امریکہ کے نئے صدر جو بائیڈن 20 جنوری سے اپنے عہدے پر فائز ہو چکے ہیں۔ نئی انتظامیہ‘ ٹرمپ انتظامیہ سے وراثت میں ملنے والی خارجہ پالیسی کا از سرِ نو جائزہ لے رہی ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے اربابِ بست و کشاد نے باہمی طور پر مفید امور پر نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ مستقل تعلقات کے حوالے سے ایک یا دو باضابطہ بیانات جاری کیے‘ تاہم پاکستان فی الحال افغانستان، پاکستان اور بھارت سے متعلق جائزے کے بعد کے باقاعدہ امریکی بیان کا انتظار کر رہا ہے۔ پاکستان کے بارے میں اور اس کے آس پاس کے معاملات پر امریکی مفادات سے متعلق امریکی پالیسی میں کسی بڑی تبدیلی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ ضروری ہے کہ پاکستان عالمی اور علاقائی صورتحال کا تحمل کے ساتھ جائزہ لے اور قومی مفادات کے تحفظ کیلئے نئے اقدامات کرے۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے پاکستان کو فی الوقت درج ذیل زمینی حقائق کا سامنا ہے: (1) بائیڈن انتظامیہ اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کرکے بیرون ملک امریکی امیج کو بہتر بنانے کیلئے کام کر رہی ہے اور عالمی سطح پر جمہوریت، انسانی حقوق اور انسانیت پر زور دے رہی ہے۔ (2) جنوبی ایشیا اور ایشیا بحرالکاہل کے خطوں میں بھارت کے ساتھ سٹریٹیجک شراکت دار کی حیثیت سے برتاؤ کی امریکی پالیسی جاری رہے گی اور نئے چین بھارت سرحدی تنازع کے تناظر میں یہ تعلقات مزید مستحکم کئے جائیں گے۔ (3) پاکستان دوست ملک ہے‘ امریکی اتحادی یا سٹریٹیجک پارٹنر نہیں۔ (4) بائیڈن انتظامیہ چین کے ساتھ اپنے تعلقات ٹرمپ انتظامیہ کی نسبت زیادہ لطیف انداز میں چلائے گی۔ چین کے ساتھ ایک دشمن کے بجائے ایک عالمی حریف کے طور پر معاملات کئے جائیں گے۔ (5) پاک چین تعلقات اور پاک چین اقتصادی راہداری کے بارے میں امریکی تحفظات جاری رہیں گے۔ (6) امریکہ کابل انتظامیہ اور طالبان کے مابین امن انتظامات کیلئے پاکستان کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ امریکہ کو توقع ہے کہ پاکستان معاہدے کے بعد افغانستان میں قائم ہونے والے امن و استحکام کو برقرار رکھنے میں مدد کرے۔ امریکہ اپنی جنگی فوج واپس بلا لے گا، لیکن وہ افغانستان میں مشاورتی فوجی مشن کو برقرار رکھ سکتا ہے۔
پاکستان کی موجودہ خارجہ پالیسی کی خصوصیات کچھ اس طرح ہیں: (1) پاکستان نے چین کے ساتھ سٹریٹیجک شراکت داری کو فروغ دیا ہے اور عالمی سطح پر ان تعلقات کو ترجیح حاصل رہے گی۔ دونوں ملک پاک چین اقتصادی راہداری کی تکمیل کیلئے پُرعزم ہیں۔ (2) پاکستان اور بھارت کے مابین جاری مسائل برقرار رہنے کا اندیشہ ہے۔ بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کو ضم کرنے کے فیصلے کے بعد مسئلہ کشمیر مزید پیچیدہ ہو گیا ہے۔ (3) پاکستان کشمیر کے بارے میں اپنے موقف پر بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ پھر پاکستان نے کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادوں (1948-49) کے مجموعی فریم ورک میں کشمیر سے متعلق اپنے نعرے میں ترمیم کی۔ ماضی کی نسبت اب یہ زیادہ ثابت قدمی کے ساتھ ''غیر قانونی طور پر بھارتی مقبوضہ کشمیر‘‘ اور ''کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ جیسے جملوں کا استعمال کرتا ہے‘ تاہم پاکستان کو کشمیر سے متعلق اپنی موجودہ پالیسی کے بارے میں حمایت حاصل کرنے میں کچھ دشواریوں کا سامنا ہے۔ (4) پاکستان ایک وسیع البنیاد حکومت کے تحت افغانستان کے مسئلے کا ایک ایسا حل تلاش کرنے کا حامی رہا ہے جو سبھی افغانوں کے قابلِ قبول ہو۔ امریکہ پاکستان کی افغانستان پالیسی کے بارے میں کچھ تحفظات رکھتا ہے، لیکن اس نے افغان پالیسی کے حوالے سے پاکستان پر تنقید کو عارضی طور پر روک رکھا ہے۔ (5) پاکستان سماجی و اقتصادی اور تکنیکی ترقی کیلئے نئی بین الاقوامی شراکت اور تعاون کا خواہاں ہے۔
