"HAC" (space) message & send to 7575

منقسم سیاست اور کمزور ادارے

پاکستان میں سیاسی قوتیں سیاسی نظام میں اپنی اولیت قائم کرنا چاہتی ہیں اور خواہشمند ہیں کہ تمام ریاستی ادارے ان کے فراہم کردہ دائرۂ عمل کے اندر رہ کر کام کریں۔ بعض اوقات، سویلین رہنما خصوصاً وہ جو حزبِ اختلاف میں ہوتے ہیں‘ آئین کے مکمل نفاذ کی بات کرتے ہیں۔ پاکستانی سیاست جس انداز میں آگے بڑھ رہی ہے اس کے باعث یہ اہداف ناقابل حصول دکھائی دیتے ہیں۔ سیاسی قوتوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تنازعات اور حکمران جماعت اور حزب اختلاف کی بڑی جماعتوں کے درمیان کسی بھی معاملے پر کسی انڈر سٹینڈنگ کی عدم موجودگی، سیاسی قوتوں کیلئے سیاسی نظام میں اپنی اولیت کو ثابت کرنا مشکل بناتی ہے۔ اگر ہم پچھلے ایک سال کے دوران پاکستانی سیاست کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت اور حزب اختلاف کی بڑی جماعتیں کسی بات پر متفق نہیں ہو سکتی ہیں۔ اپوزیشن کسی بھی قیمت پر پی ٹی آئی کی حکومت کا خاتمہ چاہتی ہے۔ حکومت اپوزیشن جماعتوں کو غیرجانبدار بنانا چاہتی ہے۔ یہ مخاصمت اس وقت شدت اختیار کر گئی جب ستمبر 2020 میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا قیام عمل میں آیا۔ پی ڈی ایم والوں کو یقین تھا کہ وہ 2020 کے آخر تک عوامی ریلیوں اور سڑکوں پر احتجاجوں کے ذریعے عمران خان کو اقتدار سے ہٹا دیں گے۔ ان کوششوں میں لانگ مارچ بھی شامل تھا تاکہ حکومت کو مفلوج کیا جا سکے؛ تاہم یہ مقاصد پورے نہ ہو سکے۔
اپوزیشن کو پی ڈی ایم کے دائرے میں لانے والا معاملہ انکی عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کی مشترکہ خواہش تھی۔ جب تک انکی یہ سوچ رہی کہ وہ اپنے منصوبے میں کامیاب ہو جائیں گے، وہ متحد رہے‘ لیکن یہ واضح ہونے کے بعد کہ تحریک انصاف کی حکومت جلد ختم نہیں کی جا سکے گی‘ انہوں نے عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی حکمت عملی پر ایک دوسرے سے اختلاف کرنا شروع کردیا۔ اب کئی دوسرے امور بھی اختلافات کا باعث ہیں۔
پی ڈی ایم میں داخلی تقسیم کے پیدا ہونے میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ روایتی طور پر، سیاسی اتحادوں میں اکثر نظریاتی ہم آہنگی اور سیاسی طیف کے ایک سرے سے دوسرے تک موجود پارٹیوں کو جگہ دینے کا فقدان ہوتا ہے۔ اتحاد میں مل کر کام کرنے کے باوجود، یہ پارٹیاں اپنی سوچ کے عمل اور عالمی نقطہ نظر میں مختلف ہوتی ہیں جبکہ یہ مختلف عوامل ان کی طرف سے سیاسی صورتحال کے تجزیے کو متاثر کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ان کے سیاسی آپشن پر اثر پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اتحاد مختصر وقت کیلئے ہی مضبوط رہتے ہیں‘ چنانچہ یا تو وہ اپنی طاقت کھو دیتے ہیں یا ایک ڈھیلے سیاسی نیٹ ورک کے طور پر کام کرتے رہتے ہیں۔ ایسا اتحاد ایک سیاسی وجود کی حیثیت سے موجود تو ہو سکتا ہے، لیکن اس میں شامل جماعتیں اکثر اپنی انفرادی ترجیحات کو مدنظر رکھتے ہوئے کام کرتی ہیں۔ ان جماعتوں کے سیاسی چوائسز کی تشکیل بھی ان کی حمایتی بنیاد کی نوعیت اور اس حمایت کی بنیاد سے متعلق معاشرتی و معاشی امور پر ہوتی ہے۔ اگر کسی سیاسی جماعت کے پاس ووٹنگ کی ملک گیر بنیاد موجود ہے یا وہ کسی بنیادی نسلی‘ لسانی گروپ یا کسی مخصوص علاقے تک محدود ہے تو اسی سے تعین ہو گا کہ وہ سیاسی جماعت قومی اور صوبائی امور پر کس طرح اثر انداز ہو گی۔
