دودسمبر کو کابل میں پاکستانی سفارت خانے پر دہشت گردوں کے حملے نے اس امر کی اہمیت کو اجاگر کر دیا کہ افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے سرکاری اور نیم سرکاری مؤقف کا مکمل جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اگست 2021ء میں جب سے کابل میں طالبان حکومت قائم ہوئی ہے یہ واقعہ پاکستان کے خلاف تشدد کے اس روز افزوں رجحا ن کی غمازی کرتا ہے جس کا منبع افغانستان ہے۔دو طرح کی دہشت گردی کی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے‘اول :پاکستان کی سرحدی چوکیوں پر پاک افغان سرحد کے اُس پار سے ہونے والے حملے‘ جن میں زیادہ تر تحریکِ طالبان پاکستان ملوث ہے؛ تاہم چمن بارڈر پر افغان بارڈر سکیورٹی اہلکاروں کی طرف سے ہونے والی فائرنگ کے چھوٹے موٹے واقعات جن کی وجہ سے عارضی طورپر سرحد کے آرپار اشیائے ضروریہ اور انسانی نقل وحمل معطل ہو جاتی ہے۔ چند ایک مواقع پر طورخم سرحد پر بھی پاک افغان سکیورٹی اہلکاروں کے درمیان ضابطے کی کارروائی پر اختلافات کی وجہ سے نقل و حرکت میں خلل پیدا ہوا۔دوم : ٹی ٹی پی اور ان کے مقامی بہی خواہ صوبہ خیبر پختونخوا خاص طورپر سوات اور قبائلی اضلاع میں متحرک ہو گئے۔اگرچہ کابل حکومت براہ راست ان واقعات میں ملوث نہیں مگر اسے اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔
پاکستان کے سرکاری حلقوں نے کابل میں طالبان حکومت کی واپسی پراطمینان کا اظہار کیا اور اسے ہر طرح کی ممکنہ انسانی امداد فراہم کی۔ پاکستان نے اگست‘ ستمبر 2021ء میں کابل سے امریکی اور نیٹو افواج کے علاوہ افغان شہریوں کے انخلامیں بھی سہولت فراہم کی تھی۔ روایتی طور پر افغانستان کے بارے میں پاکستان کی سرکاری سوچ بھارتی فیکٹر کے زیر اثر کام کرتی ہے اور وہ ہمیشہ اسے اپنے حلقۂ اثر میں رکھنے کا خواہاں رہا ہے۔ بہت سے ثبوتوں سے اس امر کی غمازی ہوتی ہے کہ افغانستان کی کئی حکومتوں نے اپنے پاکستان مخالف سیاسی اور تزویراتی ایجنڈے کی روشنی میں بھارت کے ساتھ تعاون کیا۔ بھارت نے کئی مرتبہ پاکستان کے خلاف خفیہ کارروائیوں کیلئے افغان سرزمین کواستعمال کیا۔پاکستان کے عسکری امور کے ماہرین بھی اکثر دونوں محاذوں پر خطرات کی موجودگی کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ایک پاک بھارت سرحد اور کشمیر کے ساتھ لائن آف کنٹرول پر‘دوم :پاک افغان سرحد‘جہاں بھارت اور افغانستان نے براہ راست فوجی محاذآرائی یا پاکستان میں شورش پسندی کی حمایت اور دہشت گردی کے ذریعے دبائو بڑھانے کی کوششیں کیں۔ پاکستان کی ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے کہ افغانستان میں اپنا حلقۂ اثر قائم کرے‘ لہٰذا پاکستان ہمیشہ افغانستان کی مدد اورہر ممکن سہولت کاری کیلئے تیار رہتا ہے۔ پاکستان 1979-89ء میں افغانستان میں سوویت مداخلت کے خلا ف مزاحمتی تحریک میں طرح متحرک رہا۔حکومتِ پاکستان کے پاس اپنے اس کردار کے بے شمار جواز موجود ہیں‘ جن میں افغانستان کے اندر تزویراتی گہرائی کا قیام بھی شامل ہے۔
پاکستان نے 1996-2001ء کے دورا ن قائم ہونے والی پہلی طالبان حکومت کا خیر مقدم کرنے کے علاوہ اس کی بھرپور مدد کرنے کا اعلان کردیا کیونکہ اس حکومت نے بھارت کو افغان سرزمین سے بے دخل کر دیا تھا۔ یہی سوچ واحد فیکٹر تھا جس نے پاکستان کو افغانستان کی موجودہ طالبان حکومت کی حمایت پر مجبور کیاتھا۔ افغانستان میں پاکستان کے دیگر روایتی مفادات میں تجارت او ر معاشی تعلقات شامل ہیں۔ تجارت میں بذریعہ پاکستان افغان ٹرانزٹ ٹریڈ‘پاک افغان دو طرفہ تجارت کے علاوہ غیر رسمی چینلز کے ذریعے ہونے والی سمگلنگ بھی شامل ہے۔ اس رسمی اور غیر رسمی تجارت کا ایک اہم پہلو خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے ساتھ افغانستان کے دیرینہ تجارتی تعلقات ہیں۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان سماجی سطح پر صدیوں پرانے نسل در نسل تعلقات اور خاندانی رشتے داریاں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ 1979-80ء کے دور میں آنے والے افغان مہاجرین بھی پاکستان میں مقیم ہیں جن کی وجہ سے خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے کئی شہروں میں سماجی سطح پر ان کیلئے ایک خاص سپورٹ موجود ہے۔ ان لوگوں کی طرف سے پھیلائی جانے والی منافرت دونوں ممالک کے تعلقات میں خرابی کا باعث بن جاتی ہے۔
پاک افغان تعلقات کو متاثر کرنے والے پیچیدہ عوامل پاکستا ن کے لیے یہ امر مشکل تر بنا دیتے ہیں کہ وہ افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں پر رد عمل کے طورپر موجودہ طالبان حکومت کے خلاف سخت گیر رویہ اپنائے۔دوسری جانب پاکستان کبھی اس کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ افغانستان میں مقیم یا افغانستان سے منسلک دہشت گرد گروپس کو اجاز ت دے کہ وہ پاکستان کے خلا ف تشدد کاآزادانہ استعمال کر سکیں۔ افغانستان کے بارے میں ایک نئی حکمت عملی کے تناظر میں پاکستان کو کابل میں ایسی حکومت کے قیام کا آئیڈیا ترک کردینا چاہئے جو پاکستان کے علاقائی سکیورٹی پیرامیٹرز سے مطابقت رکھتی ہو۔ پاکستان کو یہ بھی چاہئے کہ وہ افغانستان کو اپنا حلقۂ اثر سمجھنا چھوڑدے کیونکہ ایسے ہدف کا حصول ممکن ہے نہ ہی ایسے تعلقات کے ذریعے پاکستان کے علاقائی مفادات کی تکمیل ممکن ہے۔ یہ افغان اشرافیہ‘ طالبان اور ان غیر طالبان عناصر کے حریصانہ عزائم اور سوچ سے بھی متصادم ہے جو گزشتہ چار عشروں سے پاکستان کی طرف سے افغانستان کی سپورٹ کو نظر انداز کرتے آئے ہیں اور پاکستان کی افغان پالیسیوں کو حاکمانہ قرار دیا جاتا رہا ہے۔
ان تمام عوامل کا اولین تقاضا یہ ہے کہ پاکستان کے پالیسی ساز اپنا مائنڈسیٹ تبدیل کریں۔انہیں افغانستان کو محض اپنا ہمسایہ سمجھناچاہئے جس کے ساتھ ہمیشہ دوطرفہ مفادات کی روشنی میں ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ہماری ساری توجہ قومی سلامتی اورسفارتی تال میل‘ تجارت‘معاشی تعلقات‘ افغانستان کو انسانی بنیاد پر امداد کی فراہمی اور پاک افغان سرحد پر باضابطہ انسانی نقل وحرکت پر دوطرفہ مشاورت تک محدود رہنی چاہئے۔ اس طرح کا کثیر جہتی تال میل دونوں جانب سے ہونا چاہئے اور پاکستانی سفارت کاروں کو عالمی سطح پر افغانستان کا دفاع یا سپورٹ کرنے کے لیے غیرمعمولی اقدامات سے گریز کرنا چاہئے۔وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان ٹی ٹی پی اور افغان سرزمین سے سرگرم دیگر تنظیموں کے کردار کے بارے میں طالبان حکومت سے دو ٹوک انداز میں بات کرے۔یہ امر افغان حکومت پر واضح کردینا چاہئے کہ پاکستان دہشت گردی کی ایسی سرگرمیوں پرپوری یکسوئی کے ساتھ نظر رکھے ہوئے ہے۔ اگر کابل حکومت ان ایشوز پر ذمہ دارانہ رویے کا مظاہرہ نہیں کرتی تو پاکستان کو بھی دو طرفہ تعلقات کے ضمن میں اپنا دستِ تعاون کھینچ لینا چاہئے۔ مزید یہ کہ اگر پاک افغان سرحد پر دفاعی مقاصد کیلئے لگائی گئی باڑ کا کام مکمل اور پوری طرح آپریشنل ہو گیا ہے تودہشت گرد پاکستان میں کیسے داخل ہو جاتے ہیں؟ دفاعی اداروں اور ٹیکنالوجی کی مدد سے سرحدی باڑ کی نگرانی کے عمل کومؤثر اور مستحکم بنایا جائے۔پاکستان کی سرحدوں کے اندر دہشت گردی کی سرگرمیوں پر قابو پانا حکومت ِپاکستان کی ذمہ داری ہے۔ 2022ء میں خیبر پختونخوا کے بعض حصوں میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔مقامی آبادی کی طرف سے دہشت گردی پر قابو پانے کے مطالبے کے باوجود متعلقہ اتھارٹیز بظاہر مشکلات سے دوچار نظر آتی ہیں۔ ان علاقوں میں دہشت گردوں کی سرگرمیوں پر قابوپانے کیلئے سخت اور متحرک حکمت عملی اپنانی چاہئے۔تاریخی رشتوں‘ آئیڈیالوجی اور نسل کی بنیادپرتعلقات قائم کرنے کے بجائے ہمیں حقیقت پسندانہ اور مساویانہ افغان پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے۔