چین کی حکومت کے ایک اہم عہدیدار نے اپنے ملک کی طرف سے پاکستان اور بھارت کے درمیان موجودہ کشیدگی کم کرنے میں خدمات کی پیشکش کی ہے کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی سے نہ صرف ان کے باہمی تعلقات متاثر ہوں گے بلکہ اس کا اثر پورے جنوبی ایشیا پر پڑ سکتا ہے۔ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر چینی وزیراعظم نے اپنے پاکستانی ہم منصب نوازشریف سے ملاقات کے دوران میں بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم کرنے پر زور دیا تھا بلکہ اسے کم کرنے میں چین کی مدد کی پیشکش بھی کی تھی۔
چین نے پاکستان کے ساتھ دوستی کو صرف اعلانات تک محدود نہیں رکھا بلکہ اس پر عمل بھی کر کے دکھایا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال بھارت کی طرف سے جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کو بھارت کی جانب سے عالمی دہشت گرد قرار دلوانے کی کوشش کو ناکام بنانا اور نیوکلیئر سپلائرز گروپ (NSG) میں اتفاق رائے کے بغیر بھارتی شمولیت کی متواتر مخالفت ہے۔ ان دو اہم ایشوز پر چین کے دو ٹوک موقف سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جہاں کہیں پاکستان کے اہم مفادات کا سوال اٹھے گا چین پوری قوت اور ثابت قدمی کے ساتھ پاکستان کا ساتھ دے گا۔ سرحدوں پر کشیدگی کم کرنے اور باہمی تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کا جو مشورہ چین نے خطے کے دو اہم ممالک یعنی پاکستان اور بھارت کو دیا ہے ضروری ہے کہ پاکستان اس پر بھی ایک مخلص دوست کی طرف سے ایک مخلص مشورے کی حیثیت سے غور کرے۔ چین کی طرف سے اگر جنوبی ایشیا میں محاذ آرائی کی بجائے تعاون جنگ کی جگہ امن دشمنی کے مقابلے میں دوستی اور کشیدگی ختم کر کے معمول کے حالات پیدا کرنے پر زور دیا جا رہا ہے تو اس ضمن میں پاکستان اور پاکستانیوں کی یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ چین کی طرف سے یہ مشورہ نہ تو پاک چین دوستی کی روح کے منافی ہے اور نہ پاکستان کے بنیادی مفادات کے خلاف ہے بلکہ جیسا کہ چینی حکام اور میڈیا بارہا کہہ چکے ہیں کہ امن تعاون اور استحکام سے نہ صرف دونوں ملکوں بلکہ پورے خطے کو فائدہ پہنچے گا چین کی اس سوچ اور پالیسی کا پس منظر کیا ہے؟ اس ضمن میں سب سے پہلے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ موجودہ اور 1970-60 ء کی دہائیوں کے چین میں بہت فرق ہے۔ آج سے پچاس ساٹھ برس پہلے چین ایک پسماندہ ملک تھا۔ بین الاقوامی سیاسی اور معاشی نظام پر دو سپر پاورز یعنی روس اور امریکہ کی اجارہ داری تھی۔ دنیا پر بالادستی قائم کرنے کے لیے یہ دونوں سپر پاورز آپس میں حریف تھیں لیکن چین کی مخالفت میں ایک دوسرے کے حلیف تھیں امریکہ کی سرکردگی میں صنعتی طور پر ترقی یافتہ مغربی ممالک نے چین کا تجارتی اور اقتصادی بائیکاٹ کر رکھا تھا۔ مشرق بعید اور جنوب مشرقی ایشیا میں درجنوں فوجی اڈوں پر جدید ترین اور ایٹمی ہتھیاروں سے امریکی افواج چند منٹ کے نوٹس پر چین پر حملہ کرنے کے لیے تیار تھیں۔ سب سے سنگین اشتعال انگیزی ویت نام کی جنگ تھی جس میں پانچ لاکھ سے زائد فوج امریکہ نے جھونک رکھی تھی۔ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہونے کے باوجود چین باقی ماندہ دنیا خصوصاً ترقی یافتہ ممالک سے کٹا ہوا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد تشکیل پانے والے عالمی مالیاتی نظام جن کی نمائندگی ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کرتے ہیں کے ساتھ چین کا کوئی سروکار نہ تھا لیکن یہ صورتحال زیادہ دیر تک جاری نہ رہ سکی۔ چین کے نئے لیڈر چن یائو پنگ نے ملک کے دروازے دنیا کے لیے کھول دیئے نہ صرف چینیوں کو دنیا کے حالات سے واقفیت حاصل کرنے کا موقع ملا بلکہ باہر کی دنیا خصوصا لاکھوں اوورسیز چینیوں کو مین لینڈ چائنا آنے اور یہاں سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب ملی، بس یہاں سے وہ سفر شروع ہوتا ہے کہ جسے طے کر کے چین آج دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت بن چکا ہے۔ چین ایک موجودہ عالمی اقتصادی نظام کا مخالف نہیں رہا بلکہ اس کا ایک اہم حصہ ہے چین اس نظام کو منصفانہ بنانے کے لیے اس میں اصلاحات کا حامی ہے لیکن اسے عدم استحکام سے دوچار نہیں کرنا چاہتا کیوں کہ اب وہ خود اس کا ایک اہم سٹیک ہولڈر ہے اور اس سے اپنی وابستگی کو جاری رکھنا چاہتا ہے کیونکہ قومی ترقی کے لیے اس نے اس راہ کا انتخاب کیا ہے۔ اسی کی ایک نمایاں مثال جنوب مشرق ایشیائی ممالک کی علاقائی تعاون کی تنظیم آسیان(Asean)کو پیش کیا جا سکتا ہے 1967ء میں جب اس تنظیم کو رکن ممالک کے مابین تجارت اور اقتصادی تعاون کو فروغ دینے کے لیے قائم کیا گیا تھا تو چین نے اس کی مذمت کرتے ہوئے اسے سامراجی طاقتوں کا آلہ کار قرار دیا تھا۔ آج چین اس تنظیم کا نہ صرف ڈائیلاگ رکن بلکہ اس کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔
1962ء کی چین بھارت سرحدی جنگ اور امریکہ، پاکستان تعلقات میں سرد مہری نے دراصل پاک چین دوستی کی بنیاد رکھی جو وقت گزرنے کے ساتھ مضبوط سے مضبوط تر چلی آ رہی ہے لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ چین جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک بشمول بھارت کے ساتھ قریبی اور دوستانہ تعلقات کے قیام میں دلچسپی نہیں رکھتا بلکہ اس کے برعکس حالیہ برسوں میں بھارت کے ساتھ ساتھ جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک مثلاً نیپال بنگلہ دیش اور سری لنکا کے ساتھ بھی چین نے گہرے دو طرفہ تعلقات قائم کررکھے ہیں۔ بھارت کے ساتھ چین کی دو طرفہ تجارت کا حجم70ارب ڈالر کے قریب ہے۔ نیپال کے ساتھ تجارت اور اقتصادی تعاون کو بڑھانے کے لیے چین تبت اور نیپال کے درمیان ایسے نئے ریل روڈ رابطے تعمیر کر رہا ہے جو سخت سردی اور برف باری کے دنوں میں بھی کھلے ہیں۔ سری لنکا میں چین کولمبو کے قریب ایک نئی بندرگاہ اور اہم شاہراہوں کی تعمیر میں تکنیکی اور مالی امداد فراہم کر رہا ہے۔ بھارت کے ناک بھوں چڑانے کے باوجود بنگلہ دیش اور چین کے درمیان دو طرفہ تجارتی اور اقتصادی تعلقات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسی ماہ چینی صدر ژی بنگلہ دیش کا سرکاری دورہ کرنے والے ہیں جو تیس برس میں کسی چینی صدر کا پہلا سرکاری دورہ ہو گا۔ بنگلہ دیشی ذرائع کے مطابق صدر ژی اپنے دورہ کے دوران میں بنگلہ دیش میں 40ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے منصوبوں کا اعلان کریں گے۔ چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور جس کے تحت پاکستان کے راستے گوادر اور کاشغر کو ملانے کے لیے ریلوے لائنوں اور سڑکوں کا ایک جال بچھایا جائے گا اور ان کمے ساتھ ساتھ صنعتی زون قائم کئے جائیں گے۔ یہ ملک سے باہر چین کا سب سے بڑا سرمایہ کاری کا منصوبہ ہے۔ بنیادی طور پر اگرچہ یہ پاکستان اور چین کے درمیان ایک دو طرفہ معاہدہ ہے۔ لیکن اس کے علاقائی بلکہ عالمی پہلو بھی ہیں۔ اس کے ثمرات سے جنوبی ایشیا اوروسط ایشیائی ممالک کے علاوہ مغربی ایشیا بلکہ شمالی افریقہ کے ممالک بھی مستفید ہو سکتے ہیں۔ یہ سب کچھ صرف امن کے حالات میں ہی ممکن ہے اور دنیا کے ان حصوں میں امن کو لاحق پا ک بھارت تصادم سے بڑھ کرکوئی خطرہ نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف چین بلکہ پوری دنیا کو تشویش پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پر ہے حالانکہ کشمیر میں عوامی احتجاج چوتھے ماہ میں داخل ہو چکا ہے اور بھارتی افواج کی فائرنگ سے 110سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں مگر بھارت اور پاکستان میں انتہا پسندوں نے اسے دو ملکوں کی لڑائی میں تبدیل کر دیا ہے جس کے امکان کو روکنا عالمی برادری کی نظر میں اس لیے اولین ترجیح ہے کیونکہ دونوں ممالک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ چینی عہدے دار کی طرف سے پاکستان اور بھارت کو کشیدگی کم کرنے کا مشورہ اس تناظر میں دیکھنا چاہیے۔