"DRA" (space) message & send to 7575

پاک بھارت تعلقات اور بین الاقوامی برادری

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا ماسکو اور کابل کے دورے کے بعد واپس دہلی جاتے ہوئے لاہور رُک کر پاکستانی ہم منصب نواز شریف سے مختصر ملاقات کرنا بلا شبہ دونوں ملکوں کے تعلقات کے حوالے سے ڈرامائی اقدام تھا۔ وزیر اعظم نواز شریف نے جس تپاک کے ساتھ معزز مہمان کا استقبال کیا، وہ بھی کم حیران کن نہیں تھا۔ وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے خود ایئرپورٹ جا کر وزیر اعظم نریندر مودی کا استقبال کیا۔ دونوں رہنمائوں نے اپنی ملاقات کے لیے کسی سٹیٹ گیسٹ ہائوس یا گورنر ہائوس کا انتخاب نہیں کیا بلکہ ان کے لیے رائے ونڈ میں جاتی امرا میں وزیر اعظم کی ذاتی رہائش گاہ کو چنا گیا‘ اس سے ملاقات میں بے تکلفی اورذاتی تعلقات کا تاثر اُبھرا۔
بعض حلقوں کی رائے ہے کہ بے شک یہ ایک ڈرامائی اقدام تھا، اورملاقات اپنی جگہ ڈرامائی اور خوشگوار تھی‘ لیکن اس کے باوجود، اس کی اصل اہمیت اور افادیت کا پتہ اس وقت چلے گا، جب اگلے ماہ دونوں ملکوں کے خارجہ سیکرٹریوں کی ملاقات اور اس کے بعد باہمی مذاکرات میں تنازعات کے حل کی طرف پیش رفت ہوتی ہے یا نہیں؟نواز شریف نریندر مودی ملاقات کے بارے میں محتاط رویے کی اپنی وجوہ ہیں لیکن چند برسوں سے پاکستان اور بھارت کے تعلقات کو کشیدگی سے پاک اور تعاون پر مبنی دیکھنے میں بین الاقوامی برادری نے جس دلچسپی بلکہ سرگرمی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت جنوبی ایشیا کے دو سب سے اہم ملک ہیں۔ خطے کے باقی ملکوں کے مقابلے میں دونوں ملک نہ صرف فحاشی بلکہ عسکری لحاظ سے بھی سب سے زیادہ طاقت ور ہیں۔ 
دونوں ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ ان کے درمیان ٹکرائو سے نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ پوری دنیا کا امن اور استحکام خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ اس لیے دنیا اور خاص طور پر ان ملکوں کو جن کے معاشی، تجارتی، دفاعی اور سیاسی مفادات اس خطے کے امن اور استحکام سے وابستہ ہیں، پاکستان اور بھارت کے درمیان متواتر کشیدگی پر تشویش ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس تشویش میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ڈیڑھ ارب کے قریب اگر یہ آبادی انتشار اور تصادم کا شکار ہو جائے تو باقی ماندہ دنیا کے لیے تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔
پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات اور خاص طور پر باہمی تنازعات کو حل کرنے کے لیے بات چیت کے عمل کی اگر گزشتہ تقریباً دو دہائیوں کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ سہولت کار کی حیثیت سے اس میں بین الاقوامی برادری کے کردار میں برابر اضافہ ہو رہا ہے۔ مثلاً 1994ء میں جب پاک بھارت خارجہ سیکرٹریوں کی سطح پر بات چیت 4برس تک تعطل کا شکار رہی، تو اس وقت امریکہ نے دونوں ملکوں کو گفت وشنید کی میز پر ایک دفعہ پھر بٹھانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس بات چیت کے نتیجے میں 1999ء میں بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی ''دوستی بس‘‘ سے لاہور تشریف لائے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان ''اعلانِ لاہور‘‘ پر دستخط ہوئے اور تمام متنازعہ امور بشمول کشمیر پر بات چیت کرنے کاشیڈول تیار کیا گیا۔ اگر مئی 1999ء میں جنرل مشرف کی مہم جوئی کے نتیجے میں کارگل کا واقعہ رونما نہ ہوتا، تو بھارت کے ایک سینئر صحافی اور کالم نویس کلدیپ نیئر کے مطابق ستمبر 1999ء میں دونوں ملک کشمیر پر باضابطہ مذاکرات شروع کرنے والے تھے۔ اور اس کے حتمی حل کے بارے میں بھی پاکستان اور بھارت چند اہم اصولوں پر متفق ہو چکے تھے۔ اس طرح 2001-02ء میں جب پاکستان اور بھارت کی فوجیں کیل کانٹے سے لیس سرحدوں پر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آمنے سامنے کھڑی تھیں، تو اس وقت بھی امریکہ نے صورتِ حال کو قابو سے باہر جانے سے روکا تھا اور سرحدوں پر کشیدگی ختم کروانے میں مدد دی تھی۔ امریکہ کے پس 
