حال ہی میں وزیراعظم محمد نوازشریف کے دورئہ چین کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان تقریباً45ارب ڈالر مالیت کے مختلف معاہدات اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط ہوئے ہیں۔ان معاہدات کا مقصد متعدد شعبوں‘ جن میں توانائی کا شعبہ سرِفہرست ہے، میں چینی سرمایہ کاری کے ذریعے پاکستان کو معاشی طور پر مستحکم کرنا اور قومی ترقی کی رفتار کو تیز کرنا ہے۔ پاکستان اور چین میں سیاسی،سفارتی اور دفاعی شعبوں میں گذشتہ تقریباً 5 دہائیوں سے انتہائی قریبی اور گہرا تعاون چلا آرہا ہے‘ لیکن کچھ عرصہ سے دونوںطرف محسوس کیا جارہا تھا کہ معاشی شعبے میں تعلقات بڑھانا ضروری ہے تاکہ پاکستان اور چین کی تاریخی اور بے مثال دوستی کو ایک ٹھوس اور دیرپا بنیاد فراہم کی جاسکے۔اس پر عمل درآمد کا آغاز آج سے دس سال پہلے ہی ہوگیا تھا‘ جب 2005ء میں اس وقت کے چینی وزیراعظم نے پاکستان کا دورہ کیا۔ اس دورے میں دونوں ملکوں کے درمیان متعدد شعبوں میں تعاون کیلئے بہت سے معاہدات پر دستخط کیے گئے تھے۔اقتصادی شعبے میں قریبی اور وسیع تعاون کو پیپلز پارٹی کے سابق دور 2008ء تا 2013ء میں اور آگے بڑھایا گیا تھا۔ سابق صدر آصف علی زرداری اور چینی قیادت کے درمیان متعدد معاہدات طے پائے۔ موجودہ حکومت نے اس عمل کو مزید آگے بڑھایا ہے۔ وزیراعظم محمد نوازشریف اسی مقصدکیلئے تین مرتبہ چین کا دورہ کر چکے ہیں۔اس عمل کوتیز کرنے میں دونوں ملکوں کی قیادت کی خواہشات اور کوششوں کا ہاتھ ہے۔اس ضمن میں چینی وزیراعظم لی کی چیانگ کے مئی 2013ء کے دورے کی مثال دی جاسکتی ہے۔
چینی وزیراعظم نے پاکستان کا ایک ایسے وقت پر دورہ کیا‘ جب ملک میں ابھی نئی حکومت کا قیام عمل میں نہیں آیا تھا۔ اس دورے کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان 12معاہدات اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے‘ ان میں پاک چین اکنامک کاریڈور کی تعمیر بھی شامل تھی۔ اسلام آباد میں ایک تقریب کے دوران اپنے خطاب میں چینی وزیراعظم نے دونوں ملکوں کے درمیان توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے پر زور دیا۔ اس تجویز کو مفید پاکر پاکستان نے بھی چین کے تعاون سے توانائی کو خصوصی اہمیت دینے کا فیصلہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ45ارب ڈالر مالیت کی سرمایہ کاری میں سے34ارب ڈالر پانی،کوئلے،ہوا اور شمسی روشنی سے توانائی حاصل کرنے پر خرچ کیے جائیں گے۔ پاکستان اور چین کے درمیان گزشتہ ایک دہائی میں درجنوں معاہدات پر دستخط کیے گئے‘ لیکن اصل مسئلہ ان معاہدات پر عمل درآمد کا ہے۔بدقسمتی سے اس ضمن میں نتائج حوصلہ افزا نہیں رہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم کے دورے کے انتہائی حوصلہ افزا نتائج کے باوجود ملک کے متعدد حلقوں میں ان معاہدات پر عمل درآمد کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ان شکوک و شبہات کا تعلق چین کی طرف سے پاکستان کے ساتھ تعاون کو آگے بڑھانے کیلئے ارادے یا خواہش سے نہیں ہے۔ چین تو ساری دنیا خصوصاً ہمسایہ ایشیائی ممالک کے ساتھ تعاون کو فروغ دینے میں مصروف ہے۔اصل مسئلہ پاکستان کی صلاحیت سے تعلق رکھتا ہے۔اس مسئلے میں جن عوامل کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے ان میں سیاسی غیر یقینی اور سیاسی عدم استحکام،لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ‘ کمزور معیشت اور دہشت گردی کا خطرہ شامل ہیں۔جنرل مشرف اور پیپلز پارٹی کے سابق ادوار میں پاکستان اور چین کے درمیان قومی تعمیر کے عمل کو تیز کرنے کیلئے درجنوں معاہدات پر دستخط کیے گئے لیکن ان پر تسلی بخش طریقے سے عمل درآمد نہ ہوسکا۔ اسی وجہ سے ابھی تک پاکستان میں چینی سرمایہ کاری انتہائی کم سطح پر ہے۔اگرچہ سو سے زائد منصوبوں پر کام شروع ہوچکا ہے‘ لیکن اس کی رفتار بہت سست ہے۔ اس کی وجہ وہی عوامل ہیں جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔لاء اینڈ آرڈر کی خراب صورت حال کے پیش نظر چین کے کاروباری حلقے پاکستان میں سرمایہ لگانے سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔یہی عوامل پاکستان میں دوسرے ممالک کی طرف سے سرمایہ کاری کے راستے میں رکاوٹ پیدا کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم کے حالیہ دورہ جرمنی کے دوران میں چانسلر انجیلا مرکل نے اِسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ جرمنی کے تاجروںاور کاروباری حلقوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری پر مجبور نہیں کیا جاسکتا‘ کیونکہ پاکستان میں سکیورٹی کی صورت حال تسلی بخش نہیں ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر ان معاہدات پر عمل درآمد ہوجائے تو یہ پاکستان کیلئے ''گیم چینجر‘‘ ثابت ہوں گے‘ مگر ان پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کیلئے حکومت کو سب سے پہلے موجودہ بحران سے پیدا ہونے والی سیاسی غیر یقینی کی کیفیت کو ختم کرنا ہوگا۔ سیاسی دھرنوں اور احتجاجی جلسوں کے انعقاد نے ملک کے اندر ہی نہیں بلکہ بیرون ملک بھی اس تاثر کو تقویت دی ہے کہ پاکستان میں حکومت کسی وقت بھی تبدیل ہوسکتی ہے یا اگر موجودہ حکومت مسند اقتدار پر بیٹھی رہنے میں کامیاب ہو بھی جائے،تو ان معاہدات پر پوری طرح عمل درآمدنہیں ہوسکے گا۔ سیاسی غیر یقینی اور سیاسی عدم استحکام کی فضا میںغیر ملکی سرمایہ کار تو بڑی دور کی بات ہے،ملکی سرمایہ کار بھی اپنا سرمایہ لگانے سے گھبراتا ہے‘ کیونکہ اسے اپنے سرمائے کا تحفظ چاہیے۔یہی اصول چینی سرمایہ کار پر بھی صادق آتا ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان مختلف شعبوں میں منصوبوں کے قیام کیلئے جو 21 کے قریب معاہدات طے پائے ہیں، ان میں چین کا پرائیویٹ سیکٹر سرمایہ کاری کرے گا اور دنیا کے کسی بھی ملک کے پرائیویٹ سیکٹر کی طرح چین کا پرائیویٹ سیکٹر بھی سرمایہ کاری سے پہلے سیاسی حالات کا جائزہ لے گا‘ کیونکہ معاشی صورت حال اور سیاسی صورت حال کا آپس میں گہرا تعلق ہوتا ہے۔
دوسرا مسئلہ لاء اینڈ آرڈر اور سکیورٹی کا ہے۔ جہاں تک لاء اینڈ آرڈر اور سکیورٹی کا تعلق ہے‘ اس میں اگرچہ گذشتہ ایک سال کے دوران کچھ بہتری دیکھنے میں آئی‘ مگر مجموعی طور پر صورت حال ابھی تک مخدوش ہے اور اسے اس سطح تک بہتر نہیں بنایا جاسکا جہاں ملکی اور غیر ملکی دونوں سرمایہ کار اپنے سرمائے کو محفوظ سمجھ سکیں۔ کراچی میں گزشتہ برس ستمبر سے جاری آپریشن کی وجہ سے شہر میں اغواء برائے تاوان،ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کی وارداتوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے تاہم دن دیہاڑے ڈکیتی،فائرنگ اور تاجر طبقے کو ہراساں کرنے کے واقعات اب بھی جاری ہیں‘ جن کی وجہ سے شہر میں خوف و ہراس کی فضا پائی جاتی ہے۔ شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف گذشتہ تقریباً تین ماہ سے جاری فوجی آپریشن ''ضرب عضب‘‘ کی وجہ سے بھی ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی ہے‘ لیکن خود کش حملوں اور بم دھماکوں کی وارداتیں اب بھی جاری ہیں۔ ان میں پاک بھارت واہگہ سرحد پر ہونے والا خودکش حملہ خصوصاً باعث تشویش ہے کیونکہ اس کا مقصد واہگہ سرحد کے راستے پاک۔بھارت تجارت کی حوصلہ شکنی تھا۔
گلوبلائزیشن کے اس دور میں کسی ملک کا اندرونی سیاسی مسئلہ ہو یا ہمسایہ ملکوں کے درمیان معاشی اور تجارتی تعلقات ہوں،اس کے علاقائی بلکہ عالمگیر مضمرات ہوتے ہیں۔پاکستان کو معلوم ہونا چاہیے کہ چین خطے میں صرف پاکستان میں ہی سرمایہ کاری نہیں کر رہا بلکہ جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک خصوصاً بھارت اور افغانستان کے ساتھ بھی اپنے اقتصادی روابط اور سرمایہ کاری میں اضافہ کر رہا ہے۔جس طرح اسے پاکستان میں اپنے سرمائے کے تحفظ کی فکر ہے اسی طرح اس کی خواہش ہے کہ افغانستان اور بھارت میں بھی اس کے بڑھتے ہوئے اقتصادی مفادات محفوظ رہیں۔اس کیلئے نہ صرف پاک افغان تعلقات بلکہ بھارت کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات میں بہتری ضروری ہے۔اس خواہش کا اظہار جرمنی کے چانسلر مرکل نے ہی نہیں بلکہ چینی رہنمائوں نے بھی کیا۔