جنوبی ایشیا ایک وسیع خطہ ہے۔ دنیا کی 22 فیصد آبادی اس خطے کے ممالک میں رہتی ہے۔ اس خطے میں صنعت کاری‘ زراعت‘ قدرتی وسائل‘ دریائی پانی اور شجر کاری کی صلاحیت موجود ہے‘ لیکن خطے کے ممالک کی جانب سے اس صلاحیت سے پوری طرح استفادہ نہیں کیا جا رہا‘ اس لیے کہ ہر ملک میں وسیع تضادات ہیں۔پاکستان اور بھارت نے صنعت‘ کاروبار اور جدید ٹیکنالوجی کے حصول میں اہم پیش رفت کی ہے۔ ان دونوں ممالک اور سری لنکا اور بنگلہ دیش نے زرعی شعبے میں اچھا کام کیا ہے۔ بنگلہ دیش کی ملبوسات کی صنعت نے بین الاقوامی سطح پر اپنی ساکھ بنائی ہے۔ نیپال میں محدود صنعت ہے لیکن زراعت اور سیاحت نے اس کی معیشت میں مدد کی ہے۔تا ہم تین عوامل نے ان ممالک کے لیے سنگین سماجی و اقتصادی مسائل پیدا کر دیے ہیں۔ پہلا‘ تمام ممالک سماجی و اقتصادی پسماندگی اور شدید عدم مساوات کا شکار ہیں۔ جنوبی ایشیا کے تمام ممالک میں آبادی کے متمول طبقے موجود ہیں جو اپنے اور اپنے بچوں کیلئے زندگی کی تمام آسائشیں رکھتے ہیں۔ ان ممالک میں شدید غربت اور پسماندگی کے شواہد بھی پائے جاتے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں لاکھوں لوگ مکمل طور پر غربت کی زندگی گزار رہے ہیں اور ان کے پاس کوئی باقاعدہ ملازمت نہیں ہے۔ ان میں سے کچھ لوگوں کیلئے اپنے خاندانوں کو مستقل بنیادوں پر خوراک فراہم کرنا انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔بھارت صنعتی اور تکنیکی ترقی کی ایک قابلِ ذکر مثال ہے جس کے ساتھ ساتھ غربت کی بدترین علامتیں بھی وہاں موجود ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ بھارتی ریاست نے اپنے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو بے سہارا چھوڑ دیا ہے۔ آپ کووہاں امیرترین اور غریب ترین لوگ ملیں گے۔ یہی تضاد پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک میں بھی تلاش کیا جا سکتا ہے۔ امیری اور غریبی کے درمیان اس قسم کے تضاد میں بھارت جنوبی ایشیا کے دوسرے ممالک پر سبقت لے جاتا ہے کیونکہ وسیع رقبے کے ساتھ ساتھ اس کی آبادی بھی بہت بڑی ہے۔
دوسرا‘ ریاست اپنی آبادی کے بڑے حصوں کی غربت اور پسماندگی کے مسائل کو حل کرنے کے قابل نہیں یا مسائل حل کرنے کیلئے تیار نہیں۔ اگرچہ ہر ریاست آبادی کے غریب طبقوں کیلئے سماجی بہبود کے کچھ پروگرام اور مالی امداد پیش کرتی ہے لیکن یہ انتظامات عام لوگوں کے سماجی و اقتصادی مسائل سے نمٹنے کیلئے کافی نہیں۔ یہ جنوبی ایشیا میں ریاستی نظام کی ناکامی ہے کہ وہ انسانی فلاح و بہبود کی بنیادی خدمات فراہم نہیں کر سکتا اور یوں تمام ریاستیں انسانی ترقی کے شعبے میں تنزلی کا شکار ہیں۔تیسرا‘ ان ممالک کی معیشتیں داخلی سماجی اور اقتصادی چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے کافی نہیں۔ اس کمی سے آبادی کے مختلف حصوں اور کسی ملک کے مختلف علاقوں کے درمیان معاشی تفاوت میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ کمزوری ان ریاستوں کو معاشی طور پر ترقی یافتہ ممالک اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی اقتصادی مدد پر انحصار کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ بیرونی ذرائع پر انحصار کی حد ہر ملک میں مختلف ہوتی ہے لیکن اس قسم کا انحصار جنوبی ایشیا کے تمام ممالک میں نوٹ کیا جا سکتا ہے۔ کچھ ممالک اسے دوسروں سے بہتر طریقے سے ہینڈل کر لیتے ہیں لیکن انہیں اس چیز کا سامنا ہے جسے مختلف درجوں میں بیرونی ذرائع پر انحصار کے سنڈروم کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔
سری لنکا اس وقت معاشی تباہی کا سامنا کر رہا ہے جس کی بنیادی وجہ داخلی معاشی بدانتظامی اور مستحکم معیشت کیلئے پیشگی اقدامات کو ترجیح دینے میں ناکامی ہے۔ اب سری لنکا اپنی معیشت کی بحالی کیلئے آئی ایم ایف سے تعاون کا طلب گار ہے۔ یہ اقتصادی بحالی کیلئے دوست ممالک سے تعاون بھی طلب کرے گا‘ لیکن سری لنکا کے اندرونی تناظر میں اہم سیاسی اور اقتصادی اقدامات کیے بغیر معیشت کو بحال نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت کی پالیسیاں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ ان پالیسیوں میں بدعنوانی پر قابو پانا‘ ریاستی وسائل کے ضیاع سے بچنا‘ اچھی حکمرانی کو یقینی بنانا‘ اور معاشی مافیاز کی سرگرمیوں پر قابو پانا شامل ہیں۔ یہایسے معاملات ہیں جو ان ممالک میں فروغ پاتے ہیں جہاں بدعنوانی اور بدانتظامی وسیع ہوتی ہے۔
جنوبی ایشیا کے ممالک کے اپنے معاشی اور سماجی مسائل سے نبرد آزما نہ ہو سکنے کی ایک بڑی وجہ ان ریاستوں کے درمیان فعال تعاون کی عدم موجودگی ہے۔ علاقائی سطح پر بہت کم یا بالکل کوئی تعاون نہیں ہے‘ اگرچہ سارک (South Asian Association for Regional Cooperation) کے نام سے ایک علاقائی تعاون کی تنظیم دسمبر 1985ء سے موجود ہے۔ اس کا آغاز ڈھاکہ میں جنوبی ایشیا کی ریاستوں کے حکومتی سربراہان نے زندگی کے تمام شعبوں میں باہمی تعاون کو فروغ دینے کے لیے کیا تھا۔ اس کے پیچھے بنیادی خیال یہ تھا کہ اس علاقائی تنظیم کو اتنا ہی مؤثر بنایا جائے گا جیسا کہ یورپ اور جنوب مشرقی ایشیا کی ریاستوں میں علاقائی تعاون رہا ہے۔ یہ خواب پورا نہ ہو سکا اور جنوبی ایشیا میں علاقائی تعاون ڈھیلے اور غیر یقینی انداز میں آگے بڑھ سکا۔
سارک کے سربراہان حکومت نے نومبر 2014ء کے بعد سے اس تنظیم کا سربراہی اجلاس منعقد نہیں کیا۔ 2014ء کے بعد اگلی سربراہی کانفرنس نومبر 2016ء میں اسلام آباد میں ہونا تھی لیکن یہ اس لیے نہ ہو سکی کہ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اس بنیاد پر کانفرنس میں شرکت کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ پاکستان نے دہشت گردی کی حمایت کی تھی۔ مودی اسلام آباد میں ہونے والی اس سربراہی کانفرنس کے التوا کیلئے سارک کے بیشتر دیگر اراکین کی حمایت حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہا۔ چونکہ مودی پاکستان آنے پر آمادہ نہیں ‘ اس لیے سارک کا عمل اب یعنی 2022ء تک عملاً تعطل کا شکار ہے۔ بھارت نے پاکستان کو الگ چھوڑ کر خطے میں علاقائی تعاون شروع کرنے کی کوششیں کی تھیں تاہم یہ کوششیں کامیاب نہیں ہوئیں۔
جنوبی ایشیا میں علاقائی تعاون کی ناکامی کی بڑی وجوہات جغرافیائی اور سیاسی ہیں جبکہ ایک دوسرے پر عدم اعتماد بھی ہے۔ جغرافیائی عوامل میں بھارت کا حجم اور اس کے وسائل شامل ہیں جو خطے کی ریاستوں کے لیے مختلف درجوں پر تشویش کا باعث ہیں۔ بھارت اس بات پر افسوس کا اظہار کرتا ہے کہ اس کے بڑے حجم‘ وسائل اور فوجی طاقت کے باوجود جنوبی ایشیا کی چھوٹی ریاستیں اس کے کمانڈنگ کردار پر سوالیہ نشان لگاتی رہی ہیں۔ پاکستان علاقائی بالا دستی کے بھارت کے ایجنڈے پر سب سے زیادہ تنقید کرتا ہے۔ دیگر ریاستوں‘ خاص طور پر سری لنکا‘ نیپال اور بنگلہ دیش‘ نے بیرونی ریاستوں کیلئے جنوبی ایشیا کے ''گیٹ کیپر‘‘ کے طور پر کام کرنے کی بھارت کی خواہش پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ جنوبی ایشیا میںعلاقائی عدم توازن نے ان ریاستوں کے درمیان باہمی عدم اعتماد کو بڑھا دیا ہے۔
سب سے مشکل تعلقات پاکستان اور بھارت کے درمیان ہیں جو ایک دوسرے کو اپنا حریف سمجھتے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں علاقائی امن کا کوئی مشترکہ نقطہ نظر نہیں ہے اور یہ جنوبی ایشیا میں علاقائی تعاون کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ بھارت میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی‘ جو مذہبی اقلیتوں‘ خاص طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے‘ ایک اور عنصر ہے جو پڑوسی ریاستوں میں شدید تشویش کا باعث ہے‘ جو بھارت میں مذہبی انتہا پسندی کے بڑھنے کو علاقائی تعاون کیلئے منفی پیشرفت کے طور پر دیکھتی ہیں۔ یہ انتہا پسندی بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بے رحمانہ انداز میں ظاہر ہوتی ہے‘ جہاں بھارتی ریاستی جبر کا دائرہ وسیع ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان کیلئے بھارت کے ساتھ معمول کے تعلقات کو آگے بڑھانا مشکل ہو گیا ہے۔ جنوبی ایشیا میں علاقائی تعاون سے ان ممالک کو غربت اور پسماندگی کے مشترکہ مسائل پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے‘ لیکن سیاسی اور سکیورٹی عوامل اور باہمی عدم اعتماد کے پیش نظر ایسے تعاون کے امکانات فی الحال معدوم ہیں۔