پاکستان اور بھارت کے تعلقات باہمی عدم اعتماد، مخاصمت اور ایک دوسرے کو کمزور کرنے کی کوششوں کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے مابین شورش زدہ تعلقات کا تازہ مرحلہ نریندر مودی کے اقتدار سنبھالنے کے تین ماہ کے اندر ہی شروع ہو گیا تھا۔ وہ مئی 2014 کے آخری ہفتے میں بھارت کے وزیر اعظم بنے تھے۔ اسی سال اگست میں ان کی حکومت نے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے عمل کو اس بنیاد پر روکنے کا فیصلہ کیا کہ پاکستان کے دہلی میں مقیم سفارت کار کشمیری رہنماؤں‘ جو بھارت کے مقبوضہ کشمیر پر قبضے کو مسترد کرتے ہیں‘ کے ساتھ باقاعدگی سے بات چیت کرتے ہیں۔ اس کے بعد سے مابین متنازع امور پر براہ راست کوئی بات چیت نہیں ہو سکی۔ دونوں ممالک کے مابین تعلقات فروری 2019 کے اختتام تک نچلی ترین سطح تک پہنچ گئے تھے‘ جب بالا کوٹ کے علاقے میں بھارت نے پاکستان کیخلاف محدود فضائی کارروائی کی کوشش کی۔ بھارت نے تب دعویٰ کیا تھا کہ اس نے پاکستان کے اندر دہشتگردوں کے ایک تربیتی کیمپ کو نشانہ بنایا ہے۔ اسکی یہ کوشش بری طرح ناکام ہو گئی تھی کیونکہ پاکستان نے دو بھارتی طیارے مار گرائے تھے اور ایک بھارتی پائلٹ کو گرفتار کر لیا تھا۔ اس صورتحال نے ثابت کر دیا کہ بھارت کا پاکستان کے خلاف محدود فوجی آپریشن کا تصور ناکارہ ہے۔ فریقین نے اپنے ہائی کمشنرز کو واپس بلا کر باہمی سفارتی تعامل کو کم کر لیا تھا۔
اپریل 2021 میں منظر عام پر آنے والی بعض خبروں میں بتایا گیا کہ دونوں ممالک کی سکیورٹی اور انٹیلی جنس ایجنسیاں ''بیک چینل ڈپلومیسی‘‘ کے ذریعے ایک دوسرے سے سلسلہ جنبانی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اس ''بیک چینل‘‘ رابطے کا ایک مثبت نتیجہ یہ ہے کہ دونوں ممالک کی فوجیں کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر سیزفائر پر رضا مند ہوگئیں۔ نومبر 2003 میں، پاکستان اور بھارت نے لائن آف کنٹرول پر سیزفائر کیلئے زبانی سمجھوتہ کیا تھا۔ اس جنگ بندی پر 2012 کے اختتام تک معقول حد تک عمل ہوا۔ 2013 میں لائن آف کنٹرول پر کچھ واقعات رونما ہونا شروع ہو گئے جو مئی 2014 میں نریندر مودی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد بڑھ گئے تھے۔ 2019 سے 2021 تک تو تقریباً ہر دوسرے دن لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہا جس سے دونوں اطراف نقصان ہوتا۔ اب نئی جنگ بندی کے تازہ اعلان کے بعد سے، لائن آف کنٹرول پر صورتحال پرامن اور مستحکم ہے جو ایک مثبت پیشرفت ہے‘ البتہ بھارتی فوجیوں کی جانب سے تشدد کا ایک واقعہ 3 مئی 2021 کو سیالکوٹ سیکٹر میں پیش آیا تھا جس پر پاکستان نے بھارت کو احتجاج درج کرایا۔ اس مثبت پیشرفت کا ایک ضمنی حاصل دونوں ممالک کے انڈس واٹر کمیشن کے اجلاس کا انعقاد ہے جس میں توقع کے مطابق کسی معاملے کو حل تو نہیں کیا جا سکا لیکن دونوں جانب سے دوبارہ ملنے پر رضامندی ظاہر کی گئی ہے۔
بھارت کی پالیسی میں تبدیلی پاکستان کے خلاف بھارت کے منفی ایجنڈے میں تبدیلی کے بجائے دراصل حکمت عملی کی تبدیلی ہے۔ پاکستان کو نقصان پہنچانے کا بھارت کا ایجنڈا برقرار ہے تاہم، اس امید کے ساتھ خاموش بات چیت کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے کہ اس سے ان کے پریشان کن تعلقات میں کچھ بہتری آئے گی۔ کئی عوامل نے پاکستان کے ساتھ بات نہ کرنے کی ہندوستان کی پالیسی کو تبدیل کرنے میں کردار ادا کیا ہے۔ امریکہ، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سمیت متعدد ممالک نے ہندوستان کو مشورہ دیا کہ وہ خطے میں تناؤ کو کم کرنے کیلئے پاکستان سے مذاکرات کا آغاز کرے۔ امریکہ نے خصوصی طور پر اس بات کا اشارہ کیا کہ وہ صرف چین کے خلاف ہندوستان کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ ہندوستان پاکستان کے خلاف ٹھنڈا رہ کر کھیلے۔ 2020 کے موسم گرما میں لداخ کے علاقے میں چین کی جانب سے ایک اور فوجی دھچکے کا سامنا کرنے کے بعد ہندوستان‘ پاکستان اور چین‘ دونوں کے ساتھ محاذ آرائی کی صورتحال سے بچنا چاہتا ہے۔ بھارت کی پاکستان کے بارے میں پالیسی میں تبدیلی کے ذمہ دار علاقائی عوامل وہ مسائل ہیں‘ جو بھارت کو ہمسایہ ریاستوں نیپال، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے ساتھ اپنے تعلقات میں درپیش ہیں۔ عالمی اور علاقائی عوامل پاکستان اور ہندوستان کے مابین کچھ باہمی روابط کو بحال کرنے کی ضرورت کی نشاندہی کرتے ہیں۔ کچھ ممالک مذاکرات تو تجویز کر رہے ہیں، لیکن وہ یہ نہیں بتا رہے کہ کسی پاک بھارت تنازع کو طے کرنے کیلئے کیا طریقہ اختیار کیا جائے۔ اگر یہ مذاکرات غیر نتیجہ خیز رہتے ہیں تو بھی مذکورہ دوست ممالک پاکستان پر یہ ظاہر کرنے کے قابل ہوں گے کہ وہ پاکستان کے خدشات کے بارے میں حساس ہیں۔ یہ ریاستیں پاک بھارت تنازعات کو حل کرنے میں مدد کرنے کے بجائے دونوں ملکوں کے مابین تنازعات کی شدت کم کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے بھارت کو مغرب میں معاشرتی سطح پر کچھ تنقید کا سامنا کرنا پڑا تاہم بھارت کیساتھ اپنے تعلقات کے حوالے سے کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی خلیجی خطے کی ریاستوں کیلئے تشویش کا باعث نہیں ہے۔
پاکستان کو انتظار کرنا اور دیکھنا ہوگا کہ آیا واقعتاً ہندوستان کے رویے میں تبدیلی کا مقصد پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانا ہے یا اس کا مقصد بات چیت کے انعقاد کی امید دلاکر بھارت پر بین الاقوامی دباؤ کو کم کرنا ہے۔ کشمیر اور دیگر مسائل پر بات چیت کی سمت میں آگے بڑھنے کے بارے میں فیصلہ کرنے کیلئے تین اہم معیارات کا استعمال ہونا چاہئے۔ پہلا، ایل او سی پر سیزفائر زیادہ دیر تک برقرار رہنا چاہئے۔ دوسرا، مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے بھارت کو ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔ تیسرا، بھارت کو سیاچن گلیشئر اور سرکریک بارڈر ایشو جیسے آسانی سے حل ہونے والے مسائل حل کرنے پر اتفاق کرنا چاہئے۔ اگر ان امور پر کچھ مثبت پیشرفت ہوئی تو دوسرے امور پر بات چیت شروع کی جا سکتی ہے۔ توقع ہے کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر کی 5 اگست 2019 سے قبل کی حیثیت کو بحال کرنے پر اصرار جاری رکھے گا۔
کشمیر پر بات چیت میں یہ تبادلہ خیال بھی ہونا چاہئے کہ کشمیری عوام کو اپنے سیاسی مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کا انتخاب کیسے دیا جا سکتا ہے۔ مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کیلئے پاکستان کی ترجیح کے ساتھ، اسے کنٹرول لائن کے دونوں طرف کشمیریوں کیلئے مسئلہ کشمیر کے کسی قابل قبول حل کیلئے راضی ہونا پڑے گا۔ مذکورہ بالا امور میں بہتری کے ساتھ، ان امور‘ دونوں حکومتیں جن کی نشاندہی کریں‘ پر بھی بات چیت کی جانی چاہئے اور دونوں ممالک کے مابین معمول کے سفارتی تعامل اور دو طرفہ تجارتی اور معاشی تعلقات کی بحالی پر بھی توجہ دی جانی چاہئے۔
قدم بہ قدم آگے بڑھنے کا طریقہ اپنا کر پاکستان اور بھارت کے مابین مسائل حل ہو سکتے ہیں بشرطیکہ مودی حکومت حقیقی طور پر تعلقات کو معمول پر لانے میں دلچسپی رکھتی ہو۔ اس کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ کٹڑ ہندو تنظیمیں مودی سرکار کو پاکستان کیساتھ تعلقات بہتر بنانے کے سلسلے میں کتنی آزادی دیتی ہیں۔ اگر ان تعلقات کو تاریخی اور ثقافتی جنگوں کے ایک حصے کے طور پر دیکھا جائے تو عام تعلقات کی بحالی کی زیادہ گنجائش نہیں‘ تاہم نیک نیتی سے سفارتکاری اور انسانی فلاح و بہبود کے بارے میں سوچ بچار جیسے عوامل دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کو مفید بنانے کی سمت لے جا سکتے ہیں۔ کورونا کی وجہ سے بھارت کی موجودہ صورتحال کا ایک سبق یہ ہے کہ اگر بھارت باہمی احترام کی بنیاد پر پڑوسی ریاستوں کے ساتھ تعلقات استوار کرے تو ایسے چیلنجوں کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ پڑوسی دور دراز کے ممالک کے مقابلے میں زیادہ مددگار ثابت ہوتے ہیں۔