چین بھارت تعلقات پیچیدہ نوعیت کے حامل ہیں۔ ایک طرف دونوں ممالک تجارتی شراکت دار ہیں اور ان میں سفارتی و ورکنگ تال میل پایا جاتا ہے‘ دوسری طرف ان کے دو طرفہ تعلقات میں عدم اعتماد کی فضا بھی نمایا ں ہے۔ چین بھارت کشیدگی کاتعلق صرف دونوں ممالک کے سرحدی علاقوں پر دوطرفہ دعووں ہی سے نہیں بلکہ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ بھارت ایشیائی اور افریقی ممالک کے سامنے خود کو چین کے سیاسی او رمعاشی نظام کے مقابلے میں ایک بہتر متبادل کے طورپر پیش کرنا چاہتا ہے؛ تاہم چین کے بدلے ہوئے معاشی اور سیاسی کردار کے ساتھ ساتھ گزشتہ دو عشروں کے دوران اس نے جس طرح معاشی اشتراک کو ایک اہم سفارتی حکمت عملی اور ہتھیار کے طورپر استعمال کیا ہے اس نے بھارت کی خود کو ترقی پذیر ممالک کے سامنے سفارتی اور معاشی ماڈل کے طور پر پیش کرنے کی تمام کوششوں کو بے اثر کر دیا ہے۔مئی 2014ء سے نریندرمودی حکومت کی اشیر باد سے ہندو انتہا پسندی میں اضافے نے بھی بھارت کے سیکولر جمہوریت کے چہرے کو بری طرح مسخ کیا ہے۔ دسمبر 2022ء کے دوسرے ہفتے کے دوران بھارت کی شمال مشرقی ریاست اروناچل کے توانگ سیکٹر میں چین او ربھارت کے مابین محدود پیمانے پر فوجی کشیدگی پید اہوگئی تھی۔دونوں ممالک نے اس موقع پر تحمل و برداشت کا مظاہرہ کیا اور کشیدگی میں مزید شدت نہ پیدا ہونے دی۔ چین اروناچل کو جنوبی تبت قرار دے کر اس پر اپنا علاقائی دعویٰ جتلا تا ہے۔بعض رپورٹس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ نومبر کے آخری ہفتے میں اسی طرح کا ایک واقعہ لداخ ریجن میں بھی رونما ہو چکا ہے؛ تاہم ان واقعات کی حدت اس نوعیت کی نہیں تھی جو مئی جون 2020ء کے دوران مشرقی لداخ کی گلوان وادی میں ہونے والی جھڑپوں کے دوران محسوس کی گئی۔ اگرچہ دوممالک کے متعدد فوجی مارے گئے؛ تاہم بھارت کو چین کے ہاتھوں اُس وقت شدید فوجی دھچکا لگا جب چین نے لداخ اقصائے چن ایریا میں واقع ایل اے سی کے ارد گرد بھارت کے زیرقبضہ علاقے پر کنٹرول قائم کر لیا۔ بعد میں دونوںممالک نے بات چیت کے ذریعے کشیدگی کو ختم کیا۔ تاہم ابھی تک متضاد علاقائی دعووںمیں کوئی تبدیلی نظرنہیں آئی۔
1949 ء ہی سے چین بھارت تعلقات دو انتہائوں کے درمیان معلق رہے ہیں۔ ابتدائی برسوں میں ان تعلقات پر وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے روس اور چین کی طرف رجحان کی گہری چھاپ نظر آئی اور ہندی چینی بھائی بھائی کے نعروں سے بھارت کے چین کے ساتھ تعلقات کی عکاسی ہوتی رہی جس کے پیش نظر دونوں ممالک میں پائے جانے والے سرحدی تنازعات کو اچھالنے سے گریز کیا جاتا رہا۔ 1959ء کے بعد دونوں ممالک میں سرحدوں کے تعین کے لیے اختلافات پیداہونا شروع ہوگئے۔ جب اکتوبر 1962ء میں بھارت نے اپنی بین الاقوامی سرحد پر علاقائی کنٹرول حاصل کرنے کے لیے چین کے خلا ف جارحیت کا ارتکاب کیا تواسے جواب میں شدید سبکی کا سامنا کر نا پڑا؛تاہم 1979 ء کے بعد دونوں ممالک نے اپنے سرحدی تنازع کو طے کرنے کے لیے مذاکرات کے آپشن پرغور کرنا شروع کیا۔ 1981ء میں شروع ہونے والامذاکرات کا باقاعدہ سلسلہ نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکا۔چین اور بھارت کے درمیان دوطرفہ سرحد کا درست تعین اورمتنازع علاقائی دعوے ابھی تک حل طلب ہیں؛ تاہم 1962ء کی سرحدی جنگ کے بعد مئی‘ جون 2020ء میں ہونے والی دوطرفہ سرحدی جھڑپیں ایک بڑا عسکری واقعہ تھا۔
آج کل متعدد عوامل نے چین کو بھارت کے خلاف عسکری دبائو بڑھانے کا فیصلہ کرنے پر مجبور کیا۔چین بھارت کو متنبہ کرنا چاہتا تھا کہ وہ اس کے خلاف متحارب سفارتی اور عسکری طرزِ عمل اپنانے سے گریز کرے۔گزشتہ کئی برسوں کے دوران بھارت نے چینی سرحد کے ساتھ ساتھ اپنی عسکری قوت میں اضافہ کیا، نیز لداخ اور شمال مشرقی سرحدی ریجن میں سڑکوں کا ایک نیٹ ورک بھی تعمیر کرلیا تھا۔ اس نے اپنا لاجسٹک سپورٹ سسٹم بھی بہتر بنا لیا اور اس علاقے میں بڑے جہازوں کی آمدو رفت کے لیے فضائی اڈے بھی اَپ گریڈ کر لیے۔چین کو ان اقدامات پر تشویش لاحق تھی اور اس نے بھارت کے ان دعووں کو یکسر مستر دکر دیا کہ اس کی یہ سرگرمیاں ایل اے سی کے ارد گرد چینی سرگرمیوں کا رد عمل ہے۔ چین بھارت کے 5 اگست 2019ء کے اس فیصلے کو بھی تشویش کی نظر سے دیکھتا ہے جس کے تحت انڈیا نے مقبوضہ کشمیر کو دو یونین ٹیریٹریز میں تقسیم کر دیا ہے اور لداخ ریجن میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی غرض سے لداخ کو بھی ایک یونین ٹیریٹری میں تبدیل کردیا۔ چین کی تشویش کا دوسرا سبب یہ ہے کہ بھارت نے امریکہ آسٹریلیااور جاپان کے ساتھ دفاعی اور سفارتی تعاون کے لیے ہاتھ ملا لیا ہے جس کے تحت بحیرہ جنوبی چین میں اس کے خلا ف دبائو بڑھایا جائے گا اور ایشیا پیسفک اوشن کے ریجن میں بھی اس کے اثرو رسوخ کو محدود کیا جائے گا۔ بھارت آسٹریلیا معاہدے کے تحت دونوں ممالک کو ایک دوسرے کی فوجی سہولتیں استعمال کرنے کی بھی اجازت ہو گی۔برطانیہ بھی چین کے گھیرائو کیلئے اس چار ملکی معاہدے کی سپورٹ کرتا ہے۔ نومبر 2022ء میں امریکہ اور بھارت نے چین کی سرحد سے متصل شمالی بھارت کے صوبے اترا کھنڈ میں فوجی مشقیں کی ہیں۔ چین کی تشویش کا تیسرا اہم سبب بھارت اور امریکہ کی طرف سے سی پیک منصوبے کی مخالفت ہے جو چین کے عالمی معاشی شراکت داری پروجیکٹ یعنی بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا جزوِ لاینفک ہے۔گوادر پورٹ اور وہاں سے چینی صوبے سنکیانگ کے ساتھ روڈ لنک چین کے مغربی ریجن کی سماجی اور معاشی ترقی کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ سی پیک کی بدولت پاکستان کے لیے بھی بہت سے معاشی فوائد متوقع ہیں۔ بھارت کی پریشانی یہ ہے کہ چین کی سرحد پر ہونے والی فوجی محاذ آرائی سے نریند ر مودی کی حکومت کی شہرت کو ملکی سطح پر شدید زک پہنچی ہے۔ اس سے عالمی برادری پر بھی یہ حقیقت آشکار ہو ئی ہے کہ بھارت چین کے عسکری دبائو کو برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتا‘ نتیجے کے طورپر بھارت کی چین کی ہم پلہ طاقت ہونے کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔
ایشیائی اور افریقی ممالک کو تیز ی سے اس امر کا ادراک ہوتا جارہا ہے کہ بھارت کی کمزو رعسکری استعداد‘ روز افزوں مذہبی انتہا پسندی کی بناپر جس نے اس کے سیکولر اور جمہوری امیج کو بری طرح مجروح کر دیا ہے‘ اسے چین کا متبادل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بھارت کی تشویش کا ایک اوربڑا سبب پاک چین معاشی اور دفاعی تعاون بھی ہے جس کی وجہ سے چین کو بذریعہ کراچی اور گوادر باقی دنیا تک رسائی ملتی ہے‘ نیزچین سی پیک کو ایک مثالی نمونے کے طورپر دنیا کے سامنے پیش کر سکتا ہے کہ چین کس طرح اپنے دوست ممالک کی مدد کرتا ہے۔ مغرب کی مدد سے چین کے گھیرائو کی بھارتی پالیسیوں کے مقابلے میں یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ پاک چین تعاون افریقی اور ایشیائی ممالک کیلئے پُرکشش ثابت ہو گا۔
بھارت جس طرح خود کو چین کے متبادل کے طورپر پیش کرنے کے درپے ہے حالیہ چین بھارت فوجی جھڑپوں نے اس کے دعووں کے کھوکھلے پن کو دنیا پر آشکار کر دیا ہے۔ درحقیقت چین کے فوجی دبائو کے خلاف تحفظ کے لیے بھارت اب عالمی برادری کی سپورٹ حاصل کرنے کا خواہاں ہے۔وہ اب جی 20جیسے عالمی فورمز‘انڈیا‘امریکہ‘جاپان اور آسٹریلیا کے درمیان چار ملکی معاہدے اور امریکہ کے ساتھ دو طرفہ تعاون کے ذریعے اپنی پوزیشن مضبوط کر نا چاہتا ہے ؛چنانچہ بھارت اب چین کے ساتھ سرحدی جھڑپوں کو جمہوریت او رآمریت کے درمیان محاذآرائی کے طور پر پیش کررہا ہے‘ نیز وہ مغربی ممالک خصوصاًامریکہ کے ساتھ مل کر چین کے ترقی کے سفر کو مسدود کرنا چاہتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت مغربی ممالک کی سپورٹ سے خود کو چین کے سفارتی اور عسکری دبائوسے بچانا چاہتا ہے۔