور اس کے بعد سے دونوں کے مابین دو طرفہ سطح پر کوئی بات چیت نہیں ہو سکی۔ ان کے تعلقات نچلی سطح پر آ چکے ہیں۔ اگست 2019 میں مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کے فیصلے نے دونوں ملکوں کے تعلقات کو ایک خطرناک جہت دے دی۔
ٹرمپ انتظامیہ کی جنوبی ایشیا میں بڑی دلچسپی پاکستان اور بھارت کے مابین مکمل جنگ سے گریز کو یقینی بنانا تھا۔ اس نے کشمیر میں لائن آف کنٹرول، مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں پر ہونے والے تشدد اور دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعطل پر کوئی توجہ نہیں دی۔ امریکہ نے بھارت کو متنازعہ معاملات پر پاکستان کے ساتھ دوبارہ بات چیت بحال کرنے کی ترغیب نہیں دی کیونکہ وہ مودی حکومت کو ناخوش نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اگر بائیڈن بھارت کی طرف واضح جھکاؤ کی ٹرمپ کی پالیسی پر عملدرآمد جاری رکھتے ہیں اور ایل او سی پر فوجی سرگرمیوں کے ذریعے بھارت کو پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی اجازت دیتے ہیں تو پاکستان کیلئے یہ بڑی مایوسی کی بات ہو گی۔
چین مخالف پالیسی کے ایک حصے کے طور پر پاک چین اقتصادی راہداری کی مخالفت میں ٹرمپ انتظامیہ نے بھارت سے ہاتھ ملایا۔ توقع کی جاتی ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ چین کے بارے میں محتاط پالیسی اختیار کرے گی۔ سی پیک ایک بین الاقوامی اقتصادی رابطہ منصوبہ ہے جو پاکستان کی سماجی و معاشی ترقی کو فروغ دے گا۔ امریکہ کو پاکستان سے یہ امید نہیں رکھنی چاہئے کہ وہ چین کو معاشی اور فوجی دباؤ میں رکھنے کی اس کی پالیسی میں فٹ ہو جائے گا۔ اگر بائیڈن انتظامیہ نے سی پیک کی مخالفت کی تو پاکستان کی چین نواز پالیسیاں اس سے قطع نظر بھی جاری رہیں گی۔
اگر نئی امریکی انتظامیہ ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو مستحکم کرنے کیلئے یورپی ریاستوں کی سوچ اپنائے اور ایران پر عائد پابندیاں نرم کرے گی تو 2015 والا ایران‘ امریکہ اور یورپی یونین کا جوہری معاہدہ بحال ہو سکتا ہے۔ پاکستان اس کا خیرمقدم کرے گا اور اس طرح کی تبدیلی سے خوش ہوگا کیونکہ اس سے خلیجی خطے میں تناؤ کم ہوگا۔ اس سے پاکستان ایران کے ساتھ زیادہ فعال تعلقات کو آگے بڑھانے اور ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے میں واپس آنے کا اہل ہو جائے گا۔
توقع کی جارہی ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ اگلے دو ماہ میں خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرے گی اور تبھی ہمیں معلوم ہوگا کہ بائیڈن انتظامیہ جنوبی ایشیا میں امریکہ کے پروفائل کو ٹھیک بنائے گی۔ اسے پاکستان اور آس پاس کے امن و استحکام کے امکانات کو بہتر بنانے کیلئے بھارت اور افغانستان کے بارے میں پاکستان کے خدشات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