ایک اور عامل جو اتحادی سیاست پر اثرانداز ہوتا ہے اس کا تعلق قائد کی شخصیت کے عوامل سے ہے اور اس بات سے کہ وہ موجودہ پوزیشن تک کیسے پہنچا ہے۔ یہ کہ وہ سیاسی جدوجہد کے ذریعے اس مقام تک پہنچا ہے یا اس نے والد یا خاندان کے کسی بزرگ ممبر سے وراثت میں ملنے والی حیثیت کے تحت یہ مقام حاصل کیا ہے۔ یہاں تک کہ اگر موروثی اصول نے کسی قائد کو آگے لانے میں کردار ادا کیا ہے، تو اہم سوال یہ ہے کہ اس طرح کے رہنما نے سیاسی حدود میں، خاص طور پر پارٹی میں اپنے لئے کوئی خود مختارانہ حیثیت پیدا کی ہے۔ لیڈرشپ کیلئے فکری پس منظر بھی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ ایک اور سوال یہ ہے کہ پارٹی میں قیادت کتنی محفوظ ہے؟ پارٹی میں قیادت سے جتنی زیادہ پوچھ گچھ ہوتی ہے، لیڈر اتنا ہی غیرمحفوظ ہوجاتا ہے۔ عام لوگوں کی سطح پر موجود تاثرات سے بھی قیادت کا کردار متاثر ہوتا ہے۔ کٹر حامیوں سے آگے قائد کا امیج کیا ہے؟ آیا قائد کو لوگوں کے کاز کیلئے کام کرنے والا سمجھا جاتا ہے یا بدعنوان اور سازباز کرنے والا؟ آخری اہم معاملہ جو اپوزیشن کے کردار کو متاثر کرتا ہے یہ ہے کہ وہ حکومتی پالیسیوں کے متبادل کے طور پر معاشرے، سیاست، معیشت اور حکمرانی کے وژن کے طور پر کیا پیش کرتی ہے۔ یہ کہ آیا اپوزیشن حکومتی پالیسیوں کو تبدیل کرنے کیلئے تجاویز کا کوئی ٹھوس سیٹ پیش کرسکتی ہے؟
ایک طرف پی پی پی اور اے این پی اور دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی (ف) کے مابین اختلاف رائے مندرجہ بالا عوامل کے تناظر میں قابل فہم ہیں۔ اگرچہ یہ جماعتیں اپنے طور پر پی ٹی آئی کی حکومت کی مخالفت کرتی رہیں گی‘ لیکن وہ ایک دوسرے سے بھی لڑیں گی۔
اپریل 2021 میں تین سیاسی رجحانات سامنے آئے ہیں: حزب اختلاف کی جماعتیں حکمران پی ٹی آئی کا مقابلہ کر رہی ہیں‘ اپوزیشن جماعتیں ایک دوسرے سے لڑ رہی ہیں‘ اور تحریک انصاف میں آہستہ آہستہ اندرونی مسائل ابھر رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی قوتوں کے مربوط سیاسی وجود کی حیثیت میں کام کرنے کے امکانات مزید کم ہوگئے ہیں۔ اگر اپوزیشن اور حکومت ورکنگ ریلیشن شپ استوار نہیں کر سکتیں تو وہ پارلیمنٹ کوموثر ادارے کے طورپر مضبوط نہیں کر سکتیں۔ ہرسیاسی جماعت پارلیمنٹ کے بجائے اپنے قائد اور پارٹی کی پوزیشن کو مستحکم کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ سیاسی جماعتوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ بیشتر کسی رہنما یا خاندان کی خصوصی ملکیت ہیں۔ پارٹی کے اندر جمہوریت نہیں ہے۔ پرسنلائزیشن آف پاور کو انسٹی ٹیوشنلائزیشن آف پاور کے ساتھ تبدیل کرنے اور سیاسی جماعتوں میں کلچر کو متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔
اگر پی ڈی ایم اپنا مومنٹم کھو چکی ہے تو تحریک انصاف کو ایک داخلی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جہانگیر ترین فیکٹر میں اتنی صلاحیت ہے کہ تحریک انصاف میں سنگین داخلی مسائل پیدا کر سکے۔ وہ وفاقی سطح پر اور پنجاب میں پی ٹی آئی کے غیرمطمئن پارلیمنٹیرینز کو اکٹھا کرنے کا کام کرسکتے ہیں۔ ان غیر مطمئن ارکان کو جنہیں عمران خان کے چند من پسند بیوروکریٹس اور غیرمنتخب مشیروں پرمکمل انحصار کرنے کے حوالے سے شکایات ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ پالیسی مینجمنٹ اور پنجاب میں غیر متاثر کن قیادت نے حکمرانی کے مسائل پیدا کردیئے ہیں جو انتخابی حلقوں میں ان کیلئے شرمندگی کا باعث بن رہے ہیں۔ عمران خان کیلئے یہ مشکل ہوگا کہ وہ غیرمنتخب پسندیدہ افراد پر بھروسہ کرتے رہیں اور منتخب پارلیمنٹیرینز کوبھی مطمئن رکھ سکیں۔
آج اپریل 2021 میں اپوزیشن اور حکومت میں شامل سیاسی جماعتیں اور قائدین جولائی 2018 کے انتخابات کے بعد سے اب تک کے عرصے میں سب سے زیادہ منقسم نظر آتے ہیں۔ مطلب یہ ہے اپوزیشن کی بات نہ بھی کی جائے تو حکمران پی ٹی آئی کیلئے اگلے عام انتخابات میں حمایت اکٹھی کرنے کے حوالے سے مربوط سیاسی مشین کی حیثیت سے کام کرنا مشکل ہوگا۔ پارٹیاں اور رہنما سیاسی لڑائیوں میں مصروف اور منقسم رہیں گے۔ اگر سیاسی جماعتیں اور سیاسی رہنما باہم لڑنے میں مصروف رہے تووہ خود کو ایک مضبوط اور موثر سیاسی وجود کے طور پر ابھار نہیں سکیں گے۔ سیاسی معاملات کوکس طرح سنبھالنا ہے‘ اس بارے میں ان میں کم سے کم سیاسی اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں وہ پارلیمنٹ کے کردار کو مضبوط نہیں کر سکیں گے۔ اس طرح کی ایک بکھری اورمحدود نظر کی سیاست سیاسی اداروں اور قائدین کو سیاسی نظام میں آگے بڑھنے کے قابل نہیں بنا سکتی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں