یہ امر باعثِ حیرت نہیں ہے کہ پی ڈی ایم اور شہباز شریف کی سربراہی میں وفاقی حکومت سپریم کورٹ کے بینچ کے اس فیصلے پر اپنے تحفظات رکھتی ہے جس میں 14مئی کو پنجاب کے صوبائی انتخابات کرانے کا حکم دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے الیکشن کرانے اور الیکشن کمیشن کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت کے الیکشن ملتوی کرنے کے تمام تر سیاسی استدلا ل کو مسترد کرنے کے لیے آئینی اور قانونی اپروچ کا سہارا لیا ہے ۔ الیکشن کمیشن نے سپریم کور ٹ کی ہدایا ت کے مطابق پنجاب میں صوبائی انتخابات کرانے کے پلان کا اعلان کر دیا ہے؛ تاہم حکمران پی ڈ ی ایم اتحاد اور وفاقی حکومت اس مسئلے پر تاخیری حربے استعمال کررہے ہیں حتیٰ کہ فیصلے کے اعلان سے پہلے ہی پی ڈی ایم کی قیادت اور وفاقی حکومت نے یہ دعوے کرنے شروع کردیے تھے کہ یہ الیکشن اکتوبر سے پہلے نہیں کرائے جا سکتے اور انہوں نے سپریم کورٹ کے بینچ اور چیف جسٹس آ ف پاکستان کے کے بینچ کی تشکیل اور سو موٹو لینے کے اختیارات پر اعتراضات کرنا شروع کر دیے ۔ اپنی مرضی کے خلاف آنے والے ممکنہ فیصلے کو روکنے کے لیے ان دلائل کو سپریم کور ٹ کے اندر او ر باہر تواتر سے دہرا یا گیا ۔ حالیہ فیصلے میں سو موٹو اختیارات کے استعمال اور یکم مارچ کوفیصلہ دینے والے ججز کی تعداد کا قضیہ طے کر دیا گیا ہے جس میں نوے روز میں الیکشن کرانے کے لیے کہا گیا تھا؛تاہم وفاقی حکومت اپنا یہ دعویٰ دہرانے پر تلی ہوئی ہے جسے سپریم کورٹ نے مسترد کردیا ہے ۔
پی ڈی ایم میں شامل سیاسی جماعتیں اور وفاقی حکومت چیف جسٹس آف پاکستان او ربعض ججز کو تنقید کا نشانہ بنانے کے لیے قومی اسمبلی کا پلیٹ فارم استعما ل کر رہی ہیں۔سیاسی جماعتیں اپنے تحفظات کا اظہا ر یا فیصلے کو مسترد بھی کر سکتی ہیں مگر وزیر اعظم کی قیادت میں وفاقی حکومت کے پاس اس فیصلے کے نفاذ کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ وفاقی کابینہ کا کوئی فیصلہ یا قومی اسمبلی یا پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد نہیں کرسکتا ۔توقع کی جاتی ہے کہ سینئر بیوروکریسی خود کو وفاقی حکومت کے اس فیصلے کی عدم تعمیل کے مؤقف سے دو ر رکھے گی ۔الیکشن کمیشن نے بھی خود کو وفاقی حکومت کے ا س فیصلے سے دور کر لیا ہے ۔ سینئر بیوروکریسی بھی اسی طرح کی پالیسی اپنائے گی ۔سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ سے بھی یہ توقع نہیں ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی مزاحمت کی حوصلہ افرائی نہیں کرے گی ۔وفاقی حکومت کے لیے امید کی واحد کرن پارلیمنٹ کا پاس کردہ وہ بل ہے جس میں چیف جسٹس کے سوموٹو اختیار اور بینچز کی تشکیل کے اختیارات پر قدغن لگائی گئی ہے ۔اپریل کے تیسرے ہفتے تک جب یہ بل قانون کی شکل اختیا رکر لے گا تو وفاقی حکومت کو سپریم کورٹ کے تین ججز پر مشتمل اس بینچ کے حالیہ فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا حق مل جائے گا؛تاہم جب کوئی زیر التوا بل قانون بن جاتا ہے تو اس کے سپریم کور ٹ میں چیلنج ہونے کا امکان بھی پیدا ہو جاتاہے کہ کیا ان ایشوز کو عمومی قا نون سازی کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے یا اس کے لیے آئین میں ترمیم کی ضرورت ہے ۔
جب تک وفاقی حکومت کسی آئینی اورقانونی آپشن کا استعمال نہیں کرتی سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد سے انکار نہ صر ف وزیر اعظم کے لیے‘ جو وفاقی حکومت کا سربراہ ہوتا ہے‘ بلکہ موجودہ سیاسی اور سویلین انتظامیہ کے لیے بھی سنگین مضمرات کا حامل ہوگا۔اگر وفاق کی سطح پر کوئی اتحادی پارٹنر وفاقی حکومت کی سپریم کورٹ کے ساتھ محاذ آرائی کی پالیسی سے خود کو الگ رکھنے کا فیصلہ کرلیتا ہے توبھی مسائل میں اضافہ ہوجائے گا۔فیصلے کی تعمیل کا پہلا ٹیسٹ دس اپریل کو ہوگا کیونکہ فیصلے میں وفاقی حکومت کو یہ ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ اس تاریخ تک الیکشن کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کو مطلوبہ فنڈز فراہم کرے ۔اگر الیکشن کمیشن کو یہ فنڈز نہ منتقل کیے گئے تو اسے یہ معاملہ سپریم کورٹ کو رپور ٹ کرنے کا پابند کیا گیا ہے ۔
ریاست کے دو شعبوں‘ ایگزیکٹو اور اعلیٰ عدلیہ کے مابین تصادم کے امکانات ایک خطرناک پیش رفت ہے کیونکہ اس سے نہ صرف یہ کہ متعلقہ شعبوں کو نقصان پہنچنے کا احتما ل ہے بلکہ یہ امر ملک میں سیاسی تسلسل اور استحکام کے لیے بھی ایک سنگین خطرہ ثابت ہوگی۔اداروں کے باہمی تصادم سے ہر ادارے کے اندر انتشار میں اضافہ ہوگاجو نہ صرف ہمارے سیاسی نظام کی اپنے فرائض کی مؤثر ادائیگی کی اجتماعی استعداد پر منفی اثرات مرتب کرے گا بلکہ یہ ریاست اور عوام کے بہترین مفادات کا تحفظ بھی نہیں کر سکے گا۔یہ تصادم جمہوری نظام ‘آئین پسندی اور قانون کی حکمرانی کے لیے بھی مشکلات کو جنم دے گا۔اگر اس کشیدگی میں کمی نہ کی گئی تویہ جمہوری سیاسی نظام کے انہدام کا سبب بھی بن سکتا ہے اور اس طرح آمرانہ سوچ اور انتشار میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔
یہ محاذ آرائی کسی بھی سیاسی کھلاڑی ‘ریاستی ادارے یا سیاسی طور پر متحرک حلقوں کے مفاد میں نہیں۔وفاقی حکومت(پی ڈی ایم پارٹیز) کو اعلیٰ عدلیہ کے حوالے سے ناشائستہ اورغیر مصالحانہ بیانات دینے سے گریز کرنا چاہئے۔ وفاقی حکومت او راعلیٰ عدلیہ کے درمیان کشیدہ صورت حال کو ختم کرنے کی ضرورت ہے ‘جہاں تک حالیہ فیصلے کاتعلق ہے آئینی طورپر اعلیٰ عدلیہ کو فیڈرل ایگزیکٹو پر ایک برتری حاصل ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلوں کی تعمیل کی حد تک سخت گیر بیا نات وفاقی حکومت کو اس کی آئینی او رقانونی ذمہ داریوں سے مبرا نہیں کرسکتے ۔ 1988-2022 ء کے دوران ہم دیکھ چکے ہیں کہ سیاسی جماعتیں اپنے جماعتی مفادات کے پیش نظر اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں پر اپنے اختلافی نقطہ نظر کا اظہار کرتی رہتی ہیں۔جب اعلیٰ عدلیہ نے نواز شریف کو طبی علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی تھی تو مسلم لیگ (ن) نے اسے سرا ہا تھا۔اسی طرح اپریل 2022ء کے پہلے ہفتے میں صدر پاکستان کی طرف سے قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کے فیصلے کو سپریم کورٹ نے منسوخ کردیا تھا تو بھی (ن) لیگ بہت خوش ہوئی تھی؛ تاہم اب چونکہ وفاقی حکومت کی دو صوبوں میں الیکشن نہ کروانے کی پالیسی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی روشنی میں قابلِ عمل نہیں ہے اس لیے غیر معمولی انداز میں اس فیصلے پر تنقید کا سلسلہ شروع ہو گئی ہے جس کے بعد وفاقی حکومت اور اعلیٰ عدلیہ کے مابین تصادم کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔
محاذ آرائی کی اس فضا نے وفاقی حکومت کو اس حد تک مفلوج کر رکھا ہے کہ اس کے پاس جاری معاشی بحران خاص طورپر افراط زر اور مہنگائی جیسے عفریت سے نبردآزما ہونے کے لیے وقت ہے نہ وسائل؛ چنانچہ عام آدمی مسائل کی چکی میں بری طرح پس رہا ہے۔اگر اس دو طرح کی محاذ آرائی کی شدت میں کمی نہ کی گئی تو پاکستان جمہوریت اور آئین پسندی ‘داخلی استحکام اور سیاسی ہم آہنگی کے فقدان سے نمٹنے میں کا میاب نہیں ہوسکے گا؛چنانچہ وفاقی حکومت کے لیے زبوں حالی کی شکار معیشت کو سنبھالا دینا مشکل ہو جائے گا۔اس کشیدگی کی وجہ سے پاکستان عالمی سطح پر اپنے سفارتی مؤقف اور مرتبے کا تحفظ بھی نہیں کر سکے گا۔ اس لیے دانشمندی کا تقاضا ہے کہ وفاقی حکومت اور بڑ ی اپوزیشن پارٹی کو الیکشن کے مسئلے کے لیے ایک باہمی قابلِ قبول حل کے لیے کوشش کرنی چاہئے ۔جمہوریت کی دعویدار سیاسی جماعتیں الیکشن کے ذکر سے دور کیوں بھاگتی ہیں؟الیکشن کے انعقا د میں جتنی تاخیر ہوگی حکمران اتحاد پی ڈی ایم کے لیے کسی قابل قبول حل تک پہنچنا اتنا ہی مشکل ہوتا جائے گا۔جاری بحران کودوستانہ اور آئینی طورپر حل کرنے کے لیے وقت تیز ی سے ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے ۔