''چلیں ساتھ ساتھ‘‘... مندرجہ بالا عنوان کسی اردو یا ہندی فیچر فلم کے گیت کا مصرع نہیں بلکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے وہ الفاظ کہیں جو انہوں نے دورہ امریکہ کے دوران میں دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کے بارے میں کہے۔ امریکی صدر بارک حسین اوباما کو یہ الفاظ اتنے پسند آئے کہ مودی کے پانچ روزہ دورہ کے اختتام پر جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیاگیا اس میں ان الفاظ کو خصوصی جگہ دی گئی۔
کسی نے سچ کہا ہے کہ امریکہ کی کوئی خارجہ پالیسی نہیں ہے بلکہ عسکری اور معاشی لحاظ سے دنیا کے اس سب سے زیادہ طاقت ور ملک کے صرف مفادات ہیں جن کے حصول کی خاطر وہ کبھی کسی کو دوست بناکے گلے لگاتا ہے اور کبھی پیٹھ میں چھرا گھونپتا ہے۔ نریندر مودی کو ہی لے لیجیے۔ دنیا کے سامنے اپنے آپ کو انسانی حقوق کا علمبردار ثابت کرنے کے لیے امریکہ نے نریندر مودی کے امریکہ میں داخلے پر پابندی لگا رکھی تھی۔ کیونکہ مودی پر 2002ء میں جب وہ گجرات کے وزیراعلیٰ تھے ، ریاست میں مسلمانوں کے قتل عام پر جان بوجھ کر آنکھیں بند کرنے کا الزام تھا۔ لیکن جونہی نریندر مودی کے گزشتہ مئی میں انتخابات کے موقع پر بھارت کے وزیراعظم بننے کے امکانات روشن ہوئے، امریکہ نے اپنی پالیسی تبدیل کرلی۔ بھارت میں اس کے سفیر نے مودی سے ملاقاتیں شروع کردیں اور صدر اوباما کی طرف سے نہ صرف خیر سگالی اور نیک تمنائوں کا پیغام پہنچایا بلکہ امریکہ کے دورے کی دعوت بھی دے دی۔ امریکہ میں جس طرح نریندر مودی کی آئو بھگت کی گئی اور صدر اوباما نے وائٹ ہائوس میں جس طرح بھارتی وزیراعظم کا استقبال کیا، اس سے دونوں ملکوں میں نہ صرف موجودہ بلکہ مستقبل میں قریبی تعاون اور مفاہمت صاف نظر آئی۔
نریندر مودی کے دورۂ امریکہ کے اختتام پر جو طویل مشترکہ اعلامیہ جاری کیاگیا‘ اس میں تجارت ، سرمایہ کاری، دفاع، توانائی، سائنس اور ٹیکنالوجی ، تعلیم ، صحت ، صنعت، دہشت گردی، میری ٹائم سکیورٹی، سول نیوکلیئر تعاون کے علاوہ بیسیوں دیگر شعبے ہیں جن میں قریبی تعاون کے لیے اتفاق کا اظہار کیاگیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ 2005ء میں سابق بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ اور سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے واشنگٹن میں دونوں ملکوں کے درمیان طویل المیعاد تعاون پر مبنی جس '' سٹریٹیجک پارٹنر شپ‘‘ کے معاہدے پر دستخط کیے تھے اس کی مدت 2015ء تک بڑھا دی گئی۔ اسی معاہدے کے تحت 2006ء میں امریکہ اور بھارت کے درمیان سول نیوکلیئر تعاون کے معاہدے پر دستخط ہوئے تھے۔
بھارت اور امریکہ کے درمیان بڑھتے ہوئے دوطرفہ تعلقات سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد اہم واقعات میں شمار ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آبادی، رقبہ اور وسائل کے اعتبار سے بھارت ایشیا کا ایک بڑا اور انتہائی اہم ملک ہے۔ بھارت کے ساتھ قریبی تعلقات کا قیام دراصل جنوبی ایشیا اور بحر ہند کے علاقہ میں امریکہ کی ازسر نودلچسپی اور اثرونفوذ پھیلانے کی کوشش کا آئینہ دار ہے۔ ماضی میں امریکہ کی توجہ زیادہ تر یورپ، مشرق وسطیٰ اور بحرالکاہل کے ارد گرد کے علاقوں پر مرکوز رہی ہے۔ لیکن گزشتہ تقریباً تین دہائیوں میں چین کی فقید المثال معاشی ترقی اور دفاعی صلاحیت میں اضافہ نے امریکہ کی نیندیں حرام کردی ہیں۔ چین کی ترقی نے نہ صرف مشرق بعید اور جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک کو متاثر کیا ہے بلکہ اس کے بڑھتے ہوئے قد کا سایہ اب جنوبی ایشیا پر بھی پڑرہا ہے۔ بھارت اس پر پریشان ہے کیونکہ وہ اپنے آپ کو برٹش انڈین ایمپائر کا جانشین سمجھتے ہوئے جنوبی ایشیا کو اپنا حلقہ اثر سمجھتا ہے ۔ اسی لیے چین کی طرف سے حال ہی میں پاکستان کے علاوہ نیپال، بنگلہ دیش اور سری لنکا کے ساتھ دوطرفہ بنیادوں پر تجارت اور معاشی تعاون بڑھانے پر جو اقدامات کیے گئے ہیں‘ بھارت کو ان پر خصوصی تشویش ہے۔ اس معاملے میں امریکہ اور بھارت کے مفادات بھی مشترکہ ہیں اور سوچ بھی ایک جیسی ہے۔ اسی لیے دونوں ایک دوسرے سے تعاون بڑھانے اور قریب آنے کے لیے بے چین ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حالیہ برسوں میں امریکہ اور بھارت کے باہمی تعلقات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ مثلاً 2001ء سے اب تک پانچ گنا اضافے کے ساتھ دونوں ملکوں میں دوطرفہ تجارت کا حجم سو بلین ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ مشترکہ اعلامیہ میں اسے مزید بڑھانے کا ارادہ ظاہر کیاگیا ہے۔ لیکن جیسا کہ مشترکہ اعلامیے سے ظاہر ہوتا ہے، دونوں ممالک اپنے تعلقات اور تعاون کو صرف دو طرفہ سطح تک ہی محدود نہیں رکھنا چاہتے بلکہ اس دائرے میں پوری دنیا کو شامل کرنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مشترکہ اعلامیہ میں امریکہ نے بھارت کو '' سٹریٹیجک گلوبل پارٹنر‘‘ اور بھارت نے امریکہ کو اسے (بھارت کو) ''ایک ذمہ دار بااثر ورلڈ پاور‘‘ بنانے میں اہم ترین پارٹنر قرار دیا ہے۔ اس کے لیے امریکہ نے توانائی کے شعبے میں ترقی میں مدد دینے کے لیے خصوصی اقدامات کا ذکر کیا ہے۔ اس میں ایٹمی پلانٹ نصب کرنے کی پیشکش بھی شامل ہے، تاکہ بھارت کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے لیے سستی اور ماحول کے لیے سازگار توانائی پیدا کی جاسکے۔ اجمیر ، وزیگا پٹنم اور الہ باد میں '' سمارٹ سٹی ‘‘ قائم کرنے کے لیے امریکہ نے امداد دینے کا وعدہ کیا ہے۔ دفاعی شعبے میں جس تعاون کا ذکر مشترکہ اعلامیہ میں کیاگیا اس کے مطابق امریکہ بھارت کی دفاعی صلاحیت میں اضافہ کرنے میں مدد فراہم کرے گا تاکہ بھارت کا نہ صرف قومی سطح پر دفاع مستحکم ہو بلکہ علاقائی اور عالمی سلامتی کے قیام میں بھی مدد فراہم کرسکے۔ مشترکہ اعلامیہ میں امریکہ کی طرف سے بھارت پر عراق اور شام میں جاری جنگ اور ایشیائی بحرالکاہل میں زیادہ سے زیادہ کردار ادا کرنے پر جو زور دیاگیا ہے وہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ امریکہ ایک عرصے سے بھارت اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے درمیان تجارتی اور توانائی کے شعبوں میں روابط بڑھانے پر زور دیا جارہا ہے۔ یہاں تک کہ ترکمانستان سے افغانستان کے راستے پاکستان تک گیس پائپ لائن(TAP)کی تعمیر میں مالی اور تکنیکی امداد کی فراہمی اس منصوبے میں بھارت کی شمولیت سے مشروط کردی تھی۔ اب یہ منصوبہ TAPسے TAPIبن چکا ہے اور عالمی مالیاتی ادارے اسے فنڈ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن مشترکہ اعلامیے میں امریکہ نے اب وسطی ایشیا کے علاوہ جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا کے درمیان مواصلاتی رابطوں کے قیام میں بھارت کو بڑھ چڑھ کر حصہ لینے پر زور دیا ہے۔ اس کی وجہ غالباً چین اور پاکستان کے درمیان سنکیانگ اور گوادر کو ملانے والے اکنامک کاریڈور اور چین کی طرف سے پیش کردہ میری ٹائم سلک روٹ کی تجویز ہے۔ امریکہ نے ان منصوبوں کا توڑ نکالنے کے لیے انڈیا پیسفک اکنامک کاریڈور ‘‘ اور '' نیو سلک روٹ‘‘ کی تجاویز پیش کیں۔
اگرچہ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ '' امریکہ اور بھارت کے درمیان سب ٹھیک ہے ‘‘ اور سول نیوکلیئر تعاون اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن جیسے مسائل پر دونوں ملکوں میں اختلافات بدستور موجود ہیں اور کچھ لوگوں کو اب بھی شک ہے کہ بھارت آئندہ دہائی میں چین کے مقابلے میں ایک عالمی قوت بننے کا جو خواب دیکھ رہا ہے، وہ بھارت کی غربت ، انفراسٹرکچر کی زبوں حالی اور سماجی فسادات کی بنا پر پورا ہوسکتا ہے یا نہیں ، تاہم پاکستان کو بھارت اور امریکہ کے ان بڑھتے ہوئے تعلقات اور دفاعی توانائی اور سلامتی جیسے اہم شعبوں میں تعاون کے پیش نظر اپنی پالیسی کا جائزہ لینا چاہیے۔ آئندہ آنے والے دنوں میں پاکستان کے لیے خطرات بھی ہیں اور مواقع بھی۔ دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کی قیادت ان کا صحیح طریقے سے ادراک کرکے کسی طرح ایک طویل المیعاد پالیسی تشکیل دیتی ہے۔ اس ضمن میں ایک بات یاد رکھنا بہت ضروری ہے۔ بھارت کے عزائم کچھ بھی ہوں، امریکہ اب جنوبی ایشیا کو صرف بھارت کی آنکھ سے نہیں دیکھے گا۔ بلکہ اس خطے کے تمام ممالک کے ساتھ یکساں تعلقات اور تعاون کے قیام پر آمادہ ہے۔ ان میں پاکستان ایک ایٹمی قوت، اہم اسلامی ملک اور جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا میں ایک پل ہونے کی حیثیت سے امریکہ کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