امریکہ اور پاکستان کے ان اہم معاملات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے حکومت پاکستان کو یہ بات تسلیم کرنی چاہئے کہ سلامتی اور ڈپلومیسی کے حوالے سے امریکہ پر قریبی انحصار کا دور اختتام کو پہنچ چکا ہے۔ پاکستان اور امریکہ 1950 کی دہائی کے وسط، 1980 کی دہائی کے اوائل یا ستمبر 2001 کے فوری بعد والے زمانے میں واپس نہیں جا سکتے۔ اکیسویں صدی کے تیسرے عشرے کے چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے نئی اپروچز کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ چین کے ساتھ اس کے تعلقات کا ہدف امریکہ یا بھارت نہیں ہے۔ یہ چین اور پاکستان کیلئے باہمی مفید تعلق ہے۔ درحقیقت اگر امریکہ چین تعلقات سنگین نوعیت اختیار کر جائیں تو پاکستان چین کے ساتھ امریکی رابطے کی سہولت فراہم کر سکتا ہے۔ اسے بین الاقوامی سطح پر یہ بھی واضح کرنا چاہئے کہ سی پیک محض چین کیلئے مفید نہیں، یہ پروجیکٹ پاکستان کو ایک نادر معاشی موقع بھی فراہم کرتا ہے۔ چونکہ پاکستان مشرق وسطیٰ، وسطی ایشیا، چین اور جنوبی ایشیا جیسے چار اہم خطوں کو جوڑتا ہے‘ چنانچہ شاہراہوں، ریلویز اور پائپ لائنوں کا جال پاکستان اور خطے کی دیگر ریاستوں کی معیشت کو ترقی دے گا۔
افغانستان میں مذاکرات اور امن عمل کی حمایت کرتے ہوئے پاکستان کو امریکہ اور افغانستان پر زور دینا چاہئے کہ وہ افغان سرزمین کو پاکستان کیخلاف استعمال نہ ہونے دیں۔ مزید یہ کہ بھارت کو پاکستان کیخلاف دہشتگرد گروہوں کو فنڈز اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے سے روکا جانا چاہئے۔
اگر پاکستان علاقائی امور میں اپنے نظریات میں بین الاقوامی سطح پر کچھ وزن لانا چاہتا ہے تو اسے اپنے معاشی اور سیاسی معاملات کو مرتب کرنا ہوگا اور دوسرے ممالک کیلئے اپنی معاشی اور تجارتی مطابقت بڑھانے پر توجہ دینا ہوگی اور دوسرے ممالک و بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے قرضوں اور گرانٹوں پر اپنا انحصار کم کرنا ہو گا۔ اسے معیشت کے اپنے مقامی ذرائع کو مضبوط بنانے کیلئے کام کرنا چاہئے۔ اسے خود کو تجارت اور سرمایہ کاری کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر پُرکشش بنانے کیلئے کام کرنا چاہئے۔ اس کیلئے حکومت اور اپوزیشن کو داخلی سیاسی معاملات پر کچھ اتفاق رائے پیدا کرنا چاہئے اور اپوزیشن کو خارجہ پالیسی کے اقدامات کی حمایت کرنی چاہئے۔ حکومت اور اپوزیشن کے مابین اقتدار کیلئے کھینچاتانی عالمی سطح پر اپنے قومی مفادات کے تحفظ کے سلسلے میں پاکستان کی صلاحیت کو مجروح کررہی ہے۔
توجہ کا متقاضی ایک اور شعبہ نئے آپشنز دریافت کرکے پاکستان کی سفارتی رسائی کو وسعت دینا ہے۔ چین کا آپشن دانشمندانہ حکمت عملی ہے۔ روس بھی ایک آپشن ہے لیکن پاکستان نے اس کے ساتھ اقتصادی، تجارتی اور سفارتی روابط محدود رکھے ہیں۔ پاکستان کو سفارتی محاذ پر چین، روس، ایران اور ترکی کے ساتھ علاقائی اقتصادی تعاون، تجارت، سلامتی اور استحکام کے امور پر زیادہ فعال طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ان چار ریاستوں کے درمیان ایک فعال تعاون پاکستان پرFATF کے دباؤ کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔ اس سے پاکستان کو مسئلہ کشمیر اور بھارت کے ساتھ دوسرے مسائل پر پوری دنیا سے زیادہ موثر انداز میں بات کرنے میں مدد ملے گی۔امریکہ کی بنیادی دلچسپی یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کو جنگ یا جنگی صورتحال کی طرف نہ جانے دیا جائے‘ تاہم، یہ توقع نہیں کہ کشمیریوں کو مطمئن کرنے کیلئے امریکہ بھارت پر مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے سفارتی دبائو ڈالے گا۔ چین، روس، ایران اور ترکی کے ساتھ قریبی رابطے کے پاکستان کے نئے اقدام کو عرب قدامت پسندوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پاکستان کو مشرق وسطیٰ کے بارے میں اپنی پالیسی میں توازن بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ آج کے مشکل چیلنج جرأت مندانہ فیصلوں کا تقاضا کرتے ہیں۔ بین الاقوامی سیاست میں سفارتی تنوع، کثیر جہتی اور مثبت معاشی رابطے کے دور میں کچھ ریاستوں کے ساتھ جڑے رہنے کی پرانی طرز کی پالیسی مددگار ثابت نہیں ہو سکتی۔