"HAC" (space) message & send to 7575

بدلتے عالمی نظام کے تقاضے

19 جولائی 2022ء کو پاکستان کے پڑوس میں ایک اہم سفارتی پیشرفت دیکھنے میں آئی جب روسی صدر ولادیمیر پوتن اور ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کے ساتھ خطے کے امور پر بات چیت کیلئے تہران میں تھے۔ صدر پوتن نے ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای سے بھی ملاقات کی۔ تینوں رہنمائوں کی مشترکہ تصویر جو اس وقت عالمی میڈیا پر گردش کر رہی ہے‘ عالمی سطح پر بدلتے سفارتی رجحانات کی عکاسی کرتی ہے۔ ملاقات میں اس عزم کا بھی اعادہ کیا گیا کہ تینوں ممالک ہر جگہ خصوصاً مشرق وسطیٰ میں دہشت گرد افراد، گروپوں اور تنظیموں کی موجودگی کی بیخ کنی کیلئے باہمی تعاون کریں گے۔ ان کی توجہ شام پر مرکوز تھی جہاں دہشتگردی کے خلاف جنگ اور مداخلت کو بعض مقامی اور مغربی ممالک شام کی علاقائی یکجہتی کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ اگرچہ شام میں موجود کرد اقلیت کے حوالے سے تینوں ممالک میں اختلافات کی جھلک نظر آتی ہے؛ تاہم شام کی علاقائی سالمیت کے ضمن میں مکمل اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔
اس امر کا ادراک ضروری ہے کہ شام 2011ء سے دہشت گردی سمیت بیرونی حمایت یافتہ داخلی شورش کا سامنا کر رہا ہے۔ یہ تینوں ممالک صدر بشار الاسد کی حکومت کو سپورٹ کرتے ہیں۔ ترکیہ کردوں کی سیاسی اور عسکری سرگرمیوںکی روک تھام میں خاص دلچسپی رکھتا ہے۔ یوکرین جنگ کے تناظر میں صدر پوتن مغربی ممالک کی طرف سے عائد معاشی پابندیوں کے سد باب کیلئے سفارتی حمایت کے بھی خواہاں نظر آتے ہیں۔ اسی طرح ایران بھی معاشی پابندیوں اور اسرائیل کی مخالفت کو نیوٹرل کرنے میںدلچسپی رکھتا ہے۔ بالفاظ دیگر تینوںممالک نے کئی عالمی امور میں مختلف نقطہ نظر رکھنے کے باوجود ایجنڈے کے مشترک حصے پر آپس میں تعاون اور کوآرڈی نیشن قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تہران سربراہ ملاقات سے ایک علامتی مگر مضبوط پیغام گیا ہے۔ اِس ملاقات سے اس دور کے اختتام کا عندیہ ملتا ہے جس کا آغاز دسمبر 1991ء میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد ہوا تھا۔ سرد جنگ کے بعد کے دور کو امریکا، مغربی جمہوریت اور مغری سرمایہ داری کا دور کہا جاتا ہے جب امریکہ کو دنیا کی واحد سپر پاور سمجھا جاتا تھا۔2022ء میں ہم ایک مختلف بین الاقوامی نظام کے ساتھ ڈیل کر رہے ہیں۔ امریکہ آج بھی دنیا کی سب سے طاقتور عسکری قوت اور عظیم معیشت سمجھا جاتا ہے؛ تاہم عالمی نظام کو اپنی ترجیحات کے قالب میں ڈھالنے کی اس کی استعداد میں کمی آ چکی ہے۔ امریکہ کی عسکری اور معاشی برتری کے باوجود عالمی نظام کثیر قطبی بن چکا ہے جہاں طاقت کے کئی مراکز قائم ہو چکے ہیں۔ کوئی بھی واحد طاقت عالمی نظام میں بالادستی کا دعویٰ کرنے کے قابل نہیں رہی۔ بڑی طاقت سمیت کسی بھی ملک کی کامیابی کا سارا دار و مدار اب اس امر پر رہ گیاہے کہ ان مختلف پاور سنٹرز سے کسی ملک کو کس حد تک سفارتی سپورٹ مل سکتی ہے۔ آج کے بین الاقوامی سسٹم کا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ کسی مشترکہ ایجنڈے پر کوئی ملک کس حد تک شراکت داری کرنے کی استطاعت رکھتا ہے۔ آج کی عالمی سیاست میں تجارت، سرمایہ کاری اور خود کفیل معیشت نے کہیں زیادہ ظاہری اہمیت حاصل کر لی ہے۔ گلوبل سکیورٹی ایشوز پر اس طرح کے وسیع تر تعلقات ہی تعاون کے نئے جواز فراہم کرتے ہیں۔ اسے معیشت، تجارت، سرمایہ کاری اور سماجی تعامل سے سکیورٹی تعلقات کی طرف سفر کہا جا سکتا ہے۔ یہ نئے تعلقات سرد جنگ دور کے بلاک سسٹم کی طرف مراجعت ہرگز نہیں۔ اگر روس، ایران، ترکیہ اور چین آپس میں تعاون کر رہے ہیں تو اس کا مطلب نیا پاور بلاک بنانا نہیں۔ اسے مسائل پر مبنی شراکت داری کہہ سکتے ہیں۔ ایک ملک کئی ممالک کے ساتھ مختلف اقسام کی شراکت داریاں وضع کر سکتا ہے؛ تاہم وہی شراکت داری جاری رہ سکتی ہے جو اس اشتراک میں شامل ممالک کیلئے سماجی، معاشی اور سکیورٹی کے فوائد مہیا کر سکتی ہو۔
