مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے حالیہ انتخابی نتائج کئی پہلوئوں سے دلچسپ اور اہمیت کے حامل ہیں۔ سب سے نمایاں پہلو‘ جس نے مبصرین کو ہی نہیں بلکہ انتخابی معرکے میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں کو بھی حیران کر دیا ہے‘ ڈالے گئے ووٹوں کی غیر معمولی شرح تناسب ہے‘ جو کہ اوسطاً 65فیصد رہی۔ایک لحاظ سے یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں کیوں کہ گزشتہ چھ ماہ کے دوران میں بھارت میں ریاستی سطح پر جتنے بھی انتخابات ہوئے‘ ان کی شرح تناسب غیر معمولی حد تک زیادہ رہی۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ مقامی اور ریاستی امور پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں کیوں کہ ان کا تعلق ان کی روز مرہ زندگی سے ہے اور اس کے لیے وہ گڈ گورننس کے خواہاں ہیں۔ یہی اصول مقبوضہ کشمیر پر بھی عاید کیا جا سکتا ہے؛ تاہم غیر معمولی ٹرن آئوٹ کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام نے بھارت کے ساتھ اپنی ریاست کے الحاق کو تسلیم کر لیا ہے‘ بلکہ اس کے پس پردہ محرکات میں لوگوں کو درپیش مقامی مسائل ‘ بے روزگاری‘ عدم تحفظ اور معیشت کی بگڑتی ہوئی صورتحال شامل ہیں۔ مبصرین کے مطابق بی جے پی کو بھی ماضی کے برعکس اس لیے زیادہ کامیابی (87اراکین کی اسمبلی میں 25سیٹیں) حاصل ہوئی ہے کہ اس نے وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں ریاست کی سابق نیشنل کانفرنس کی حکومت کی نااہلی‘بدعنوانی اور غفلت کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ ایک اچھی‘صاف ستھری اور مضبوط حکومت دینے کا وعدہ کیا تھا۔یاد رہے کہ مودی نے کسی تقریر میں آرٹیکل370منسوخ کرنے کی بات نہیں کی۔ بی جے پی نے 25نشستیں حاصل کر کے دوسری پوزیشن حاصل کی ہے‘ لیکن تناسب کے اعتبار سے سب سے زیادہ ووٹ یعنی23فیصد حاصل کئے ہیں۔تاہم اس کا 44پلس مشن پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔اس کی ساری نشستیں ہندو اکثریت پر مبنی تین اضلاع جموں ‘کٹھوعہ اور اودھم پور پر مشتمل علاقے تک محدود ہیں۔ انہی اضلاع میں سے بی جے پی نے گزشتہ مئی میں ہونے والے لوک سبھا کے انتخابات میں ریاست کی کل چھ نشستوں میں سے تین جیتی تھیں۔ اس کے حاصل کردہ ووٹوں کے تناسب میں اضافہ بھی اس خطے میں رہنے والے ہندوئوں کی طرف سے بھر پور حمایت کا نتیجہ ہے‘ لیکن اسے مسلم اکثریت والی وادی میں کوئی نشست حاصل نہیں ہو سکی۔واد ی کی نشستوں پر پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی (پی ڈی پی)‘ کانگرس اور نیشنل کانفرنس بالترتیب 12,28اور17نشستوں کے ساتھ کامیاب ہوئی ہیں۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی سیاست میں مذہبی بنیادوں پر تفریق کس حد تک سرایت کر چکی ہے۔انتخابات کے بعد حکومت سازی کا مرحلہ ہے‘ جو موجودہ انتخابی نتائج کی روشنی میں مشکل نظر آتا ہے کیونکہ کوئی پارٹی بھی اتنی نشستیں حاصل نہیں کر سکی کہ وہ اکیلے حکومت بنا سکے۔اس لیے اس وقت انتخابات میں کامیاب ہونے والی پارٹیوں میں حکومت سازی کے لیے دوڑ لگی ہوئی ہے۔اصولی طور پر گورنر کو چاہئے کہ وہ پی ڈی پی کو حکومت سازی کی دعوت دے کیوں کہ اس کے پاس دوسری پارٹیوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ نشستیں ہیں‘ لیکن اس کے سامنے سب سے اہم مسئلہ ایک حلیف پارٹی کا چنائو ہے۔اگر پی ڈی پی راضی ہو تو وہ نیشنل کانفرنس‘ جس کے پاس 17نشستیں ہیں‘ کو ساتھ ملا کر حکومت بنا سکتی ہے‘ لیکن پی ڈی پی نے یہ انتخابات نیشنل کانفرنس کی مخالفت کی بنیاد پر ہی تو جیتے تھے اس لیے اگر وہ عمر عبداللہ کی نیشنل کانفرنس کے ساتھ مخلوط حکومت تشکیل دیتی ہے تو اُسے عوامی نکتہ چینی کا سامنا کرنا پڑے گا؛ اگرچہ عمر عبداللہ نے پی ڈی پی کو اتحاد کی پیش کش کی ہے ۔
بالکل اسی طرح کے مسائل بی جے پی کو درپیش ہیں ۔انتخابات سے قبل اس کی قیادت خصوصاً اس کے صدر امیت شاہ نے دعویٰ کیا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کی آئندہ حکومت بی جے پی کی ہو گی اور اسی دعوے کو سچ ثابت کرنے کے لیے وزیر اعظم نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر میں انتخابی مہم میں خود حصہ لیا تھا۔ان کا خیال تھا کہ مہاراشٹر اور ہریانہ میں ہونے والے حالیہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی بھاری کامیابی کی داستان مقبوضہ کشمیر میں بھی دہرائی جا سکے گی‘ لیکن یہاں اسے صرف 25نشستیں ملیں‘ جبکہ حکومت بنانے کے لیے اسے مزید19سیٹیں درکار ہیں۔بی جے پی کے سامنے دو آپشنز ہیں۔ وہ پی ڈی پی کے ساتھ مل کر حکومت بنائے یا عمر عبداللہ کی نیشنل کانفرنس اور آزاد حیثیت میں کامیاب ہونے والے امیدواروں کو ساتھ ملا کر حکومت بنائے‘ لیکن ان دونوں پارٹیوں کے بی جے پی کے ساتھ شدید سیاسی اور نظریاتی اختلافات ہیں۔جہاں تک کانگرس کا تعلق ہے‘ بی جے پی اس کے ساتھ اتحاد پر مائل نظر نہیں آتی‘ اس لیے وہ دیگر آپشنز کو استعمال کرنے کی طرف متوجہ ہے۔دوسری پارٹیوں کے ساتھ بات چیت کرنے اور حکومت سازی کے امکانات کا جائزہ لینے کے لیے بی جے پی کی مرکزی قیادت نے وزیر خزانہ ارون جیٹلے اور پارٹی سیکرٹری ارون سنگھ کو مقبوضہ کشمیر میں بھیجنے کا فیصلہ کیا اور وہ غالباً پی ڈی پی کے ساتھ اتحاد کے امکانات پر بات چیت کریں گے۔
لیکن پی ڈی پی کے ساتھ اتحاد میں بی جے پی کو ایک اور مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا۔بی جے پی کی خواہش ہو گی کہ مقبوضہ کشمیر میں وزارت اعلیٰ کا عہدہ اسے ملے‘ جبکہ پی ڈی پی اس سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہ ہو گی‘ کیوں کہ وہ واحد اکثریتی پارٹی بن کر ابھری ہے۔اس کے جواب میں بی جے پی اپنی نشستوں میں اضافہ کی خواہش مند ہے اور اس کے لیے وہ دوسری پارٹیوں اور کامیاب ہونے والے آزاد امیدواروں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ حال ہی میں بی جے پی نے دعویٰ کیا کہ اسے چھ اور کامیاب امیدواروں کی حمایت حاصل ہو گئی ہے۔ان میں سے دو آزاد‘دو پیپلز کانفرنس کے کامیاب امیدوار اور ایک ایسا آزاد امیدوار شامل ہے جس نے بی جے پی کی ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیا تھا۔اس طرح بی جے پی کے حامی اراکین اسمبلی کی تعداد 31ہو جائے گی‘ جسے بنیاد بنا کربی جے پی وزارت اعلیٰ کا عہدہ لینے کا مطالبہ کر سکتی ہے۔مقبوضہ کشمیر میں ان انتخابات کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ اس بار 87میں سے 56امیدوار پہلی دفعہ
اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے ہیں۔ان 56میں سے سب سے زیادہ تعداد یعنی 31اراکین کا تعلق بی جے پی سے ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جنوبی ایشیا کے باقی ممالک اور خصوصاً بھارت کے دوسرے حصوں کی طرح مقبوضہ کشمیر میں بھی سیاست کے انداز بدل رہے ہیں اور اب نوجوانوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد آگے آ رہی ہے۔مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل میں بھی یہ رجحان قائم رہے گا اور آئندہ صرف ان پارٹیوں کے جیتنے کے امکانات زیادہ ہیں جو نہ صرف نوجوان طبقے کے جذبات کی ترجمانی کریں گی‘ بلکہ اپنے پلیٹ فارم سے انہیں سیاست میں نمایاں کردار ادا کرنے کا موقعہ بھی فراہم کریں گی۔
پہلے کی طرح اس مرتبہ بھی آل پارٹیز حریت کانفرنس اور مجاہدین کی تنظیموں نے عوام سے انتخابات کے بائیکاٹ کی اپیل کی تھی‘ اس کے باوجود عوام کی بھاری اکثریت نے ووٹ ڈالے‘ حالانکہ خدشہ تھا کہ وادی میں تباہ کن سیلاب کی وجہ سے لوگ ووٹ ڈالنے کے لیے نہیں آئیں گے۔خود عمر عبداللہ کی پارٹی نیشنل کانفرنس کی حکومت نے نومبر میں انتخابات کے انعقاد کی مخالفت کی تھی۔ان کا استدلال بھی سیلاب کی تباہ کاریوں پر مبنی تھا۔ اس کے باوجود لوگوں کا اتنی بڑی تعداد میں پولنگ سٹیشنوں پر پہنچنا‘ اس امر کی دلیل ہے کہ لوگ جدوجہد آزادی کی حمایت کے ساتھ اپنے مقامی اور روز مرہ مسائل کے حل کی طرف بھی سنجیدگی سے متوجہ ہیں اور وہ ان کے حل کے لیے اہل اور مخلص رہنمائوں کو چننا چاہتے ہیں۔ان انتخابات میں نیشنل کانفرنس اور کانگرس کو جس عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ موروثی اور خاندانی سیاست سے تنگ آ چکے ہیں اور وہ اپنے مستقبل کی باگ ڈور نئے لوگوں کے ہاتھ میں دینا چاہتے ہیں۔