پردہ کردار کی وجہ سے پاک بھارت مذاکراتی عمل جسے عرف عام میں کمپوزٹ ڈائیلاگ بھی کہا جاتا ہے، 2004ء میں شروع ہوا۔ اس عمل کو شروع کرانے یعنی پاکستان اور بھارت کو مذاکرات کی میز پر ایک دفعہ پھر بٹھانے میں امریکہ کے علاوہ جن دیگر ممالک نے پس پردہ کردار ادا کیا تھا ان میں پاکستان کے ایک سابق وزیر اعظم میر ظفر اللہ جمالی کے مطابق روس، چین اور یورپی یونین کے رکن ممالک بھی شامل تھے۔ نومبر 2008ء میں ممبئی میں دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے پاک بھارت امن مذاکرات کا یہ سلسلہ ڈھائی سال تک معطل رہا۔ 2010ء میں بھوٹان کے دارالحکومت تھمپو میں پاکستان کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور ان کے بھارتی ہم منصب من موہن سنگھ کے درمیان ''سارک‘‘ کانفرنس کے موقع پر ملاقات میں اسے دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق ہوا۔ اگلے سال یعنی 2011ء میں اس مذاکراتی عمل کے تحت دونوں ملکوں میں سیکرٹریوں کی سطح پر مذاکرات کے چند دور ہوئے، لیکن 2012ء کے آخری حصے اور 2013ء کے شروع میں ''لائن آف کنٹرول‘‘ پر فائرنگ کے واقعات میں تیزی آنے سے مذاکرات کا سلسلہ ایک دفعہ پھر ٹوٹ گیا۔ مئی 2014ء میں بھارتی انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی پر جب نریندر مودی وزیر اعظم نامزد ہوئے تو انہوں نے اپنی تقریب حلف برداری میں ''سارک‘‘ ممالک کے رہنمائوں کے علاوہ وزیر اعظم نواز شریف کو بھی شرکت کی دعوت دی ؛چنانچہ ہمارے وزیر اعظم نے نہ صرف تقریب حلف برداری میں شرکت کی بلکہ مودی صاحب کے ساتھ علیحدہ ملاقات بھی کی۔ اس ملاقات میں دونوں رہنمائوں نے پاک بھارت امن مذاکرات کے عمل کو ایک دفعہ پھر شروع کرنے پر اتفاق کیا اور یہ اعلان کیا گیا کہ اگست میں دونوں ملکوں کے سیکرٹری خارجہ ان مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کے لیے آپس میں ملاقات کریں گے، لیکن یہ ملاقات نہ ہو سکی کیونکہ اس ملاقات سے قبل ہی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر سے کشمیری رہنمائوں کی ملاقات پر ناراض ہو کر بھارتی حکومت نے یہ مذاکرات منسوخ کر دیئے۔ پاکستانی اور بھارتی سیکرٹری خارجہ کے درمیان اس ملاقات کے نہ ہونے کی وجہ سے دونوں ملکوں میں کشیدگی میں اضافہ ہوا۔ 'لائن آف کنٹرول‘‘ پر فائرنگ کا تبادلہ شدت اختیار کر گیا اور سرحد کے دونوں طرف سے معاندانہ اور اشتعال انگیز بیانات میں تیزی آ گئی۔
اس تمام صورت حال میں بین الاقوامی برادری خاموش تماشائی نہیں بنی رہی بلکہ پاکستان اور بھارت دونوں کے دوست اور خیر خواہ ممالک انہیں مذاکرات پر آمادہ کرنے کے لیے پس پردہ کوششوں میں مصروف رہے۔ جولائی میں روس کے شہر ''اُوفا‘‘ میں وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعظم نریندر مودی کے درمیان ملاقات ہوئی جس میں دونوں رہنمائوں نے پانچ نکاتی مشترکہ اعلامیے پر دستخط کئے جن میں طرفین کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر کی اگست میں ملاقات کا پروگرام بھی شامل تھا، لیکن جب بھارت نے اس ملاقات کو چند مطالبات سے مشروط کر دیا تو پاکستان نے شرکت سے انکار کر دیا لیکن جو طاقتیں جنوبی ایشیا میں امن اور افغانستان میں مصالحتی عمل کی کامیابی کے لیے پاک بھارت تعاون کو اہم سمجھتی ہیں۔ وہ برابر اس کوشش میں تھیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان مذاکراتی عمل کو بحال کیا جائے تا کہ باہمی کشیدگی کی بجائے خیر سگالی پیدا ہو، تعاون بڑھے اور باہمی اعتماد میں اضافہ ہو۔ لاہور میں وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعظم نریندر مودی کے درمیان ملاقات بھی انہی کوششوں کا نتیجہ ہے، جس کا آغاز نومبر میں دونوں ملکوں کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر کی بنکاک میں ملاقات سے ہوا تھا، اور جن کی وجہ سے نومبر کے آخر میں پیرس میں نواز شریف، نریندر مودی'' تین منٹ ملاقات‘‘ ہوئی تھی۔ جس کے نتیجے میں ہی دونوں ملکوں نے باہمی مذاکراتِ امن کو دوبارہ شروع کرنے کافیصلہ کیا ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں