عالمی سیاست میں گزشتہ دو دہائیوں سے زائد عرصہ کے دوران میں جو اہم تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ان میں سے ایک جنوبی ایشیا کے معاملات میں عالمی برادری خصوصاً بڑی طاقتوں مثلاً امریکہ ، روس ، چین ، جاپان اور یورپی یونین کی بڑھتی ہوئی دلچسپی ہے۔ اس کی ایک وجہ خود جنوبی ایشیا کی جغرافیائی ، سیاسی اور معاشی اہمیت ہے اور دوسرے خارجہ پالیسی میں ان ملکوں کی نئی ترجیحات ہیں۔خارجہ پالیسی میں ترجیحات کی تبدیلی کا یہ عمل سردجنگ کے خاتمہ کے بعد شروع ہوا تھا۔ اس کے تحت دنیا کے ممالک ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات قائم کرتے وقت تجارت ، سرمایہ کاری اور اقتصادی تعاون میں فروغ کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جن ممالک کے درمیان آج سے بیس پچیس برس قبل محاذ آرائی کی کیفیت تھی آج وہ ایک دوسرے کے اہم تجارتی پارٹنر کے ساتھ ساتھ مشترکہ سرمایہ کاری اور ترقیاتی منصوبوں میں بھی حصہ دار ہیں۔ اس کی سب سے نمایاں مثال ہماری اپنی ہمسائیگی میں چین اور بھارت کے درمیان تجارتی اور اقتصادی تعلقات ہیں جن میں گزشتہ دس برسوں کے دوران کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔حال ہی میں بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے چین کا دورہ کیا۔ اس موقع پر دونوں ملکوں نے باہمی تعاون کو مزید فروغ دینے کے لیے ایک درجن کے قریب نئے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں بھارت واحد ملک نہیں جس کے ساتھ چین نے تجارت، سرمایہ کاری اور مشترکہ منصوبوں کے ذریعے دوطرفہ تعلقات کو فروغ دینے پر توجہ مرکوز کی ہے ، بلکہ پاکستان، بنگلہ دیش ، نیپال اور سری لنکا کے ساتھ چین کے تعلقات بھی یہی نقشہ پیش کرتے ہیں۔روس ، جاپان ، یورپی یونین اور امریکہ کی طرح چین بھی جنوبی ایشیا کی تنظیم برائے علاقائی تعاون ’’ سارک‘‘ کی کانفرنسوں میں آبزرور کی حیثیت سے شرکت کرتا ہے۔ اس سے جنوبی ایشیائی ممالک کے ساتھ روابط بڑھانے میں چین کی دلچسپی اور ترجیحات کا پتا چلتا ہے۔ جنوبی ایشیا کے ساتھ اقتصادی روابط کے فروغ میں دلچسپی کا اظہار کرنے والا چین واحد ملک نہیں ہے۔ ترقی یافتہ دنیا سے تعلق رکھنے والے ممالک یعنی امریکہ ، برطانیہ ، جرمنی ، اٹلی ، روس اور جاپان بھی جنوبی ایشیا کے ممالک خصوصاً بھارت کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعلقات بڑھانے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ان ممالک کی معیشتیں 2007ء اور 2008ء کے مالی بحران کے بُرے اثرات سے ابھی تک آزاد نہیں ہوسکیں۔اپنی مصنوعات کو بیچنے کے لیے وہ خریدار کی تلاش میں ہیں تاکہ معاشی بحالی کے ذریعے بے روزگاری پر قابو پاسکیں۔ اس کی ایک دلچسپ مثال امریکہ اور بھارت کے درمیان سٹریٹجک پارٹنر شپ کے رشتے کا قیام ہے۔ چند برس پیشتر دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی شعبے میں تجارت کا حجم صفر تھا، آج بھارت امریکہ سے 10بلین ڈالر کا اسلحہ خرید چکا ہے اور مزید خریدنے کے موڈ میں ہے۔ بین الاقوامی ریسرچ اداروں کی رپورٹس کے مطابق 2020ء تک بھارت امریکہ اور چین کے بعد دنیا کی سب سے بڑی کنزیومر مارکیٹ کی حیثیت اختیار کرجائے گا اور اس کے بعد اگلے دس برس یعنی 2030ء تک ان دونوں ملکوں کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کی سب سے بڑی کنزیومر مارکیٹ ہوگا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ دنیا بھر کے تاجروں ، سرمایہ داروں اور کاروباری لوگوں کے لیے بھارت ایک دفعہ پھر سونے کی چڑیا بننے والا ہے۔ اس تمہید کا واحد مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ عالمی برادری اپنے بڑھتے ہوئے اقتصادی اور تجارتی روابط کے ذریعے جنوبی ایشیا کے امن ، سلامتی اور استحکام میں ایک اہم سٹیک ہولڈر بن چکی ہے۔ کیونکہ امن اور سلامتی کے بغیر نہ تو تجارت ہوسکتی ہے اور نہ ہی لگے ہوئے سرمایہ کے تحفظ کی ضمانت دی جاسکتی ہے۔ چنانچہ بین الاقوامی برادری کا جنوبی ایشیا میں تمام تر فوکس امن ، سلامتی اور تعاون کے فروغ پر ہے‘ اس کے لیے جو شرط لازمی سمجھی جاتی ہے وہ خطے کے دو اہم ترین ممالک یعنی پاکستان اور بھارت کے درمیان امن اور تعاون کا قیام ہے۔ اس کے لیے بین الاقوامی برادری نہ صرف دونوں ملکوں پر زور دیتی چلی آرہی ہے بلکہ یہ جانتے ہوئے کہ ان کے درمیان تنازعات جن میں کشمیر سرفہرست ہے، کے حل کے بغیر یہ مقصد حاصل نہیں ہوسکتا۔ ان کے حل میں مدد فراہم کرنے کے لیے پیش کش بھی کرتی چلی آرہی ہے۔ مثلاً واشنگٹن میں پاکستانی وزیراعظم محمد نوازشریف اور امریکی صدر بارک اوباما کے درمیان ہونے والی ملاقات میں صدر اوباما نے پاک بھارت تعلقات کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کرنے کے لیے امریکی خدمات پیش کی ہیں۔ کچھ لوگوں نے‘ جو خارجہ پالیسی کی زبان یعنی ڈپلومیسی کی باریکیوں سے نابلد ہیں‘ اسے امریکہ کی طرف سے کشمیر میں مداخلت سے تعبیر کیا‘ جو کہ سراسر غلط ہے۔ امریکہ نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کبھی بھی مداخلت کی کوشش نہیں کی۔ البتہ دوطرفہ تعلقات کی بہتری کی جانب اٹھنے والے ہر قدم کی نہ صرف حمایت کی ہے بلکہ اس کی رفتار تیز کرنے میں مدد فراہم کرنے کی بھی پیش کش کی ہے۔ اس وقت عالمی برادری کے لیے سب سے زیادہ باعثِ تشویش بات پاک بھارت ڈائیلاگ میں تعطل اور کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر دونوں ممالک میں فائرنگ کا لگاتار تبادلہ ہے جو دن بدن شدید تر ہوتا جارہا ہے۔ اگرچہ اس بات کا امکان کم ہے کہ لائن آف کنٹرول پر جاری یہ جھڑپیں اور فائرنگ کا تبادلہ ایک بڑی پاک بھارت جنگ میں تبدیل ہوجائے گا‘ بین الاقوامی رائے عامہ اس صورت حال کے جلد ازجلد خاتمے کے حق میں ہے تاکہ غیر یقینی اور عدم تحفظ کی فضا ختم ہو۔ اس مقصد کے لیے دونوں ملکوں پر لائن آف کنٹرول پر امن بحال کرنے اور معطل شدہ امن مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے پر زور دیا جارہا ہے۔ دنیا کے متعدد ممالک اور اہم شخصیتیں‘ جنہیں جنوبی ایشیا میں امن اور پاک بھارت دوستی سے لگائو ہے‘ اس کے لیے کوشاں ہیں۔ ان شخصیتوں میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنے ایک حالیہ بیان میں پاک بھارت مذاکرات کو دوبارہ شروع کرانے میں اپنی خدمات کی پیش کش کی ہیں۔ اگر جنوبی ایشیا میں سفارتی سرگرمیوں کی حالیہ تاریخ کا جائزہ لیاجائے تو معلوم ہوگا کہ عالمی برادری نے متعدد مواقع پر خطے کے امن کو اپنی کوششوں سے بچایا ہے۔خصوصاً پاکستان اور بھارت کے درمیان امن مذاکرات کی حمایت کرکے اور اس سلسلے میں دونوں ملکوں کے لیے فوائد کی نشاندہی کرکے جنوبی ایشیا کو پُرامن بنانے کی خاطر گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں۔ مثلاً جب بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کے ذریعے امن اور تعاون کے امکانات روشن ہوئے تو جنوبی ایشیا میں نہ صرف بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا بلکہ بیرونی دنیا نے پاکستان اور بھارت کے ساتھ تجارتی ، اقتصادی ، ثقافتی اور سیاحت کے شعبے میں روابط بڑھانے میں دلچسپی ظاہر کی اور ان شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کے لیے پاکستان اور بھارت کے ساتھ جنوب مشرقی ایشیا ، مشرق بعید ، افریقہ ، مشرق وسطیٰ اور لاطینی امریکہ کے متعدد ملکوں نے معاہدات اور ایم او یوز پر دستخط کیے۔ پاکستان اور بھارت کی مشرقی ممالک سے تعلقات بڑھانے کی پالیسی کی کامیابی کی بنیاد دراصل دونوں ملکوں کے درمیان امن اور تعاون کے روشن امکانات تھے۔ یہ امکانات اس وقت ظاہر ہوئے تھے جب پاکستان اور بھارت نے 2004ء میں کمپوزٹ ڈائیلاگ کا عمل شروع کیا تھا۔ نومبر 2008ء میں ممبئی کے دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے یہ عمل ڈھائی سال تک رکا رہا۔ اسے دوبارہ شروع کرانے میں بھی بین الاقوامی برادری کا بڑا اہم کردار ہے۔ اب بھی‘ جبکہ لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے تبادلہ کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات سخت کشیدگی کا شکار ہیں‘ گزشتہ نو ماہ سے مذاکرات نہیں ہورہے۔ بین الاقوامی برادری ایک دفعہ پھر مستعدی سے قیامِ امن اور مذاکرات کے احیاء کے لیے سرگرم عمل ہے۔ اگرچہ بین الاقوامی برادری صرف اخلاقی دبائو ہی ڈال سکتی ہے لیکن آج کل کی دنیا میں‘ جہاں قوموں کا ایک دوسرے پرانحصار بڑھتا جارہا ہے‘ پاکستان اور بھارت بین الاقوامی برادری کے دبائو کو نظر انداز نہیں کرسکتے اور جلد یا بدیر انہیں عالمی رائے عامہ کی منشاء کے مطابق مذاکرات کی راہ اختیار کرنا پڑے گی۔