"HAC" (space) message & send to 7575

پاکستان کے مسائل اور ان کا حل

پاکستان کے بڑے مسائل داخلی ہیں اور ان کا حل داخلی تناظر میں ہی نکالا جا سکتا ہے۔ ہمارا ملک اس وقت ایک کثیر جہتی بحران کا سامنا کر رہا ہے جس میں معاشی مسائل‘ معاشرے میں انتہا پسندی و تشدد اور خارجہ پالیسی و سلامتی کے مسائل شامل ہیں۔ بحران کی تین جہتوں سے جو مشترکہ دھاگا گزرتا ہے وہ پاکستان کی سیاست ہے۔ پاکستان میں سیاست سماجی و اقتصادی ترقی کے حوالے سے نامہربان ہے۔ اس نے بدامنی اور تنازعات کو جنم دیا ہے اور مختلف سویلین حکومتوں کیلئے ان مسائل پر قابو پانے کے سلسلے میں حقیقت پسندانہ حکمت عملی اپنانا مشکل بنا دیا ہے۔ پاکستان میں جاری بحرانوں کی مکمل ذمہ داری کسی ایک قیادت پر عائد نہیں کی جا سکتی‘ سبھی ذمہ دار ہیں۔ معاشی‘ سیاسی‘ خارجہ پالیسی و سلامتی کے امور کے بارے میں گہرا علم رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ پاکستان کو کس نے بدحال کیا۔ ان میں سے زیادہ تر اس بدحالی کا علاج بھی جانتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ غالب اشرافیہ میں سے زیادہ تر مشکل اور حقیقت پسندانہ فیصلوں پر عملدرآمد کے عزم سے عاری ہیں۔ سیاست میں تجارتی اخلاقیات اپنانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ زیادہ تر سیاسی رہنما سیاست کو ایک منافع بخش تجارتی سرگرمی تصورکرنے پر مجبور ہو گئے‘ بجائے اس کے کہ وہ سیاست کو اپنی ذات سے بالاتر خدمت سمجھیں جس کا مقصد عام لوگوں کے مفادات کا تحفظ اور اسے آگے بڑھانا ہو۔ اقتدار میں موجود لوگ معاشرے کیلئے مجموعی طور پر طویل مدتی اور پائیدار فوائد کے بجائے فوری ضروریات کو پورا کرنے کیلئے فوری لیکن معاشی لحاظ سے غیر دانشمندانہ اقدامات کا انتخاب کرتے ہیں۔
پاکستان کا بنیادی بحران معاشی حوالوں سے میکرو اور مائیکرو‘ دونوں سطح پر ہے۔ سب سے سنگین معاشی چیلنج یہ ہے کہ داخلی ذرائع کمزور اور ناکافی ہیں۔ بیرونی ذرائع‘ جیسے بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلاتِ زر‘ غیر ملکی گرانٹس اور انفرادی ممالک و بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے قرضے پر بہت زیادہ انحصار کیا جاتا ہے۔ یہ انحصار اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ اگر ان ذرائع کے سوتے خشک ہو جائیں تو پاکستان کی معیشت پگھل سکتی ہے۔ مختلف فصلوں کی بہتر پیداوار کو یقینی بنانے کیلئے ملک کے زرعی شعبے پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ 2020-21ء میں پاکستان نے گندم‘ چینی اور کپاس درآمد کی۔ یہ درآمدات زرعی ملک کی منفی عکاسی کرتی ہیں۔ اسی طرح صنعت اور متعلقہ تجارتی سرگرمیوں میں پیداواری لاگت کو کم رکھنے کیلئے زیادہ حکومتی توجہ کی ضرورت ہے تاکہ پاکستانی مصنوعات کو مسابقتی قیمت پر برآمد کیا جا سکے۔ دیگر اقتصادی چیلنجوں میں محصولات کی وصولی‘ بجٹ خسارہ‘ بین الاقوامی تجارتی خسارہ‘ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی اور بین الاقوامی منڈی میں پاکستانی روپے کی گرتی ہوئی قدر کے مسائل شامل ہیں۔ پاکستان کو ریاستی وسائل کی بھاری کمی کا سامنا ہے جس کی وجہ سے کئی ریاستی ادارے خسارے میں چل رہے ہیں۔ گرتی ہوئی معیشت کی دوسری جہت افراطِ زر‘ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے اور بیروزگاری و غربت کی وجہ سے عام آدمی پر پڑنے والے معاشی دباؤ سے متعلق ہے۔ اس کی ایک وجہ بین الاقوامی سطح پر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ اور ایک حد تک حکومت کی کاروباری برادریوں خصوصاً تاجروں اور درمیانے درجے کے دکانداروں کو اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں من مانے اضافے سے روکنے میں ناکامی ہے۔ صوبائی حکومتیں مارکیٹ کی ان قوتوں کو کنٹرول کرنے کیلئے محدود کوششیں کرتی ہیں جو اشیا کی قیمتوں میں ہیرا پھیری کرتی ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں عام لوگوں کے معاشی مسائل کی بنیادی وجوہات پر توجہ دینے کے بجائے کھانے پینے کی بعض اشیا پر کچھ سبسڈی دیتی ہیں یا کچھ مالی امداد کر دیتی ہیں یا مفت کھانا تقسیم کرتی ہیں۔ سبسڈیز اور خیراتی ادارے آبادی کے غریب طبقوں کو کچھ ریلیف فراہم کرتے ہیں تاہم یہ اقدامات اقتصادی قلت کے خاتمے میں معاون نہیں ہیں۔زوال پذیر معیشت نے خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے معاملات میں پاکستان کے آپشنز کو کافی حد تک محدود کر دیا ہے۔ کسی ملک کا سفارتی اثر و رسوخ ہمیشہ اس کی معاشی طاقت اور اندرونی سماجی و اقتصادی ہم آہنگی سے جڑا ہوتا ہے۔ اقتصادی اور سماجی سلامتی‘ دونوں اتنی ہی اہم ہیں جتنی کہ سخت سرحدی حفاظت۔ دہشتگردی کے چیلنج نے پاکستان کی سلامتی کے مسائل میں اضافہ کیا ہے۔ فوج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے انسدادِ دہشت گردی پر توجہ دے رہے ہیں؛ تاہم یہ کوشش زیادہ مؤثر ہو سکتی ہے اگر ملک میں مستحکم اور خوشحال معیشت اور سیاسی تسلسل و ہم آہنگی ہو۔
پاکستان کی قومی سلامتی کا مخمصہ مئی 2022 ء میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ جنگ بندی کے اس کے فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے جس کا مقصد سکیورٹی کے خطرات کو کم کرنا ہے۔ پاکستان نے کابل حکومت سے کہا تھا کہ ٹی ٹی پی کو پاکستان میں دہشت گرد حملوں کیلئے افغان سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ افغان طالبان کے ٹی ٹی پی کے ساتھ تاریخی روابط کی وجہ سے کابل حکومت نے ایسا نہیں کیا۔ اس کے بجائے‘ افغان طالبان کی حکومت نے مذاکرات کی سہولت فراہم کی جس کے تحت پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان عارضی جنگ بندی کا معاہدہ ہوا۔ ایسا ہی 2021ء میں بھی ہوا تھا جب پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان عارضی جنگ بندی ہوئی تھی۔ پاکستان ٹی ٹی پی کو ایک غیر قانونی اور دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے‘ لیکن اس نے اس کی جارحانہ کارروائی کو عارضی طور پر روکنے کیلئے دو بار اتفاق (معاہدہ) کیا۔ یہ عمل ٹی ٹی پی کی حیثیت کو بڑھاتا ہے جسے ریاست پاکستان کے برابر رکھا جاتا ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ کابل حکومت ٹی ٹی پی کو برقرار رکھنا چاہتی ہے اور چاہتی ہے کہ پاکستان اس معاملے پر سمجھوتا کرتا رہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان نے اس انتظام کو قبول کر لیا ہے کیونکہ اس پر دہشت گردی کے چیلنجز کا بوجھ بہت زیادہ بڑھ چکا ہے۔ پاکستان کی معاشی اور معاشرتی مشکلات کی وجہ سے یہ نقطہ نظر بھی قابلِ فہم ہے۔موجودہ پاکستانی حکومت کا متعدد ''غیر ضروری اور لگژری اشیا‘‘ کی درآمد پر پابندی لگانے کا فیصلہ درست سمت میں ایک قدم ہے تاہم بڑی مسابقتی سیاسی جماعتوں اور گروپوں کے درمیان جاری تصادم کی سی صورتحال کی وجہ سے پاکستان کے معاشی‘ سیاسی اور سکیورٹی معاملات کے طویل المدتی حل حاصل کرنے کے امکانات روشن نظر نہیں آتے۔ پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کے درمیان مسلسل سیاسی جنگ جاری ہے۔ ان کے درمیان سیاسی گفتگو میں اکثر پارلیمانی شائستگی اور معقولیت کا فقدان نظرآتا ہے اور یہ گفتگو بعض اوقات باہمی احترام سے عاری ہوتی ہے۔ایسی سیاست جمہوریت کے آسانی سے چلنے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ مقابل سیاسی گروپوں کی جانب سے کسی بھی قیمت پر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششیں معاشی چیلنج سے نمٹنے کیلئے درکار سیاسی اشرافیہ کے درمیان ہم آہنگی اور تعاون کے امکانات کو نقصان پہنچاتی ہیں۔
سیاسی رہنماؤں کو اپنی بیان بازی کو کچھ نرم کرنے اور معاشی مسائل‘ خاص طور پر جن سے عام لوگوں پر برا اثر پڑ رہا ہے‘ سے نمٹنے کیلئے اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے مسائل کے حل اور اندرونی ہم آہنگی بڑھانے کی کلید سیاسی رہنماؤں کے پاس ہے۔ انہیں موجودہ تصادم کی سیاست کو اعتدال پر لانے اور اہم معاشی مسائل پر سمجھ بوجھ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے پاکستان کی اپنے داخلی مسائل سے نمٹنے کی صلاحیت میں اضافہ ہو سکتا ہے اور پاکستان قوموں کی برادری میں زیادہ بامعنی کردار ادا کر سکتا ہے۔ پاکستان کے بڑے مسائل اندرونی یا داخلی ہیں اور ان کا حل بھی پاکستان کے اندر موجود ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں