سیاسی حلقوں میں تواتر سے یہ بات زیرِ بحث ہے کہ پاکستان اپنے غیرملکی قرضوں اور دیگر واجبات کی ادائیگی نہ کرسکنے کی وجہ سے ڈیفالٹ کر رہا ہے یا ملکی معیشت بالکل ٹھیک جارہی ہے‘جبکہ حقیقت ان دونوں انتہائوں کے درمیان کہیں واقع ہے۔ہماری معیشت اس وقت سخت مشکلات کا سامنا کر رہی ہے۔پاکستان ملکی وسائل سے اپنی بین الاقوامی ذمہ داریاں پوری کرنے سے قاصر ہے؛ تاہم ڈیفالٹ کا امکان بھی نہیں ہے کیونکہ وہ اپنی معیشت کو داخلی اور خارجی سطح پررواں رکھنے کے لیے بیرونی ذرائع سے ملنے والی مالیاتی سپورٹ استعمال کرتا ہے۔اس کی پہلی خارجی سپورٹ آئی ایم ایف ہے جس کا معاشی ری سٹرکچرنگ کا موجودہ پروگرام جولائی 2019ء میں شروع ہو اتھا۔یہ اس سال ستمبر میںختم ہونا تھا مگر پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت نے اس پروگرام میں جون 2023ء تک کی توسیع کرا لی؛ تاہم پاکستان کو اپنی معیشت کے نویں جائزے میں مسائل کا سامنا کرناپڑرہا ہے کیونکہ آئی ایم ایف معیشت کی مینجمنٹ اور سیلاب سے متعلق اخراجات کے حوالے سے سخت سوالات پوچھ رہا ہے۔جب اس کی نئی قسط کی منظوری مل گئی تو پاکستان کے لیے بعض ممالک اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے قرضے لینے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔
اس کی دوسری حکمت عملی یہ ہے کہ قرضوں اور ان کے سودکی واپسی میں التوا یا ان کی ری شیڈولنگ کرالے؛ اگرچہ ایسی صورت میں اکثر مقروض ملک پر اس قرضے کی لاگت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس کے پاس تیسرا راستہ یہ ہے کہ وہ پرانے قرضوں کی جزوی ادائیگی کے لیے نئے قرضے لے لے۔اس سے قرضوں کا بوجھ توبڑھ جاتا ہے مگر ملک مالیاتی ڈیفالٹ سے بچ جاتا ہے۔ چوتھا ممکنہ راستہ یہ ہے کہ بعض پروجیکٹس کے لیے یا اپنے غیرملکی زر مبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کرنے کے لیے دوست ممالک سے مالی گرانٹس حاصل کر لے۔ اس وقت پاکستان کی کوشش ہے کہ اسے سعودی عرب‘یواے ای اور چین سے مزیدسپورٹ حاصل ہو جائے۔آئی ایم ایف کی طرف سے ریویو کی تکمیل کے بعد پاکستان قطر سمیت ان ممالک سے ایسی مزید مالیاتی سپورٹ کا خواہش مند ہے۔پانچواںممکنہ راستہ یہ ہے کہ سمند رپار پاکستانی تارکین وطن کی طرف سے ملنے والی ترسیلاتِ زر پر انحصار کرے جو کہ گزشتہ تین عشروں سے پاکستان کے لیے غیرملکی زر مبادلہ کے حصول کابڑا ذریعہ رہی ہیں؛تاہم گزشتہ چند ماہ سے اس مد میں فنڈز ٹرانسفر میں کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔پی ٹی آئی کی حکومت نے اوور سیز پاکستانیوں کے لیے دلکش شرحِ منافع کے ساتھ روشن ڈیجیٹل بینک اکائونٹس کی سہولت دی ہوئی تھی جنہوں نے اس سسٹم میں بھاری رقوم جمع کروا رکھی تھیں؛تاہم روشن ڈیجیٹل اکائونٹس میں سرمایہ کاری میں کمی واقع ہو چکی ہے۔
پاکستان کو عمومی طورپر سعودی عرب سے تین طرح کی مالیاتی سپورٹ ملتی رہی ہے :قابل ِواپسی قرضے‘پاکستان کو مالی سپور ٹ فراہم کرنے کے لیے سٹیٹ بینک آف پاکستان میں زر مبادلہ کے بھاری ذخائر کی منتقلی جسے پاکستان خرچ نہیں کرسکتا اور تیل کی قیمت کی تاخیر سے ادائیگی۔تیل کی قیمت کی تاخیر سے ادائیگی کی سہولت پہلی مرتبہ مئی 1998ء کے ایٹمی دھماکوں کے بعد فراہم کی گئی تھی۔بعد میں پاکستان کو اس کی پوری ادائیگی نہیں کرناپڑی کیونکہ سعود ی عرب نے اس رقم کے بڑے حصے کو پاکستان کے لیے گرانٹ میں تبدیل کردیا تھا۔ پاکستان تاخیر ی ادائیگی کی بنیاد پر مزید تیل خریدنے کا خواہش مند ہے۔ پاکستان نے بعض عرب اور خلیجی ممالک کی طرف سے سرمایہ کاری بھی حاصل کر لی ہے۔ دسمبر کے پہلے ہفتے میں سٹیٹ بینک کے پاس غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 6.72 ارب ڈالر ز تھے۔ اس میں و ہ زرمبادلہ شامل نہیں تھا جو کمرشل بینکوں کے غیر ملکی فارن ایکسچینج اکائونٹس میں جمع ہے۔سٹیٹ بینک کے پاس جمع زرمبادلہ کے ساتھ مشکل یہ ہے کہ ان رقوم کا بڑا حصہ پاکستان کی ملکیت نہیں ہے۔ان میں وہ فنڈزبھی شامل ہیں جو سعودی عرب‘یواے ای اور چین نے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو سپورٹ دینے کے لیے جمع کرارکھے ہیں۔
ان عوامل سے عیاں ہو جاتا ہے کہ پاکستان کی معیشت خارجی وسائل کی محتاج ہے جن کی وجہ سے اسے غیر ضروری بیرونی معاشی اور سیاسی دبائو کا سامنا کرناپڑتا ہے۔ ڈونر ممالک اور عالمی مالیاتی ادارے ہماری معیشت کو اپنی منشا اور ہدایات کے مطابق چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وسائل کے محتاج ملک کی مجبور ی بن جاتی ہے کہ وہ ان کے زیادہ تر مطالبات کو پورا کرے تاکہ مالیاتی سپور ٹ کا سلسلہ جاری رکھا جا سکے۔ اس سے احتیاجی تعلقات کے راستے کھل جاتے ہیں۔
پاکستان کی معیشت کو کثیر جہتی مسائل اور مشکلات کا سامنا ہے جن کا تقاضا ہے کہ ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے مشکل معاشی فیصلے کیے جائیں تاکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بیرونی وسائل پر انحصار کو کم کیا جا سکے۔حکومت تنہایہ کام نہیں کر سکتی۔اس کے لیے حزبِ اختلاف کی بڑی سیاسی جماعتوں او رگروپس کی حمایت بھی درکار ہے۔سیاسی قوتوں کے درمیان فوری اتفاقِ رائے کی ضرورت ہے تاکہ ملکی معیشت کو سنبھالا دیا جا سکے۔ ڈگمگاتی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے انہیں متعدد اہم اقدامات پر اتفاقِ رائے پیدا کرنا ہوگا۔اس مرحلے میں معیشت کے حوالے سے فعال اتفاقِ رائے ممکن نظر نہیں آتا کیونکہ وفاق میں پی ڈی ایم کی حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان تعلقات اس قدر مخدوش ہیں کہ وہ سیاسی اور معاشی ایشوز پر اتفاقِ رائے پیدا کرنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار نہیں۔
پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال کسی طور معاشی ترقی کے لیے موزوں نہیں۔ حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف دونوں ایک دوسرے کو بہر صورت سیاسی نقصان پہنچانے کے درپے نظر آتے ہیں؛ چنانچہ سیاسی اختلافا ت سیاسی دشمنی کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔پی ٹی آئی فوری انتخابات کا انعقاد چاہتی ہے مگر وفاقی حکومت یہ مطالبہ ماننے کے لیے ہرگز تیار نہیں۔حکمران اتحا دمیں شامل کچھ عناصر ایک سال تک الیکشن ملتوی کرا کرانہیں 2024ء تک لے جانا چاہتے ہیں۔ایسی دگر گوں صورت حال نے سیاسی بے یقینی میں اضافہ کردیا ہے۔یہ پیشگوئی کرنا ممکن نہیں کہ و سط جنوری یا فروری میں ملکی حالات کس رخ کروٹ بدلیں گے۔اگر ملکی سیاست اسی بے یقینی سے دوچار رہی اور سیاسی کشیدگی میں کمی لانے کے لیے اپنے مفادات کی غلام سیاسی جماعتیں کوئی درمیانی راستہ وضع نہیں کرتیں تو ملکی معیشت کی بحالی کے امکانات میں بہتری لانا ممکن نہیں ہوگا۔بزنس اور صنعتی شعبے بھی زبوں حالی کا شکا رہیں کیونکہ سیاسی بے یقینی اور ان معاشی حالات میں غیر ملکی سرمایہ کار تو درکنارکوئی مقامی سرمایہ کار بھی انویسٹمنٹ پر آمادہ نہیں ہوگا۔غیر ملکی زرمبادلہ ذخائر میں کمی کی وجہ سے ناگزیرتجارتی اشیا کی درآمد کے لیے بھی سنگین مسائل پیداہو گئے ہیں جن کے ہمارے بزنس اور صنعتی شعبے کی ایکسپورٹ پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔اپنے غیر ترقیاتی اخراجات اورکابینہ کے حجم میں کمی لانے اورسرکاری اداروں سے سرمایہ نکال کراپنے مالیاتی اخراجات میں کمی کرنے کے لیے حکومت ضروری اورمشکل فیصلے کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔ریکو ڈک فیصلے نے حکومتی اتحاد میں شامل دو فریقوں میں مغائرت پیدا کردی ہے۔اگر حکومت یک طرفہ فیصلوں کے ذریعے حکومتی اداروں کی نجکاری کرتی ہے تو اسے اپوزیشن کے ساتھ ساتھ اپنی مخلوط حکومت کے اندر سے بھی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔یہ صورت حال اس امر کی متقاضی ہے کہ وفاقی سطح پر حکومتی اتحاد اور اپوزیشن میں مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا جائے؛ تاہم یہ خواب اس وقت تک شرمندئہ تعبیر نہیں ہوسکتا جب تک فریقین کی اعلیٰ قیادت محاذآرائی کا راستہ ترک کر کے اہم سیاسی اور معاشی ایشوز پر ایک دوسرے کے لیے تحمل کی روش اختیار نہیں کرتی۔