15 اگست سے افغانستان پر طالبان کا کنٹرول ہے‘ جب اشرف غنی کی قیادت میں کابل میں امریکہ کی حمایت یافتہ حکومت طالبان کے خلاف کوئی مزاحمت کیے بغیر ختم ہوگئی۔ یہ دوسری بار ہے کہ پاکستان افغانستان میں طالبان حکومت کے ساتھ معاملات کررہا ہے۔ پاکستان نے 1996ء سے 2001ء تک قائم رہنے والی طالبان حکومت کی حمایت کی‘ لیکن اس حکومت سے معاملات میں پاکستان کو مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا کیونکہ دونوں طرف پالیسی مینجمنٹ کے شدید مسائل تھے۔ حکومت پاکستان نے 1996ء میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے میں عجلت کا مظاہرہ کیا تھا‘ تب حکومتِ پاکستان کا افغان پالیسی پر مکمل کنٹرول نہیں تھا کیونکہ متعدد گروہ حکومت سے ماورا طالبان کے حامی تھے۔ ان دونوں معاملات کی وجہ سے پاکستان کی حکومت کو عالمی سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔اس بارکابل میں طالبان کی حکومت اور اسلام آباد میں پاکستانی حکومت‘ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ محتاط اور حقیقت پسندانہ انداز میں تعاون کررہی ہیں اور ابھی تک پاکستان میں کسی گروہ کی طرف سے طالبان کی حکومت کو پروان چڑھانے کیلئے اپنی حکومت کو بائی پاس کرنے کی کوئی واضح کوشش نہیں کی گئی ہے۔
پاکستان کی موجودہ افغان پالیسی مضبوط تاریخی اور ثقافتی روابط کے ساتھ پڑوسی ریاست کے طور پر تعمیری مصروفیات کی عکاسی کرتی ہے۔ اس پالیسی کا مقصد نئی کابل انتظامیہ کو نئے ریاستی نظام کے قیام کے سلسلے میں ابتدائی مسائل سے نمٹنے میں مدد کرنا معلوم ہوتا ہے۔ اس مصروفیت کا مقصد نہ صرف کابل حکومت کو طالبان تحریک کے بارے میں عالمی برادری کے تحفظات سے آگاہ کرنا ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ بڑی طاقتوں‘ یورپی ریاستوں اور بین الاقوامی سیاسی اور مالیاتی اداروں کو طالبان کی حکومت کو قبول کرنے کی درخواست کرنا بھی ہے۔ پاکستان اور افغانستان دوطرفہ اور علاقائی مسائل پر ریاستی سطح کی بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دونوں ممالک کے اہم سیاسی اور سکیورٹی حکام نے ایک دوسرے کے دارالحکومتوں کے دورے بھی کیے ہیں۔
پاکستان طالبان حکومت کو انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر امداد فراہم کر رہا ہے کیونکہ وہاں کھانے پینے کی اشیا‘ ادویات اور طبی آلات‘ سردیوں کے ملبوسات اور دیگر بنیادی ضرورت کی چیزوں کی قلت ہے۔ پاکستانی قیادت نے دوسرے ممالک اور بین الاقوامی رضاکار تنظیموں سے بارہا اپیل کی ہے کہ وہ افغانستان کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد فراہم کریں۔ امریکہ اور مغربی ممالک کو ایک تجویز یہ ہے کہ اگر وہ طالبان حکومت کے ساتھ براہ راست ڈیل نہیں کرنا چاہتے تو وہ اقوام متحدہ کی اداروں‘ جیسے اقوام متحدہ کا ہائی کمشنر برائے مہاجرین‘ ورلڈ فوڈ پروگرام‘ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن‘ اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں کے ذریعے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد فراہم کر سکتے ہیں۔ اس کوشش کے کچھ نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ نے افغانستان کی مدد کیلئے ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا‘ جس میں امداد کیلئے ایک بلین ڈالر سے زیادہ کا وعدہ ملا‘ تاہم اس طرح کے عزم کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ کئے گئے تمام وعدے پورے نہیں ہوتے۔ بعض دیگر ممالک بالخصوص افغانستان کی پڑوسی ریاستوں نے افغان عوام میں تقسیم کیلئے ضروری سامان فراہم کیا ہے۔ افغانستان کو سردیوں کے موسم کا سامنا کرنے کیلئے ایسی مزید مدد کی ضرورت ہے۔افغانستان کیلئے پاکستان کا سب سے اہم تعاون تجارت اور کمرشل تعلقات کا تسلسل ہے۔ تجارتی راستے کھلے رکھے گئے ہیں‘ اگرچہ انتظامی اور سکیورٹی وجوہات کی بنا پر طورخم اور چمن بارڈر پر سامان اور لوگوں کی آمدورفت میں عارضی رکاوٹیں بھی آئیں معمول کی تجارت آج کل جاری ہے۔ افغانستان روزمرہ استعمال کی زیادہ تر اشیا اور کھانے پینے کی چیزوں کی دو طرفہ تجارت کیلئے پاکستان پر انحصار کرتا ہے۔ افغانستان کو کراچی بندرگاہ کے راستے باقی دنیا کے ساتھ تجارت کیلئے ٹرانزٹ ٹریڈ کی سہولت بھی حاصل ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان لوگوں کی نقل و حرکت بھی جاری ہے۔ افغان باشندوں کی بڑی تعداد کاروباری اور تجارتی سرگرمیوں‘ اپنے رشتہ داروں اور دوستوں سے ملنے‘ علاج معالجے اور ملازمتوں کیلئے پشاور اور چمن‘ کوئٹہ آتے ہیں۔ پاکستان افغانستان کے ساتھ اپنے سرگرم دو طرفہ تعلقات کو افغانستان کے قریبی پڑوسیوں کے ساتھ مل کر متوازن بنا رہا ہے تاکہ افغانستان سے متعلقہ ایشوز کو حل کیا جا سکے۔ یہ 1990ء کی دہائی میں طالبان کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی سے بہتر حکمت عملی ہے۔ تب پاکستان تنہا کام کرنے میں زیادہ پرجوش تھا۔ اگرچہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے 1996ء میں پاکستان کے ساتھ طالبان کی حکومت کو تسلیم کر لیا تھا لیکن پھر یہ دونوں ممالک طالبان حکومت کی پالیسیوں سے غیرمطمئن ہو کر الگ ہو گئے تھے۔ 2000-2001ء تک‘ پاکستان بین الاقوامی سطح پر طالبان حکومت کا واحد حامی تھا۔پاکستان نے افغانستان کے پڑوسیوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی حقیقت پسندانہ پالیسی اپنائی ہے۔ اس طرح کی اجتماعی اپروچ پاکستان کے اکیلے سرگرم ہونے سے زیادہ بہتر ہے۔ ایران‘ چین‘ روس اور ایران کے ساتھ مشترکہ سرحد والی وسطی ایشیائی ریاستوں کے درمیان متعدد میٹنگز ہو چکی ہیں۔ اس سے افغانستان کے بارے میں مشترکہ نقطہ نظر کو اپنانے میں مدد ملی ہے یعنی بین الاقوامی قبولیت حاصل کرنے کیلئے افغانستان کو کیا کرنا چاہیے اور یہ پڑوسی افغانستان کیلئے کیا کر سکتے ہیں۔ پڑوسیوں کے ایک اہم فورم نے اپنا پہلا اجلاس 8 ستمبر کو اسلام آباد میں منعقد کیا تھا۔ دوسرا اجلاس 27 اکتوبر کو تہران میں ہوا۔ تیسرا اجلاس نومبر کے آخر یا دسمبر کے شروع میں چین میں ہونے کا امکان ہے۔ اس گروپ میں چین‘ روس‘ ایران‘ تاجکستان‘ ترکمانستان‘ ازبکستان اور پاکستان شامل ہیں۔ یہ ممالک طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات برقرار رکھتے ہیں اور انہوں نے افغانستان کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد بھی فراہم کی ہے۔ توقع ہے کہ وہ مشترکہ طور پر طالبان کی نئی حکومت کو تسلیم کرنے کے مسئلے کو حل کریں گے۔ ان کے موجودہ تعلقات کو دیکھیں تو شناخت کا سوال ظاہری معاملات میں کہیں گم ہوتا محسوس ہوتا ہے۔ 11 نومبر کو اسلام آباد میں ٹرائیکا پلس کے نام سے ایک خصوصی اجلاس منعقد ہوا جس میں امریکہ‘ چین‘ روس اور پاکستان شامل تھے۔ انہوں نے طالبان سے کہا کہ وہ ''افغانستان میں ایک جامع اور نمائندہ حکومت‘‘ قائم کریں۔
طالبان حکومت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں واحد پریشان کن مسئلہ افغانستان میں موجودٹی ٹی پی کا مستقبل ہے۔ چونکہ طالبان کے اس دہشت گرد تنظیم کے ساتھ اچھے تعلقات ہیںاس لیے وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان کوئی تصفیہ ہو جائے۔ اس طرح کی پیشرفت کا امکان انتہائی کم ہے کیونکہ ٹی ٹی پی نے پاکستان کو کسی بھی دوسری تنظیم کے مقابلے میں زیادہ نقصان پہنچایا ہے اور اس کیلئے اپنے طرز عمل کو تبدیل کرنا مشکل ہو گا۔طالبان کی حکومت کیلئے کلیدی چیلنج یہ ہے کہ کس طرح اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ افغان سرزمین کو داعش‘ القاعدہ اور ٹی ٹی پی یا ان سے وابستہ گروپ دوسرے ممالک بالخصوص پاکستان کے خلاف دہشت گردی کیلئے استعمال نہ کریں۔ طالبان اس مسئلے کو کیسے ہینڈل کرتے ہیں‘ اسی سے انہیں بین الاقوامی سطح پر اپنی حکومت کے لیے قبولیت پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔ اگر طالبان ٹی ٹی پی کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہے اور اسے افغانستان سے بے دخل نہ کیا تو پاکستان کے ساتھ ان کے تعلقات سنگین مسائل کا شکار ہو سکتے ہیں۔ طالبان حکومت کیلئے پاکستان کا جوش ختم ہو جائے گا۔