"HAC" (space) message & send to 7575

یوکرین روس جنگ سے حاصل ہونے والا سبق

تنازع طے کرنے کے لیے جنگ ایک مطلوبہ آپشن نہیں ہے‘ پھر بھی جنگیں ہوتی ہیں اور ان سے اور ان کے عام لوگوں پر پڑنے والے اثرات سے نمٹنا پڑتا ہے‘ جن کا جنگوں کی منصوبہ بندی اور جنگ شروع کرنے میں کوئی کردار نہیں ہوتا۔ یوکرین پر روس کا جاری فوجی حملہ مسلح تصادم کی تازہ ترین مثال ہے‘ جس سے بچا جا سکتا تھا۔ جانی اور مادی نقصانات کے علاوہ، اس جنگ نے ایک بڑا انسانی بحران مہاجرین کی شکل میں پیدا کر دیا ہے۔ دس لاکھ سے زیادہ یوکرینی اور وہاں رہنے والے غیر ملکی پولینڈ، ہنگری اور رومانیہ جا چکے ہیں۔ ان میں سے کچھ وہاں سے دوسرے ممالک میں جا رہے ہیں۔ یوکرین میں ایسے بھی لاتعداد لوگ ہیں جنہیں اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا، لیکن بہرحال وہ ملک کے اندر ہی ہیں۔
اس جنگ نے ایک بار پھر اس بات کی تصدیق کر دی کہ سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے فوجی طاقت کا استعمال خطرناک طرزِ عمل ہے؛ تاہم اگر جنگ کو ریاستوں کے درمیان معاملات سے خارج کرنا ہے تو متضاد سیاسی ایجنڈے، علاقائی دعووں‘ نسلی و قبائلی معاملات، تاریخ کی غلط تشریح اور تسلط پسندانہ خواہشات جیسے سیاسی مسائل کو روشن خیال ذاتی مفادات اور باہمی صلاح کے ساتھ ابتدائی مرحلے میں حل کرنا ہوگا۔ کسی ریاست کی علاقائی اور عالمی پولیس پرسن کے طور پر کام کرنے کی خواہش‘ دوسروں پر غلبہ پانے کی تمنا اور طاقت کے استعمال یا استعمال کی دھمکی کے ذریعے اپنے سیاسی ایجنڈے کو دوسری ریاستوں پر مسلط کرنے کی کوشش جنگ یا قریب قریب جنگ جیسی صورتحال کا باعث بنتی ہے۔ کئی ممالک کے پالیسی آپشنز، خاص طور پر جن کے پاس ٹیکنالوجی، عسکری اور اقتصادی طاقت ہے، علاقائی اور عالمی تناظر میں اس کی طاقت کے عزائم کا مظاہرہ کرتے رہیں گے اور وہ سیاسی اور فوجی تسلط کو ترجیح دیں گے؛ چنانچہ یہ جاننا ضروری ہے کہ جنگیں کیوں ہوتی ہیں اور ہم ان سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں۔
یوکرین روس جنگ کا ایک بڑا سبق یہ ہے کہ محدود اور مخصوص مقصد کے ساتھ فوجی کارروائی اس بات کی کوئی ضمانت نہیں دیتی کہ جنگ محدود رہے گی۔ فریقِ مخالف کی طرف سے رد عمل اسے ایک طویل جنگ میں بدل سکتا ہے اور جب حملہ آور طاقت کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا محدود مقصد پورا نہیں ہو رہا ہے تو وہ جنگ کا دائرہ وسیع کر دیتی ہے۔ اس میں دوسری ریاستیں اور غیر ریاستی کھلاڑی بھی شامل ہو سکتے ہیں‘ جن کے بارے میں جنگ کے آغاز میں نہیں سوچا گیا ہوتا۔ جنگ جتنی طویل ہوتی جاتی ہے، اسے محدود پیمانے پر رکھنا اتنا ہی مشکل ہوتا جاتا ہے۔ روس نے یوکرین کے ہوائی اڈوں اور ملٹری بیسز پر ٹارگٹڈ حملہ کیا تھا، اس امیدکے ساتھ کہ یہ یوکرین کی حکومت کے خاتمے کا سبب بنے گا‘ لیکن ایسا نہیں ہوا، اور جنگ کا دائرہ وسیع ہو گیا۔ اس کہانی کا اخلاقی سبق یہ ہے کہ محدود جنگیں لوگوں اور معاشرے کے لیے لامحدود اور تباہ کن بن جاتی ہیں۔
یہ جنگ بین الاقوامی نظام میں موجود چھوٹی طاقتوں بالخصوص ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک اہم سبق کی حامل ہے۔ اکثر ایسی ریاستوں کو عالمی ایجنڈے کی حامل بڑی طاقتوں کی طرف ورغلایا جاتا‘ جو ان عالمی طاقتوں کے پاور پالیٹکس ایجنڈے کے لحاظ سے تزویراتی اہمیت کی حامل ہوں یا اگر وہ بڑی طاقتیں ان کو کسی خاص خطے میں اپنے مخصوص ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے پراکسی کے طور پر استعمال کر سکیں۔ مخصوص ایجنڈے کی حامل عالمی طاقتیں ایسی ریاستوں کے حکمرانوں کے ساتھ جمہوریت پسند اور زبردست سماجی و اقتصادی ترقی کرنے والے رہنمائوں کے طور پر الفت سے پیش آتی ہیں اور ان ریاستوں کو اپنے ساتھ رکھنے کے لیے معاشی اور فوجی امداد دیتی ہیں۔ اس حکمت عملی کے نتیجے میں یہ مقامی‘ ترقی پذیر ریاستیں عالمی سیاست کے معاملات میں‘ امداد دینے والے ملک کے ساتھ صف آرا ہو جاتی ہیں۔ یوکرین ایک ایسا ہی ملک ہے جس کی موجودہ قیادت کو نیٹو ممالک بالخصوص امریکہ نے اصلی اور حقیقی قیادت ہونے کے طور پر ہلہ شیری کی۔ یوکرینی قیادت کے اعتماد کو بڑھانے کے لیے فوجی اور سفارتی مدد بھی دی گئی۔ اسے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا گیا کہ نیٹو ریاستیں، خاص طور پر امریکہ‘ یوکرین کو ایک خاص دوست کے طور پر دیکھتی ہیں۔ امریکہ اور نیٹو ممالک یوکرین کی قیادت کو اس قابل بنا رہے تھے کہ وہ نیٹو کے سکیورٹی سسٹم کو روس کی سرحد تک لانے کے نیٹو کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کیلئے روس کے سامنے کھڑی ہو جائے۔ یوکرین کے صدر اور ان کی پارٹی نے یورپی یونین اور نیٹو کی رکنیت حاصل کرنے کی امید پر روس کے خلاف مغربی ایجنڈے کا ساتھ دیا۔ اب فروری مارچ میں، یوکرین مغرب کے ساتھ مکمل صف بندی کی اپنی اس پالیسی کی بھاری قیمت چکا رہا ہے۔
یوکرین روس جنگ ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک اور سبق بھی رکھتی ہے۔ ایک مکمل جنگ کی صورتحال میں کسی ملک کو اپنے معاشی، سیاسی اور فوجی وسائل پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ نام نہاد دوست ریاستوں‘ بشمول معاون بڑی طاقتوں‘ کی طرف سے مکمل حمایت کے وعدے جنگ شروع ہونے کے بعد وقت پر پورے نہیں ہوتے۔ مغرب کے یورپی ممالک، امریکہ، برطانیہ‘ کینیڈا، جاپان اور دیگر کئی ریاستوں نے روس کی فوجی کارروائی کی مذمت کی ہے، اور ان میں سے بعض، خاص طور پر نیٹو ممالک‘ نے یوکرین کو فوجی اور اقتصادی مدد فراہم کرنے کا وعدہ کیا؛ تاہم، اس مضمون کے لکھے جانے تک اس میں سے کوئی بھی یوکرین تک نہیں پہنچا۔ یوکرین تنہا ایک بڑی طاقت سے لڑ رہا ہے۔ اس پیشرفت کا ایک پہلو یہ ہے کہ ترقی پذیر ممالک کو جنگ میں شامل ہونے سے پہلے اپنی عسکری اور اقتصادی صلاحیت کا عقلی اور منطقی جائزہ لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہیں یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ غیرملکی فوجی، سازوسامان یا کسی بڑی طاقت کا بحری بیڑا ان کے بچاؤ کیلئے آئے گا۔ یورپی ریاستوں‘ امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی طرف سے اقتصادی اور سیاسی پابندیوں نے روس پر دباؤ بڑھایا ہے، لیکن یہ روس کو اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے بغیر یوکرین سے انخلا پر مجبور کرنے کیلئے کافی نہیں۔ ترقی پذیر ممالک‘ جنہیں بیرونی خطرات کا سامنا ہے‘ کو ایک خود مختار سکیورٹی سسٹم بنانے کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے تیاری کے اجزا کو حریف ملک کے چیلنج سے مماثل ہونا چاہیے۔
ترقی پذیر ممالک کو کسی بھی بڑی طاقت کے عالمی اور علاقائی ایجنڈوں سے براہ راست منسلک نہیں ہونا چاہئے اور انہیں دوسری ریاستوں کے ساتھ تصادم سے گریز کرنا چاہئے۔ انہیں بڑی طاقتوں کی فوجی یا نیم فوجی کارروائیوں میں براہ راست شمولیت سے بھی دور رہنا چاہیے۔ یوکرین نیٹو کی مشرق کی طرف روسی سرحدوں تک توسیع کے امریکی ایجنڈے میں پھنس گیا۔ روسی حکومت پچھلی دو دہائیوں سے کہہ رہی تھی کہ وہ روسی سرحد پر امریکی/ نیٹو میزائلوں، فوجیوں اور سکیورٹی سسٹم کو قبول نہیں کرے گی۔ نیٹو اور امریکہ نے موجودہ یوکرینی حکومت کو اس پالیسی میں شامل کیا۔
ترقی پذیر ممالک کو ان بڑی طاقتوں کی گھاگ طاقت کی سیاست کو سمجھنا چاہیے جو اب پراکسیز کے ذریعے بالواسطہ طور پر ایک دوسرے سے مقابلہ کر رہی ہیں۔ سیاسی تنازعات کے حل کے لیے بہترین حکمت عملی سفارتکاری اور تنازعات کے پرامن حل پر مکمل یقین ہے۔ یہ ایک سست عمل ہے، لیکن یہ جنگ لڑنے سے بہتر ہے؛ تاہم، سفارتکاری اس وقت کامیاب ہوتی ہے جب کوئی ملک اپنا یک طرفہ ایجنڈا مسلط کرنے کے بجائے مسئلے کا باہمی طور پر قابل قبول حل تلاش کرتا ہے۔ اسے پڑوسی ریاستوں کی سلامتی کی تشویش کا بھی احترام کرنا چاہیے جسے بات چیت کے ذریعے دور کیا جانا چاہیے اور قومی مفاد کے لیے عقلی نظریہ رکھنا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں