"HAC" (space) message & send to 7575

آج کے سیاستدانوں کیلئے تاریخ کے اسباق

پاکستان کی حکمران اور اپوزیشن جماعتیں انتہائی متصادم سوچ کے ساتھ اپنے تنگ نظری کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ اگر پی ڈی ایم‘ مسلم لیگ (ن) اپوزیشن کو سیاسی عمل سے باہر کرنے کے لیے ریاست کے جبر کے آلات پر بہت زیادہ انحصار کر رہے ہیں‘ تو واحد اپوزیشن جماعت‘ پی ٹی آئی‘ حکومت کے حملے کا مقابلہ کرنے اور جوابی دباؤ بنانے کیلئے عوامی حمایت اور سٹریٹ پاور پر انحصار کر رہی ہے۔ اس پر وفاقی حکمران اتحاد خاص طور پر مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے درمیان اقتدار کی کشمکش نے انتہائی خطرناک سیاسی صورتحال پیدا کر دی ہے‘ جسے اگر سنبھالا نہ گیا تو جمہوریت اور آئین کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ رواں ماہ کے شروع میں لاہور اور اسلام آباد میں نیم فوجی دستوں کی حمایت یافتہ پولیس اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کے درمیان پرتشدد جھڑپوں نے صورتحال کو مزید خراب کر دیا۔ یہ جھڑپیں پی ٹی آئی کے کارکنوں کی بڑی تعداد کی گرفتاری کے بعد ہو رہی ہیں۔ عمران خان ایک سے زیادہ مرتبہ حکومتی اداروں پر اپنے قتل کے منصوبے بنانے کا الزام لگا چکے ہیں‘ حالانکہ انہوں نے اس حوالے سے کوئی ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کیا؛ تاہم کوئی اس حقیقت سے غافل نہیں رہ سکتا کہ وہ نومبر 2022ء میں ایک قاتلانہ حملے میں بال بال بچے تھے۔
الیکشن کمیشن کا 22مارچ کا بیان اس محاذ آرائی پر مستزاد کہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات چھ ماہ کیلئے ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے‘ جبکہ خیبرپختونخوا صوبائی اسمبلی کے انتخابات کی ابھی تک کوئی تاریخ ہی طے نہیں ہوئی۔ انتخابات کے التوا نے ایک نیا آئینی بحران پیدا کر دیا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون پی ڈی ایم حکومت یا پی ٹی آئی کی حمایت کرتا ہے؛ البتہ پاکستان میں تیزی سے بڑھتے ہوئے سیاسی اور معاشی بحران کو نظر انداز کرنا مشکل ہے جس نے بڑی اپوزیشن جماعت‘ پی ٹی آئی سے زیادہ وفاقی حکومت کو نقصان پہنچایا ہے۔ یہ بحران ماضی میں پاکستان کو درپیش بحرانوں سے زیادہ شدید ہے۔ یہ بتانے کیلئے کافی تاریخی ریکارڈ موجود ہے کہ پاکستان کو ماضی میں کئی ملکی اور خارجہ پالیسی کے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ماضی میں جب بھی سیاسی قائدین جمہوری جذبے سے عاری ہو کر سیاسی لڑائیوں میں الجھ کر آئین اور قانون کی حکمرانی کی بے توقیری کی تو وہ غیر منتخب ریاستی اداروں کے سامنے سیاسی اقدام کی ہمت کھو بیٹھے۔ اگر اپنے سیاسی اختلافات اور سیاسی لڑائیوں کے باوجود انہوں نے اپنے رویے میں اعتدال پیدا کیا اور قومی اہمیت کے معاملات پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے پر اتفاق کیا تو اس سے ریاستی نظام میں ان کا کردار مضبوط ہوا۔
آج کی سیاسی جماعتوں اور قائدین کو پاکستان کی سیاسی تاریخ کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ بے لگام محاذ آرائی کے خطرناک نتائج کو سمجھ سکیں۔ 1953-58ء کے عرصے میں پاکستانی سیاست بتدریج بکھرتی اور بے ترتیب ہوتی گئی۔ ان برسوں کے پارلیمانی نظام کو کمزور اور غیرمنظم سیاسی جماعتوں نے اقتدار کے لیے ایک منہ زور جدوجہد میں تبدیل کیا‘ سیاسی رہنماؤں کو تقسیم کیا جنہوں نے کابینہ کے عہدے یا کسی مادی فائدے کیلئے اپنی وفاداریاں بدل دیں۔ وہ بیوروکریٹک اور فوجی اشرافیہ کے حمایت یافتہ سربراہِ مملکت کی ہیرا پھیری کا شکار ہو گئے۔ سیاست ماورائے پارلیمانی عوامل سے زیادہ متاثر ہوئی اور اسمبلیاں اپنا ساکھ کھو بیٹھیں۔ ریاستی اختیار کو اکثر حکمران جماعت اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتی تھی۔ ستمبر 1958ء میں مشرقی پاکستان اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر ایوان کے اندر ارکان کے درمیان ہونے والی لڑائی میں زخمی ہونے کی وجہ سے انتقال کر گئے۔ امن و امان کی بحالی کے لیے پولیس کو ایوان میں طلب کیا گیا۔ وحشیانہ اور غیراصولی سیاست‘ اسمبلیوں کی غیرمتعلقہ اور انتخابات سے گریز کے پاکستان میں سویلین فوقیت اور جمہوریت کے لیے نقصان دہ نتائج مرتب ہوئے۔ اسی طرح‘ 1969ء اور 1977ء میں سیاسی رہنماؤں کی طرف سے سیاسی ایجنڈوں کی بے لگام اورکم فہمی نے جمہوری سیاسی نظام کو تباہ کر دیا۔ جمہوریت اور معاشی انصاف کے لیے ان کی سیاسی جدوجہد کا نتیجہ ان کے مقاصد کے حصول کی صورت میں برآمدنہیں ہوا‘ اور اس سے جمہوری اور آئینی حکمرانی میں تعطل پیدا ہوا؛ تاہم اس کی ایک اچھی مثال موجود ہے کہ کس طرح سیاسی رہنماؤں کی جانب سے اختیار کردہ تحمل نے آئین اور جمہوریت کو مضبوط کیا۔ یہ 1972-73ء میں ہوا‘ جب قومی اسمبلی نے 1973ء کا آئین بنانے کا آغاز کیا۔ 1972-73ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں حکمران پیپلز پارٹی‘ اور حزبِ اختلاف‘ خاص طور پر خان عبدالولی خان کی زیر قیادت نیشنل عوامی پارٹی (NAP) اور جمعیت علمائے اسلام‘ جس کی قیادت مولانا مفتی محمود کر رہے تھے‘ کے درمیان سیاسی تنازع موجود تھا اور دونوں جماعتوں نے سیاسی میدان میں ایک دوسرے کے خلاف الزامات اور جوابی الزامات کا تبادلہ کیا۔ آئین سازی کے دور میں کئی منفی ڈویلپمنٹس بھی ہوئیں۔ ان پریشان کن واقعات میں دسمبر 1972ء میں بلوچستان حکومت کے جاموٹوں اور زہریوں کے ساتھ الگ الگ تنازعات تھے۔ اس طرح نومبر دسمبر 1972ء میں پیٹ فیڈر کی ڈویلپمنٹس جبکہ ایک طرف بلوچستان اور سرحد حکومتوں کے درمیان اختلاف اور دوسری طرف وفاقی حکومت کے ساتھ تنازعات۔ اس دوران اسلام آباد میں عراقی سفارت خانے میں ہتھیاروں کی دریافت اور فروری 1973ء میں وفاقی حکومت کی طرف سے بلوچستان حکومت اور بلوچستان اور سرحد کے گورنروں کی برطرفی‘ فروری 1973ء میں مفتی محمود کی قیادت میں صوبہ سرحد کی حکومت کا استعفیٰ‘ جبکہ سب سے افسوسناک پیشرفت 23مارچ 1973ء کو راولپنڈی میں NAPاور متحدہ محاذ کی طرف سے منعقدہ عوامی ریلی پر مسلح حملہ تھا۔ NAP کے متعدد کارکن ہلاک اور زخمی ہوئے۔ NAP نے اس حملے کا ذمہ دار پیپلز پارٹی کو ٹھہرایا۔
اتنے پریشان کن واقعات اور ایک دوسرے کے بارے میں منفی بیانات کے باوجود اُس وقت کے سیاسی رہنما حالات کے کنارے سے پیچھے ہٹنے میں کامیاب رہے۔ پی پی پی اور نیپ نے اپنی پالیسی کو معتدل کیا اور قومی اہمیت کے مسائل پر مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی۔ اپنے سیاسی ایجنڈوں اور حکمت عملیوں میں اختلافات کے باوجود تحمل اور سیاسی گنجائش دینے کی پالیسی کی وجہ سے ہی سیاسی رہنما 10اپریل 1973ء کو اتفاقِ رائے سے 1973ء کا آئین بنانے میں کامیاب ہوئے۔ کسی نے آئین کی منظوری کے خلاف ووٹ نہیں دیا۔ اپریل 2023ء میں پاکستان 1973ء کے آئین کی تشکیل کی 50ویں سالگرہ منا رہا ہے۔
2023ء کے سیاستدانوں کو تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے۔ انہیں 1972-73ء کی تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آج پاکستان میں جمہوریت اور آئین کو بچایا جا سکے۔ انہیں اپنے سیاسی طرزِ عمل میں تحمل کا مظاہرہ کرنے اور قومی اہمیت کے معاملات پر ایک دوسرے کو ایڈجسٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ جمہوری عمل اور آئین پرستی اسی صورت میں ہو سکتی ہے جب سیاسی رہنما اقتدارکے حصول کیلئے تلخ جدوجہد کو اعتدال میں لائیں اور قومی اہمیت کے مسائل کا باہمی اتفاقِ رائے سے حل تلاش کریں۔ انہیں دوسروں کو مخاطب کرنے کے لیے مخالفانہ اور خام سیاسی محاورے ترک کرنے کی ضرورت ہے۔ اپوزیشن کے خلاف ریاستی مشینری کے استعمال سے سیاسی معاملات طے نہیں کیے جا سکتے۔ سیاسی حل کیلئے باہمی احترام‘ مشاورتی عمل اور سیاسی حریف کو سیاسی عمل سے باہر کرنے کی پالیسی سے پیچھے ہٹنے پر مبنی نقطۂ نظر کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان کو سیاست میں مہذب اندازِ فکر کی ضرورت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں