20 جون کوپاکستان کی وفاقی حکومت نے 2035ء تک پھیلے ہوئے ایک پُر عزم اقتصادی ترقیاتی پروگرام کا اعلان کیا۔ جس میں معیشت کے تمام شعبوں میں ایک زبردست پیش رفت کی پیش گوئی کی گئی ہے‘ اور زرمبادلہ کمانے کے لیے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری اور اشیا اور خدمات کی برآمدات پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔جس سے ادائیگی کا توازن پاکستان کے حق میں ہو جائے گا۔ حکومت اگلے پانچ سالوں میں 15 سے 20 لاکھ لوگوں کے لیے براہ راست اور 75 ہزار لوگوں کے لیے بالواسطہ ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ ایک غیر معمولی طور پر پُر عزم ہدف ہے کیونکہ اس بات کا شاید ہی کوئی ثبوت دستیاب ہو کہ پاکستان کی معیشت اگلے پانچ سالوں میں اتنی بڑی تعداد میں ملازمتیں پیدا کرے گی۔ عمران خان نے اپنے دور اقتدار میں پانچ سالوں میں ایک کروڑ نئی نوکریاں پیدا کرنے کی بات کی تھی۔ یہ وعدہ پورا نہ ہو سکا کیونکہ یہ ایک غیر حقیقی مقصد تھا۔ اب PMLN؍ PDM حکومت ایک بڑا وعدہ کر رہی ہے جس کے پورا ہونے کا امکان بظاہر نظرنہیں آتا۔ پاکستان کی معیشت پاکستانی ریاست اور معاشرے کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ اس مسئلہ کی تین جہتیں ہیں۔ سب سے پہلے‘ پاکستان کی معیشت بیرونی ذرائع جیسا کہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں‘ انفرادی ممالک اور بین الاقوامی بینکوں کے قرضوں پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے۔ ایک اور اہم بیرونی ذریعہ‘ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات ہیں۔ وہ پاکستان میں اپنے خاندانوں کو پیسے بھیجتے ہیں۔ ملک کے مقامی ذرائع آمدنی کمزور اور ناکافی ہیں۔ بیرونی ذرائع پر معیشت کا زیادہ انحصار ریاست کی خود مختاری کو نقصان پہنچاتا ہے اور پاکستان کے معاشی اور سیاسی چوائسز کو محدود کرتا ہے۔ پاکستان پرانے قرضوں کی ادائیگی کے لیے باقاعدگی سے نئے قرضے حاصل کرتا ہے یا وہ قرضوں کی ادائیگی کو ملتوی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ پاکستانی سفارت کاری کا خاطر خواہ حصہ چین‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے دوست ممالک سے فنڈنگ حاصل کرنے پر مرکوز ہے۔ اب‘ توقع ہے کہ پاکستان غیر ملکی کرنسی میں سالانہ کرایہ کے عوض کچھ غیر منقولہ اثاثوں اور تنصیبات کے انتظام طویل مدت کے لیے غیر ملکی آپریٹرز کے حوالے کر دے گا۔دوسرا‘ مہنگائی اور قیمتوں میں اضافے نے عام آدمی کو اس حد تک متاثر کیا ہے کہ غربت اور پسماندگی میں اضافہ ہوا ہے۔ اگر پاکستان میں عطیہ دینے والے اور فلاحی کام کرنے والے نہ ہوتے‘ جس میں مفت کھانے کی تقسیم بھی شامل ہوتی تو پاکستان میں لوگ بھوک سے مرتے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے عنوان سے حکومتی فلاحی پروگرام بھی آبادی کے غریب ترین طبقے کو کچھ معاشی ریلیف فراہم کر رہا ہے۔ مگرفلاحی کاموں سے ملکی معیشت کو بحال نہیں کیا جا سکتا؛چنانچہ زراعت اور صنعت کی بہتری کے لیے کچھ ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ بے روزگار لوگوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں۔
تیسرا‘ پاکستان کی 50 فیصد آبادی 20 سے 35 سال کی عمر کے درمیان ہے۔ ان نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اپنی پہلی ملازمت کی تلاش میں ہے یا بہتر مواقع کے لیے اپنی ملازمتیں بدل رہی ہے۔ ان میں سے کچھ اپنے کاروباری کیریئر کے ابتدائی مرحلے میں ہیں۔ پاکستانی ریاست نوجوانوں کو معیاری تعلیم اور باعزت روزگار کے مواقع فراہم کر کے انہیں ایڈجسٹ کرنے میں مشکل محسوس کر رہی ہے۔ یہ سب کچھ نوجوانوں کو ناراض کرتا ہے اور ریاست کے ساتھ ان کا جذباتی لگاؤ کمزور ہو تا ہے۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ یہ نوجوان پاکستان سے باہر اپنی روزی کمانے کی امید کے ساتھ قانونی یا غیر قانونی طریقوں سے بڑی تعداد میں بیرون ملک جارہے ہیں۔ یہ پاکستان میں اپنے مستقبل کے بارے میں ان کی سوچ میں مایوسی کی کیفیت کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ مسائل پاکستان کی معیشت اور سیاست کے لیے اتنا خطرہ بن رہے ہیں کہ ہم معیشت کو بچانے کے لیے 2035ء تک انتظار نہیں کر سکتے۔ یہ بات قابل ِفہم ہے کہ بہت سے اقتصادی شعبوں کو طویل مدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے؛ تاہم مہنگائی‘ غربت اور پسماندگی کے مسائل اس قدر گمبھیر ہیں کہ ہمیں ان مسائل کو حل کرنے کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے تاکہ نوجوان اور ادھیڑ عمر کے لوگوں میں بیگانگی اور ناامیدی کا احساس کم ہو‘ اگر اسے ختم نہ کیا جاسکے۔
فوری توجہ کا ایک اور شعبہ کھانے پینے کی اشیااور روزمرہ استعمال کی اشیاکی قیمتوں کا انتظام ہے۔ یہ درمیانی افراد کے بڑے کاروباری اور درمیانے درجے کے تجارتی اشرافیہ کی آزادی کو کنٹرول کرنے کا مطالبہ کرتا ہے جو بازاروں اور روز مرہ استعمال کی اشیااور کھانے پینے کی اشیاکی قیمتوں میں ہیرا پھیری کرتے ہیں۔ فی الحال‘ ان پر شاید ہی کوئی چیک ہے اور وہ بازاروں میں سامان کی فراہمی میں ہیرا پھیری کرتے ہیں اور اشیائے خورونوش اور ضروری اشیاکی قیمتوں میں اضافہ کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ دکاندار اور خوردہ فروش بھی اپن مرضی کی قیمتیں وصول کرنے اور صارفین کا استحصال کرنے میں آزاد ہیں۔ اگر حکومت نئے مالی سال کے پہلے چھ ماہ میں ان مسائل سے نمٹنے کو ترجیح دیتی ہے تو تجارتی اشرافیہ کے لیے قیمتوں میں اضافہ کرنا مشکل ہو گا‘اور اس سے عام لوگوں کو ایک بڑا معاشی ریلیف ملے گا اور حکومت اور ریاست کے لیے عوام کی جانب سے خیر سگالی کا جذبہ سامنے آئے گا۔اس کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ زراعت اور متعلقہ صنعت پر خصوصی توجہ دی جائے۔ اگر حکومت معیاری بیج اور دیگر زرعی اشیاکی مناسب قیمتوں پر دستیابی کو یقینی بنائے اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کی حوصلہ افزائی کرے تو زراعت کو فروغ اور پاکستان کی معیشت کو وسعت مل سکتی ہے ۔ اعلیٰ پیداواری صلاحیت کی حامل زراعت غربت کے خاتمے اور پسماندگی کی یقینی ضمانت ہے۔ اس سے ہنر مند اور غیر ہنر مند افراد کیلئے نئی ملازمتیں بھی پیدا ہوں گی۔ جب پاکستان ان فوری مسائل کو حل کرنے میں اہم پیش رفت حاصل کرے گا تو حکومت طویل المدتی معاشی منصوبے شروع کرنے کی بہتر پوزیشن میں ہو گی‘ جن کے فوائد چند سال بعد دستیاب ہوں گے۔ حکومت کو ماڈرنائزیشن‘ بہتر منصوبہ بندی اور اقتصادی امور کے انتظام کے ذریعے معیشت کے تمام شعبوں کی بہتری کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ کامیاب طویل المدتی منصوبہ بندی سے پاکستان کا بیرونی اقتصادی وسائل پر انحصار کم ہو جائے گا۔
تاہم‘ پاکستان کی اقتصادی بحالی کے لیے سیاست کی نوعیت اور سمت میں تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ اگر موجودہ سیاسی محاذ آرائی اور تقسیم برقرار رہی اور سیاسی رہنما اپنے وسائل اور وقت ایک دوسرے کو کمزور کرنے میں صرف کرتے رہے تو معیشت کے امکانات بہتر نہیں ہوں گے۔ اگر حکمران جماعت اپنے سیاسی حریفوں کو کمزور کرنے کے لیے ریاستی وسائل اور قوانین کا استعمال کرتی ہے تو سیاسی ہم آہنگی اور معاشرتی امن کو حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ محاذ آرائی اور ہراساں کرنے کی سیاست اقتصادی اور سماجی ترقی کے لیے طویل المدتی منصوبوں کو ناممکن بنا دیتی ہے۔پاکستان کی موجودہ سیاست معاشی بحالی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ پاکستان کو سیاسی رواداری اور جمہوری سیاست کی ضرورت ہے اور تمام لوگوں کو بنیادی حقوق‘ قانون کی حکمرانی اور سماجی انصاف کا یکساں تحفظ حاصل ہونا چاہیے۔ طویل مدتی اقتصادی منصوبہ بندی کو انتہائی پولرائزڈ اور تصادم کے سیاسی اور سماجی تناظر میں نہیں چلایا جا سکتا۔ قومی اقتصادی تقاضوں اور انسانی اور سماجی بہبود کی تقاضوں کو پاکستانی سیاست کی تشکیل کرنی چاہیے۔ اگر پاکستان کا سیاسی تناظر اور معاشرتی ماحول بکھرا اور تنگ نظر رہے تو معیشت اپنی صلاحیتوں کو پروان نہیں چڑھا سکتی‘ چاہے معاشی منصوبے کتنے ہی پُر کشش کیوں نہ ہوں۔