افغانستان اس کی تازہ مثال ہے کہ طاقتور ریاستوں کیلئے افغانستان جیسے کمزور ملک میں فوجی مداخلت کرنا کس قدر آسان ہوتا ہے، لیکن ان کیلئے ایسے ملک سے واپس باہر نکلنا ہمیشہ مشکل ہوتا ہے۔ ان کی مداخلت جارحیت کے شکار ملک میں داخلی تقسیم کو تیز کرتی ہے، جس سے امن و استحکام کیلئے قابل عمل داخلی انتظامات کا اہتمام مشکل ہو جاتا ہے۔ ان دنوں امریکہ اور نیٹو ایسے ہی مخمصے کا شکار ہیں۔ ان کے سامنے سوال یہ ہے کہ افغانستان سے کس انداز میں دستبردار ہوا جائے کہ کابل میں ایک مستحکم اور وسیع تر حمایت یافتہ حکومت موجود رہے اور ان کے مفادات بھی محفوظ رہیں۔ 17-18 فروری، 2021 کو نیٹو ممالک کے وزرائے دفاع کے اجلاس میں افغانستان سے نیٹو فوجی امدادی مشن کی جلد واپسی کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکا۔ اس مشن میں تقریباً 9600 افراد شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، امریکہ کے افغانستان میں تقریباً 2500مسلح فوجی موجود ہیں۔ نیٹو رہنماؤں نے ان اہم امور پر تبادلہ خیالات کیا: افغانستان سے نیٹو کی واپسی اور افغانستان میں قیام امن اور انخلا سے متعلق امور کے بارے میں نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تعاون کرنا۔
ٹرمپ انتظامیہ نے افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کیلئے یکم مئی 2021 کی ڈیڈ لائن دے رکھی تھی۔ نئی بائیڈن انتظامیہ افغانستان کی صورتحال کا جائزہ لے رہی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ امریکی اور نیٹو فوجیوں کی واپسی میں تاخیر ہو جائے گی جس کی بنیادی وجہ افغانستان کے اندر بڑھتا ہوا تشدد اور افغان طالبان و کابل حکومت کے مابین غیر نتیجہ خیز مذاکرات ہیں۔ نیٹو اتحاد فوجیوں کی واپسی کے بارے میں امریکی فیصلے کا انتظار کرے گا۔
امریکہ اور نیٹو‘ دونوں افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلا لینا چاہتے ہیں، لیکن جو چیز انہیں ایسا کرنے سے روکے ہوئے ہے‘ وہ افغانستان میں بڑھتا ہوا تشدد اور غیر یقینی سیاسی صورتحال ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد افغانستان القاعدہ، داعش اور طالبان جیسے دہشتگرد گروہوں کیلئے دوبارہ ایک پناہ گاہ بن جائے‘ لہٰذا، وہ انخلا کے بعد کے دور میں افغانستان کی سلامتی کی صورتحال یقینی بنانا چاہتے ہیں۔
امریکہ اور نیٹو ممالک چاہتے ہیں کہ ان کے انخلا سے پہلے افغانستان میں دو بڑی چیزیں رونما ہو جائیں۔ پہلی، طالبان اور افغان حکومت کے مابین ایک امن معاہدہ‘ جس کے تحت دونوں کابل میں اقتدار کی شراکت پر راضی ہوں۔ دوسری، فوجیوں کے انخلا کے بعد بھی، امریکہ اور نیٹو ممالک اقتصادی مدد فراہم کرنے کی موجودہ پالیسی کو جاری رکھنے کیلئے کابل حکومت کے ساتھ معاملات طے کرنا چاہتے ہیں۔ وہ سکیورٹی امور میں بھی محدود تعاون کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ افغان فوج کیلئے تربیت کی سہولیات، اسلحہ کی فراہمی اور افغانستان میں ایک چھوٹے سے فوجی مشاورتی گروپ کی موجودگی۔ امکان ہے کہ کابل میں موجودہ غنی حکومت امریکہ کے ساتھ اس طرح کے تعلقات پر راضی ہو جائے گی؛ تاہم، اگر طالبان امن معاہدے کے بعد کابل میں قائم وسیع البنیاد حکومت میں شامل ہو جاتے ہیں تو یہ واضح نہیں کہ وہ (طالبان) محدود امریکی فوج کی موجودگی پر راضی ہوں گے یا نہیں؛ البتہ وہ امریکہ کی جانب سے معاشی حمایت اور ورکنگ ریلیشن شپ کے تسلسل کا خیرمقدم کریں گے۔
29 فروری (یکم مارچ) کو طالبان امریکہ دوحہ امن معاہدے کا پہلا سال مکمل ہو رہا ہے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران اس معاہدے پر عملدرآمد کی سست رفتار سے افغانستان میں جلد امن و استحکام کی امید پیدا نہیں ہو سکی۔ مثال کے طور پر، کابل حکومت کی طرف سے طالبان قیدیوں کی رہائی، جیسا کہ امن معاہدے میں طے کیا گیا تھا، شیڈول کے مطابق عمل میں نہیں لائی جا سکی‘ جس کی وجہ سے طالبان اور کابل حکومت کے مابین مذاکرات کا آغاز تاخیر کا شکار ہوا۔ اس بات چیت کا آغاز ستمبر 2020 میں دوحہ میں ہوا تھا، لیکن فریقین کے باہمی عدم اعتماد کی وجہ سے یہ بہت سست روی سے آگے بڑھی ہے۔ پچھلے سال دو دسمبر کو طالبان اور کابل حکومت نے ''وے فارورڈ ایگریمنٹ‘‘ کے عنوان سے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس سے ان کے مابین بات چیت کا ایک فریم ورک میسر آیا۔ اس کے بعد جنوری 2021 کے پہلے ہفتے میں مختصر بات چیت ہوئی۔ اس سے قبل 2020 میں، افغانستان میں امن سے متعلق‘ پاکستان کے اہم دورے ہوئے تھے۔ افغانستان میں مفاہمت سے متعلق امریکی نمائندہ خصوصی ڈاکٹر زلمے خلیل زاد نے دو بار پاکستان کا دورہ کیا۔ طالبان کی قیادت دو بار اسلام آباد آئی۔ افغانستان کے متعدد وفود نے پاکستان کا دورہ کیا۔ ان میں ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کا پہلا سرکاری دورہ بھی شامل تھا۔ وزیر اعظم عمران خان نے نومبر میں کابل کا پہلا دورہ کیا۔ لیکن ان پیشرفتوں سے طالبان اور کابل حکومت کے مابین سیاسی تصفیہ کے امکانات میں کوئی خاص بہتری پیدا نہیں ہوئی۔ دونوں اطراف کچھ لوگ سیاسی تصفیہ کے حامی نہیں۔ یہ مسئلہ حکومت میں زیادہ سنگین ہے‘ جہاں لوگوں کی ایک بڑی تعداد حکومتی نظام کی تنظیم نو کے مطالبے پر طالبان کو ایڈجسٹ نہیں کرنا چاہتی۔ ان میں سے کچھ کو خدشہ ہے کہ اگر طالبان اور کابل کی قیادتیں وسیع البنیاد حکومت قائم کرنے کا فیصلہ کرتی ہیں تو ان لوگوں کی سیاسی طاقت ضائع ہو گی۔
طالبان نے کابل حکومت اور اس کے وفاداروں کے خلاف تشدد آمیز کارروائیوں میں شدت پیدا کردی ہے۔ خود کش بم دھماکے، سڑک کنارے نصب بموں کے دھماکے اور طالبان اور افغان فوج کے مابین جھڑپیں عام ہو چکی ہیں۔ امریکی فوج اکثر افغان فوج کی طالبان کے خلاف کارروائیوں میں مدد کرتی ہے۔ افغانستان میں امن معاہدے میں تاخیر سے افغانستان میں جنگ بندی کیلئے طالبان قیادت کو راضی کرنے اور کابل کے ساتھ امن معاہدے کے حوالے سے پاکستان پر امریکی دباؤ میں اضافہ ہو گیا ہے۔ معاملات کے دوحہ منتقل ہونے کے بعد طالبان کی قیادت پر پاکستان کے اثرورسوخ میں کمی آئی ہے۔ طالبان رہنما اب بھی پاکستانی قیادت کی بات سنتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ وہ مشوروں پر عمل بھی کریں۔ پاکستان کابل اور طالبان کے مابین سیاسی تصفیے کا حامی ہے اور کابل میں ایسی وسیع البنیاد حکومت کے قیام کا بھی‘ جس میں طالبان شامل ہوں۔ ایسا کابل حکومت اور طالبان رہنمائوں کے اپنے دلوں میں ایک دوسرے کیلئے گنجائش پیدا کرنے تک نہیں ہو سکتا۔ اس ساری صورتحال کا مطلب یہ ہے کہ امریکی فوجیوں کے انخلا کی حتمی تاریخ میں توسیع ہوسکتی ہے۔ پاکستان بھی یہی چاہتا ہے کہ امریکی اور نیٹو فوجیں انٹرا افغان امن معاہدے پر دستخط اور کابل میں وسیع البنیاد حکومت کے قیام کے بعد ہی افغانستان سے نکلیں۔
پاکستان کو افغانستان میں بڑھتے ہوئے داخلی انتشار پر تشویش ہے کیونکہ وہاں تشدد کا بڑھنا پاکستان پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔ مزید افغان مہاجرین پاکستان آسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں افغانستان میں داخلی خرابی کی وجہ سے پاکستانی طالبان اور ان کے اتحادیوں کو پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیوں کیلئے افغان سرزمین کا استعمال جاری رکھنا آسان ہو سکتا ہے۔ یہ داخلی انتشار بھارت کو افغانستان میں پاکستان مخالف گروپوں کو لاجسٹک سپورٹ اور مالی مدد فراہم کرنے کا اہل بنا سکتا ہے لہٰذا پاکستان افغانستان میں داخلی سیاسی تصفیے اور کابل میں ایسی حکومت کے قیام کا خواہش مند ہے جو اگر سب کی نہیں تو زیادہ تر کی متفقہ ہو اور جو افغانستان میں سیاسی اور فوجی مفادات کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو؛ تاہم، اس مرحلے پر، افغانستان میں ایسی مثالی صورتحال پیدا ہونا ممکن نہیں۔ اس مسئلے کا ایک حل یہ ہو سکتا کہ افغانستان سے ملحق ریاستیں اور بڑی طاقتیں مشترکہ طور پر کابل حکومت اور طالبان کو رضامند کریں کہ وہ داخلی امن اور وسیع البنیاد حکومت پر متفق ہوں اور یہ کہ وہ افغانستان میں اس طرح کے داخلی انتظامات کی تائید کریں گی۔