پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات صرف ان دونوں ملکوں کے عوام کے لیے ہی اہمیت نہیں رکھتے بلکہ ان میں بین الاقوامی برادری کی دلچسپی بھی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ جب کبھی کوئی بین الاقوامی اجتماع یا کانفرنس منعقد ہوتی ہے اور پاکستان اور بھارت کے رہنمائوں نے اس میں شرکت کرنا ہوتی ہے تو ساری توجہ اس کانفرنس کی دیگر کارروائیوں، فیصلوں یا قراردادوں سے ہٹ کر اس سوال پر مبذول ہوجاتی ہے کہ کیا پاکستانی اور بھارتی رہنمائوںکے درمیان اس موقع پر علیحدہ ملاقات ہوگی یا نہیں اور اگر ملاقات ہوتی ہے تو اس کے نتیجے کا بے چینی سے انتظار کیا جاتا ہے۔ سارک اور شنگھائی تنظیم کی سربراہی کانفرنسوں سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس تک،دنیا بھر کے مبصرین اور تجزیہ نگاروں کی توجہ کا مرکز پاکستان اور بھارت کے رہنما ہوتے ہیں۔ اجلاس سے مہینوں پہلے قیاس آرائیاں شروع ہوجاتی ہیں کہ دونوں رہنمائوں میں ملاقات ہوگی یا نہیں؟ گزشتہ برس جنرل اسمبلی کے اجلاس میں بھارت کی نمائندگی وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے کی تھی۔ پاکستان کی طرف سے وزیراعظم محمد نوازشریف شرکت کے لیے گئے تھے ، دونوں کی ملاقات کے بارے میں کئی ماہ پیشتر قیاس آرائیاں شروع ہوچکی تھیں ، اس کی وجہ یہ تھی کہ گزشتہ سال اگست میں کشمیر کی عارضی سرحد، لائن آف کنٹرول پر پاکستان اور بھارت کی فوجوں کے درمیان خونریز جھڑپوں کی وجہ سے جنوبی ایشیاء کا ماحول کشیدگی سے آلودہ تھا۔ اس کے علاوہ نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی نے انتخابی مہم شروع کر رکھی تھی اور اس کی طرف سے کانگرس کے وزیراعظم من موہن سنگھ پر اپنے پاکستانی ہم منصب سے ملاقات نہ کرنے کے لیے سخت دبائو تھا۔ لیکن ڈاکٹر من موہن سنگھ نے محمد نوازشریف سے ملاقات کی جس کا سب حلقوں میں خیر مقدم کیا گیا۔
اس دفعہ نتیجہ برعکس نکلا۔ ابتدا میں بھارتی ذرائع اس ملاقات کو خارج ازامکان قرار نہیں دے رہے تھے بلکہ وزیرخارجہ سْشماجی سوراج کے بیانات کی روشنی میں اس ملاقات کا قوی امکان نظر آرہا تھا حالانکہ بھارت نے نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر سے کشمیری رہنمائوں کی ملاقات پر برہم ہو کر 25 اگست کی خارجہ سیکرٹریوں کی میٹنگ منسوخ کر دی تھی۔ لیکن بہت عرصے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کے درمیان ملاقات نہیں ہوسکی لیکن اسمبلی میں دونوں رہنمائوں نے جو تقریریں کیں، وہ پاکستانی اور بھارتی حلقوں میں ہی نہیںبلکہ دنیا بھر کے اْن سفارتی اور سیاسی حلقوں میں بحث کا موضوع بنی ہوئی ہیں جو پاکستان اور بھارت کے درمیان بہتر تعلقات اور جنوبی ایشیاء میں امن کے خواہش مند ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں رہنمائوں نے اپنی تقاریر میں باہمی تنازعات کے بارے میں جو کچھ کہا، وہ حیران کْن حد تک خلاف ِتوقع تھا۔ مثلاً وزیراعظم محمد نوازشریف نے مسئلہ کشمیر پر اظہارخیال کرتے ہوئے عالمی برادری کو کشمیریوں سے کیے گئے وعدوں کا ذکر کیا جن کے تحت استصواب رائے کے ذریعے اْن کے مستقبل کا فیصلہ کیا جانا تھا۔ بظاہر یہ کوئی نئی یا بلا جواز بات نہیں تھی لیکن دو وجوہ کی بنا پر یہ بیان توقع کے برعکس تھا۔ ایک تو یہ کہ جناب نوازشریف نے اب تک بھارت کے ساتھ تعلقات کو
بہتر بنانے کے لیے کوئی پیشگی شرط عائد نہیں کی تھی بلکہ تجارت، اقتصادی تعاون اور ویزے کی سہولتوں کو آسان بنانے پر زور دیتے تھے۔ دوسرے حکومت کو اچھی طرح معلوم ہے کہ عالمی برادری کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے روایتی اور دیرینہ موقف کو سْن سْن کر تنگ آچکی ہے۔ اب دنیا پاکستانی اور بھارتی رہنمائوں سے جو بات سْننے کی خواہش مند ہے وہ یہ ہے کہ اس مسئلے کے حل کی طرف کیسے آگے بڑھا جائے اور اس پر عالمی سطح پر تقریباً مکمل اتفاق رائے(Consensus) پایاجاتا ہے کہ دونوں ملک غیر مشروط طور پر دوطرفہ بات چیت کے ذریعے اس مسئلے کا حل تلاش کریںکیونکہ یہ واحد طریقہ ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کشمیری عوام بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھارت کی طرف سے 25 اگست کی خارجہ سیکرٹریوں کی ملاقات کو یک طرفہ طور پر منسوخ کیا گیا تو کشمیری رہنمائوں نے نہ صرف اس اقدام کی مذمت کی بلکہ امن مذاکرات کی فوری بحالی کا مطالبہ کیاکیونکہ اس راستے پر قدم بہ قدم چل کر اور باہمی اعتماد پیدا کر کے پاکستان اور بھارت اس دیرینہ، پیچیدہ اور خطر ناک مسئلے کے حتمی حل کو حاصل کر سکتے ہیں۔
دوسری طرف نریندرمودی نے بھی اپنی تقریر میں سخت لہجہ اختیار نہیں کیا بلکہ اْنہوں نے کشمیر کے مسئلے کو جنرل اسمبلی میں اْٹھانے پر وزیراعظم محمد نوازشریف کو براہ راست جواب دینے سے احتراز کیا، صرف اتنا کہا کہ اقوام متحدہ جیسے بین الاقوامی فورم پر کشمیر جیسے متنازعہ مسئلہ کو اْٹھانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ اپنی تقریر میں اْنہوں نے کہا کہ بھارت ، پاکستان کے ساتھ دوطرفہ بات چیت کو دوبارہ شروع کرنے پر تیار ہے بشرطیکہ اس پر دہشت گردی کا سایہ نہ ہو۔ دیکھا جائے تو بھارتی وزیراعظم مودی نے عالمی مْوڈ کے مطابق بات کی ہے اور اس سے یقیناً بھارت اور اْن کی اپنی ذات کے بارے میں عالمی سطح پر خیر سگالی میں اضافہ ہوگا۔ ہمارے ہاں کچھ ماہرین اور تبصرہ نگار توکہیں گے کہ پاکستان کو اس کی پروا نہیں کرنی چاہیے کہ دنیا اْن کے بارے میں کیا سوچتی ہے لیکن چینی، جاپانی اور آسٹریلوی رہنمائوں کے ساتھ حالیہ ملاقاتوں کے بعد وزیراعظم نریندر مودی کو بخوبی اندازہ ہوگیا ہوگا کہ دنیا کیا چاہتی ہے اور اْنہوں نے اْس کے مطابق جنرل اسمبلی میں تقریرکی۔
اس کے علاوہ بھارت کی پولیٹیکل کلاس اور سول سوسائٹی میں ایک ایسا بااثر حلقہ موجود ہے جس کا موقف ہے کہ بھارت کو کسی صورت بھی پاکستان کے ساتھ بات چیت کا دروازہ بند نہیں کرنا چاہیے۔ بھارت کی ایک سابق سیکرٹری خارجہ نے گزشتہ سال ایک مضمون میں کہا تھاکہ 2008ء میں ممبئی دہشت گردی کے حملوں کے بعد بھارت کی طرف سے امن مذاکرات کو معطل کرناایک غلطی تھی، اس کا بھارت کو کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ دونوں ملکوں میں اْن انتہا پسند عناصر کے ہاتھ مضبوط ہوئے جو پاکستان اور بھارت میں جنگ چاہتے ہیں۔
پاکستان میں ہی نہیں بلکہ بھارت میں بھی اس مسئلے پر بحث ہورہی ہے کہ وزیراعظم محمد نوازشریف نے جنرل اسمبلی میں ایک ایسے موقع پر جب کہ پاک بھارت تعلقات کشیدہ ہیں اور امن مذاکرات کا عمل معطل ہے، جنرل اسمبلی میں مسئلہ کشمیرکو اتنا اْجاگرکیوںکیا اور ایک ایسے حل کی طرف اشارہ کیا جسے خود پاکستان کی ایک سابق حکومت ترک کر چکی ہے۔ اس سلسلے میں دو وجوہ کا ذکر کیا جارہا ہے۔۔۔۔ ایک یہ کہ وزیراعظم محمد نوازشریف نے فوج کو خوش کرنے کے لیے یہ موقف اختیارکیا، بھارتی اخبارات میں یہ بات کھلے عام کہی جارہی ہے ۔ دوسرے یہ کہ ملک ایک سیاسی بحران سے دوچار ہے۔ ایک بڑی اپوزیشن پارٹی، تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے وزیراعظم محمد نوازشریف کی حکومت کے خلاف تحریک چلا رکھی ہے اور مختلف معاملات میں حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اگر وزیراعظم محمد نوازشریف جنرل اسمبلی میں کشمیر پر سخت موقف اختیار نہ کرتے تو عمران خان کے ترکش سے تنقید اور مذمت کے مزید تیر اْن پر برسائے جاتے۔
دوطرفہ بات چیت کے ذریعے متنازعہ مسائل بشمول کشمیرکا پْرامن حل تلاش کرنے کے لیے پاکستان اور بھارت دونوں سخت عالمی دبائوکا شکار ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جنوبی ایشیاء کے امن اور سلامتی میں عالمی برادری کا سٹیک(Stake) بڑھ رہا ہے۔ اس حقیقت کو نہ تو بھارت نظر انداز کر سکتا ہے اور نہ پاکستان اس سے مْنہ پھیر سکتاہے۔ یہ ایک تاریخی عمل ہے جس کے ساتھ ساتھ چلنے کے سوا پاکستان اور بھارت کے پاس کوئی اور آپشن نہیں ہے۔