اس عالمی نظام میں جو نئے پاور سنٹرز سامنے آئے ہیں ان میں امریکہ، یورپ، چین، جاپان، مشرقی ایشیا کی مضبوط معیشتیں، روس، اور سعودی عرب شامل ہیں۔ عالمی شراکت داری میں ان ممالک کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ چین اور امریکہ میں خاص مخاصمت پائی جاتی ہے۔ اگرچہ چین اور روس ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں؛ تاہم امریکہ چین کے ایشیا پیسفک ریجن، افریقہ، پاکستان اور مشرق وسطیٰ میں اثر و رسوخ کو محدود کرنے پر متوجہ ہے۔ چین کے مقابلے میں روس ایک چھوٹا مسئلہ سمجھا جاتا ہے مگر اس کے یوکرین کے خلاف اقدام نے واضح کر دیا ہے کہ عالمی سطح پر روس بھی امریکہ اور مغربی ممالک کے مفادات کیلئے ایک نیا چیلنج بن کر ابھر رہا ہے۔ موجودہ عالمی سیاست کے دو دلچسپ پہلو سرد جنگ دور کی سیاست سے جداگانہ نظر آتے ہیں۔ اگرچہ چین اور امریکہ عالمی سطح پر باہمی مسابقت کی راہ پر گامزن ہیں مگر وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مثبت اور منفی تعلقات کو برقراررکھے ہوئے ہیں۔ دونوں ممالک کے ایک دوسرے کے ساتھ معاشی مفادات وابستہ ہیں۔ چینی کمپنیوں اور حکومت نے امریکہ میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ اسی طرح امریکہ کی ملٹی نیشنل کارپوریشنز نے چین کے ساتھ تجارتی اور سرمایہ کارانہ تعلقات قائم کر رکھے ہیں۔ سرکاری سطح پر چین اور امریکہ ایک دوسرے پر تنقید کرتے رہتے ہیں مگر ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت بھی جاری رہتی ہے۔ بالفاظ دیگر ایک دوسرے کے متصادم ایجنڈے اور ایک دوسرے کی پالیسیوں پر غصے کے اظہار کے باوجود دونوں ممالک میں تعلقات کے مکمل خاتمے کے امکانات بہت کم ہیں۔ یوکرین جنگ کے خاتمے کے بعد یہی طرز عمل ہمیں روس کے معاملے میں بھی نظر آئے گا۔ موجودہ عالمی نظام کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ فریقین اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کیلئے دوسرے ممالک کے ساتھ شراکت داری اور مخالف ملک پر سفارتی دبائو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ امریکہ بھارت، جاپان، آسٹریلیا اور برطانیہ کے اشتراک سے چین کی معاشی شراکت داری اور اثر و رسوخ کو محدود کرنے کیلئے کام کر رہا ہے۔ اسی طرح چین بھی دوسرے ممالک کے ساتھ معاشی شعبے میں مل کر کا م کر رہا ہے تاکہ امریکہ کے سفارتی دبائو کو نیوٹرل کر سکے۔ اسی تناظر میں ہی پاکستان بھی چین کیلئے اہمیت اختیار کر گیا ہے۔
ترکیہ، روس اور ایران کے سربراہوں کی تہران میں ہونے والی ملاقات نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ وہ کوئی نیا بلاک نہیں بنا رہے بلکہ اپنے مشترکہ مقاصد کے حصول کیلئے کوئی مربوط راستہ وضع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان کو بھی اپنے دائرہ کار میں وسعت پیداکرتے ہوئے چین اور روس جیسے نئے پاور سنٹر ز کے ساتھ تعاون کی راہیں نکالنی چاہئیں۔ یو اے ای، قطر اور ترکیہ بھی اپنے علاقائی کردار کی تلاش میں ہیں۔ پاکستان کو چاہئے کہ وہ ان ممالک کے ساتھ بھی تعاون کو فروغ دے۔ ایران پاکستان کا ہمسایہ ہے اور ہماری انرجی کی ضروریات پوری کرنے میں بہت معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ پاکستان امریکہ اور مغرب کے ساتھ اپنے روایتی دوستانہ تعلقات کو نظر انداز کر دے۔ موجودہ سفارتی رجحانات پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ان ممالک کے ساتھ وسیع تر شراکت داری قائم کرنی چاہئے جن کے بارے میں امکان ہے کہ وہ مستقبل میں خاص اہمیت حاصل کرنے والے ہیں۔ اس کے لیے ہمیں روایتی اپروچ سے ہٹ کرفیصلے کرنا ہوں گے اور نئے سفارتی امکانات کا کھوج لگانا ہو گا۔ اگر پاکستان 21ویں صدی کے نئے چیلنجز کا سامنا کرنا چاہتا ہے تو نئی دنیا خارجہ پالیسی کے میدان میں نئی اپروچ کی متقاضی ہے۔ عہد حاضر کے انارکی کے شکار گلوبل سسٹم میں کوئی بھی ملک مستقل دوست ہوتا ہے نہ دائمی حریف۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں