صدرِ مملکت آصف علی زرداری کی جانب سے عام انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد ا نتخابی عمل کے مختلف مراحل جس سکون‘ اطمینان اور خوش اسلوبی سے طے ہو رہے ہیں‘ اس سے جمہوریت کے ساتھ پاکستانی عوام کی وابستگی ایک دفعہ پھر ثابت ہو جاتی ہے۔ اگرچہ ملک ایک سیاسی‘ جمہوری اور آئینی عمل کے ذریعے وجود میں آیا تھا‘ لیکن گزشتہ 65 سالہ تاریخ کے دوران میں چند خود غرض‘ کوتاہ اندیش اور مہم جُو عناصر کی وجہ سے جمہوریت کو اپنا سفر ترک کرنا پڑا۔ آئین کے تحت منتخب جمہوری حکومت کے پانچ سال مکمل ہونے کے بعد جمہوریت ایک دفعہ پھر اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ مرکز میں جناب جسٹس (ریٹائرڈ) میر ہزار خاں کھوسو قائم مقام وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھا چکے ہیں۔ اگرچہ آئین میں درج طریقے کے مطابق پہلے دو مرحلوں یعنی وزیراعظم اور قائدِ حزبِ اختلاف کے درمیان مشاورت اور 8 رکنی پارلیمانی کمیٹی میں بحث کے دوران ایک متفقہ امیدوار کا فیصلہ نہ ہو سکا۔ تاہم الیکشن کمیشن کے فیصلے کو حکومت اور حزبِ اختلاف نے جس خندہ پیشانی سے قبول کیا ہے‘ وہ ہمارے سیاستدانوں کی بالغ نظری اور جمہوریت سے لگائو کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مرکز کے بعد صوبوں میں بھی آئین کے مطابق قائم مقام وزرائے اعلیٰ کا انتخاب ہو چکا ہے۔ الیکشن کمیشن پہلے ہی انتخابی شیڈول کا اعلان کر چکا ہے‘ جس کے تحت امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی وصولی کا عمل جاری ہے۔ ساتھ ساتھ ان کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال بھی ہو رہی ہے۔ نامزدگیوں کے قبول یا مسترد ہونے کے خلاف اپیلوں کا فیصلہ ہونے اور دیگر مراحل طے ہونے کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے 18 اپریل کو امیدواروں کی حتمی فہرست جاری کردی جائے گی۔ تقریباً 22 دن کی انتخابی مہم کے بعد 11 مئی کو قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کے لیے ووٹ ڈالے جائیں گے۔ اس طرح پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک منتخب جمہوری حکومت اپنی آئینی مدت کے پانچ سال مکمل کرنے کے بعد نئی حکومت کو اقتدار سونپ دے گی۔ مئی میں ہونے والے انتخابات پاکستان کا خالصتاً اندرونی معاملہ ہیں لیکن مخصوص جغرافیائی محلِ وقوع اور خطّے میں تیزی سے بدلتی ہوئی جیو سٹراٹیجک صورتِ حال کے پیشِ نظر دنیا کی نظریں بھی ان انتخابات پر لگی ہوئی ہیں۔ آئندہ برس یعنی 2014ء میں نہ صرف افغانستان سے امریکی افواج کا انخلاء مکمل ہونے والا ہے بلکہ افغانستان کے ساتھ ہمارے دوسرے ہمسایہ ملک یعنی بھارت میں بھی انتخابات ہونے والے ہیں۔ اس لیے جن عالمی حلقوں کو جنوبی ایشیا میں امن اور سلامتی میں دلچسپی ہے ان کے لیے پاکستانی انتخابات اہم حیثیت کے حامل ہیں کیونکہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء سے پیدا ہونے والی صورت حال میں اور بھارت کے ساتھ روز افزوں کشیدگی کے تناظر میں پاکستان میں آئندہ منتخب ہونے والی حکومت کے سامنے بڑے اہم چیلنج ہوں گے۔ افغانستان میں آئندہ برس صدارتی انتخابات ہوں گے۔ صدر حامد کرزئی اعلان کر چکے ہیں کہ وہ خود ان انتخابات میں صدارتی امیدوار نہیں ہوں گے۔ ان کے اس اعلان نے افغانستان میں ایک غیر یقینی صورت حال پیدا کردی ہے۔ اس طرح پاکستانی انتخابات کے نتائج کا بھی بے تابی سے انتظار کیا جا رہا ہے۔ کچھ امریکی حلقوں کا یہ کہنا ہے کہ نہ صرف افغانستان میں بلکہ پورے جنوبی ایشیائی خطّے میں امن اور سلامتی کا انحصارپاکستان اور افغانستان میں ہونے والے انتخابات کے نتائج پر ہے۔ خود پاکستانی عوام کی فلاح و بہبود‘ ترقی‘ استحکام‘ امن اور سلامتی کے لیے مئی میں منعقد ہونے والے انتخابات خصوصی اہمیت رکھتے ہیں۔ صاف اور شفاف انتخابات اور ان کے نتیجے میں پُرامن انتقالِ اقتدار سے ملک میں جمہوریت کے مستقبل کے بارے میں پائے جانے والے شکوک و شبہات ختم ہو جائیں گے۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر جمہوری طریقے سے منتخب نمائندہ حکومتوں کے قیام سے سیاسی استحکام پروان چڑھے گا۔ سیاسی استحکام سے معیشت کی بنیادیں مضبوط ہوں گی۔ اندرون اور بیرون ملک کے سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ پیداوار‘ تجارت اور سرمایہ کاری میں اضافے سے حکومت کو نئے وسائل میسر ہوں گے جنہیں بجلی‘ گیس‘ پانی‘ انفراسٹرکچر اور دیگر اہم شعبوں میں ترقی کے لیے بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ اس سے ملک میں بیروزگاری بھی کم ہوگی اور مہنگائی کا گراف بھی نیچے آئے گا۔ پاکستان میں انتخابات ایک ایسے موقع پر منعقد ہو رہے ہیں جب ملک گھمبیر اندرونی اور بیرونی مسائل سے دوچار ہے۔ اندرونی طور پر دہشت گردی‘ فرقہ وارانہ فسادات‘ کراچی اور بلوچستان میں امن و امان‘ توانائی کا بحران اور مہنگائی میں اضافہ شدید مسائل ہیں۔ کالعدم دہشت گرد تنظیم‘ تحریکِ طالبان پاکستان نے تو انتخابی جلسے اور جلوسوں کو خودکش حملوں کا نشانہ بنانے کی دھمکی دے رکھی ہے۔ بیرونی محاذ پر بھارت کا جارحانہ رویّہ اور افغانستان میں طالبان کے ساتھ مذاکرات میں پیش رفت میں ناکامی‘ پاکستان کے لیے سخت تشویش کا باعث ہیں۔ لیکن جس طرح ہر طرف سے حملوں‘ افواہوں اور سازشوں کے باوجود جمہوریت نے اپنا سفر جاری رکھا ہے اور ملک میں جمہوری تسلسل کی ایک مضبوط بنیاد قائم ہوئی ہے، اسی طرح آنے والی حکومت بھی ملک کو درپیش اندرونی اور بیرونی مسائل پر قابو پانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ کیونکہ یہ ایک جمہوری اور عوام کی نمائندہ حکومت ہوگی اور اس کی بنیاد پر اعتماد کے ساتھ ہر قدم اٹھائے گی۔ پاکستان جس مخدوش اندرونی اور بیرونی صورتِ حال سے دوچار ہے اُس سے صرف ایک جمہوری طریقے سے منتخب نمائندہ حکومت ہی نبرد آزما ہو سکتی ہے کیونکہ ایسی حکومت کو عوام کی مکمل تائید حاصل ہوگی۔ نئے انتخابات کے ذریعے ایک مستحکم حکومت کا قیام نہ صرف پاکستان اور پاکستانی عوام کے لیے بہتر ہوگا بلکہ یہ علاقائی امن‘ سلامتی اور خوشحالی کے لیے بھی ایک اچھا شگون ہوگا۔ امید کی جا سکتی ہے کہ نئی حکومت افغانستان کی صورتِ حال میں پاکستان کے مثبت کردار کو زیادہ موثر طریقے سے ادا کرے گی۔ اس طرح بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے امکانات بھی بڑھ جائیں گے۔ بھارت اور پاکستان کے تعلقات کی سابقہ تاریخ کے جائزے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں کی سویلین جمہوری حکومتوں کے دور میں تعلقات نہ صرف بہتر ہوئے ہیں بلکہ لیاقت‘ نہرو پیکٹ اور شملہ معاہدہ جیسے اقدامات بھی جنوبی ایشیاء میں جمہوری دور کی پیداوار ہیں۔ غالباً انہی وجوہات کی بنا پر دنیا کے مختلف حلقوں نے نہ صرف سابقہ جمہوری حکومت کے پانچ برس مکمل ہونے پر خوشی کا اظہار کیا ہے بلکہ صاف ،شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے ذریعے ایک نمائندہ حکومت کے قیام کے منتظر ہیں کیونکہ بین الاقوامی برادری کو یقین ہے کہ ایسی حکومت نہ صرف پاکستانی عوام کی ترقی بلکہ علاقائی اور عالمی امن کے فروغ میں فعال اور مثبت کردار ادا کرے گی۔