اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ تقریباً چھ ماہ سے پاکستان کے سیاسی افق پر پاناما لیکس کا مسئلہ چھایا رہا ہے۔ کاروباری سرمایہ کو ظاہر نہ کرنے اور ٹیکس بچانے کے لیے آف شور کمپنیوں کی تشکیل سے متعلق دنیا کے اس میگا سکینڈل میں اگرچہ وزیر اعظم محمد نواز شریف کا براہ راست نام نہیں آیا‘ تاہم ان کے بچوں کا تعلق سامنے آیا ہے۔ ان کے ایک صاحب زادے حسین نواز نے تو نہ صرف ان کمپنیوں میں حصہ دار ہونے بلکہ لندن میں مہنگے فلیٹ کی ملکیت کا بھی اعتراف کیا ہے۔ اس لحاظ سے وزیر اعظم پر اخلاقی اور ان کے بچوں پر قانونی طور پر لازمی تھا کہ وہ بتاتے کہ لندن میں پراپرٹی خریدنے اور آف شور کمپنیوں میں لگانے کے لیے سرمایہ کہاں سے اور کس طریقے سے حاصل کیا گیا۔
اگر یہ مسئلہ خالصتاً ملکی قوانین کے مطابق حل کرنے کی کوشش کی جاتی تو اس میں زیادہ تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ لیکن اسے شروع سے اسی سیاسی انداز سے سیاسی مقصد کے لیے سیاست کی نذر کر دیا گیا، جس کی وجہ سے یہ مسئلہ پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتا گیا، حتیٰ کہ سپریم کورٹ بھی متعدد پیشیوں کے بعد اس پر حتمی فیصلہ صادر کرنے میں ناکام رہی اورمزید تفتیش کے لیے ایک کمیشن کے قیام کی ضرورت محسوس کی ۔لیکن فریقین کے درمیان کمیشن کے قیام پر اختلافات خصوصاً پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے کمیشن کے بائیکاٹ کی دھمکی کے بعد سپریم کورٹ کو یہ مقدمہ جنوری 2017ء تک موخر کرنا پڑا۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد پی ٹی آئی نے دو ماہ سے زائد عرصہ تک پارلیمنٹ سے غیر حاضر رہنے کے بعد قومی اسمبلی میں واپس آنے کا فیصلہ کیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے مطابق یہ فیصلہ قومی اسمبلی میں پاناما لیکس کے مسئلے پر وزیر اعظم نواز شریف کی تقریر پر تحریک استحقاق پیش کرنے کے لیے کیا گیا۔ عمران خان کے دعوے کے مطابق قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کی تقریر اور سپریم کورٹ میں دیے گئے ان کے بیان میں تضاد ہے اور اس طرح قومی اسمبلی میں غلط بیانی کر کے وزیر اعظم نے ایوان کے معزز ارکان کے استحقاق کو مجروح کیا ہے۔14دسمبر کو استحقاق کی تحریک سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے مسترد کیے جانے کے بعد پی ٹی آئی کی طرف سے اتنا سخت احتجاج کیا گیا کہ ایوان کی کارروائی کو جاری رکھنا ممکن نہ رہا اور سپیکر کو مجبوراً اجلاس ملتوی کرنا پڑا۔ اس سے اگلے دن بھی قومی اسمبلی کا اجلاس ہنگامے کی نذر ہو گیا۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ پی ٹی آئی قومی اسمبلی کے سیشن کو معمول کے مطابق چلنے کی اجازت نہیں دے گی۔ اگرچہ دیگر اپوزیشن جماعتوں مثلاً پیپلز پارٹی نے اسمبلی کے اندر پی ٹی آئی کے احتجاج میں شرکت نہیں کی لیکن اسمبلی میں تیسری بڑی جماعت ہونے کی حیثیت سے پی ٹی آئی اس پوزیشن میں ہے کہ وہ اجلاس کو معمول کے مطابق نہ چلنے دے۔ عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ جب تک وزیر اعظم ایوان میں آ کر اپنے بیانات کے درمیان تضادات کی وضاحت نہیں کرتے وہ اسمبلی کو نہیں چلنے دیں گے۔ جن لوگوں نے گزشتہ ڈھائی سال کے عرصہ میں پی ٹی آئی اور عمران خان کی سیاست کو قریب سے دیکھا ہے۔ انہیں پی ٹی آئی کے سربراہ کے اس بیان پر ذرہ بھر بھی حیرت نہیں ہو گی‘ اس لیے کہ یہ بیان اس سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے جسے عمران خان نے اگست2014ء سے اپنا رکھا ہے اور جس کو بروئے کار لانے کے لیے اس نے مختلف طریقے آزمائے۔ اس حکمت عملی کا مقصد وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کو اس حد تک مفلوج کرنا ہے کہ وہ یا تو خود مجبور ہو کر مستعفی ہوجائیں یا انہیں طاقت ور حلقے مستعفی ہونے پر مجبور کر دیں۔2014ء میں 126دن تک دھرنا دینے کا مقصد بھی یہی تھا، جسے عمران خاں حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ اس کے بعد ''دھرنے‘‘ کو دیگر شہروں میں منتقل کر کے اور روز مرہ زندگی کے معمولات اور کاروبار کو معطل کر کے یہی مقصد حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس دوران عمران خان متواتر بیانات دیتے رہے کہ وہ نواز شریف اور ان کی حکومت کو جائز تسلیم نہیں کرتے۔ حالانکہ دھاندلیوں کی تحقیقات کرنے والے سپریم کورٹ کے کمیشن نے عدم ثبوت کی بنیاد پر عمران خان کے الزامات کو مسترد کر دیا تھا لیکن مسئلہ چونکہ قانونی نہیں بلکہ سیاسی تھا۔ اس لیے عمران خان اور ان کی پارٹی کے رہنما اپنی تقریروں میں موجودہ حکومت کو دھاندلی کی پیداوار اور ناجائز قرار دیتے ہیں۔ پاناما لیکس کا مسئلہ بھی بنیادی طور پر ایک سیاسی مسئلہ ہے، اور کسی بھی فیصلے سے قطع نظر یہ اس وقت تک زندہ رہے گا جب تک فریقین کو اس سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی امید رہے گی۔ عمران خان کے لیے یہ سیاسی فائدہ موجودہ حکومت کا خاتمہ یا کم از کم وزیر اعظم نواز شریف کا استعفیٰ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2نومبر کو اسلام آباد کو بلاک کرنے کے موقعہ پر ان کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ ''نواز شریف استعفیٰ دو‘‘ حالانکہ وہ پاناما لیکس میں وزیر اعظم نواز شریف کے جرم کو ثابت کرنے کے لیے کمیشن کے قیام کا مطالبہ کر چکے تھے۔ حکومت بھی ایک تحقیقاتی کمیشن کے قیام پر راضی تھی۔ تاہم کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس پر دونوں پارٹیوں میں
سمجھوتہ نہ ہو سکا۔ اس موقع پر حکومت ایک طرف اور پوری اپوزیشن دوسری طرف کھڑی تھی۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسے مواقع کم ہی دیکھنے میں آئے ہیں جب کسی مسئلہ پر اپوزیشن پارٹیوں نے حکومت کے مقابلے میں اتحاد کا مظاہرہ کیا ہو۔ غالب گمان یہ تھا کہ متحدہ اپوزیشن کے دبائو کے تحت یا تو حکومت ٹی او آرز کے مسئلے پر اپنے سخت رویے میں لچک دکھانے پر مجبور ہو جائے گی‘ یا پھر اسے تمام اپوزیشن پارٹیوں جن میں پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی پہلی مرتبہ ایک پلیٹ فارم پر کھڑی نظر آ رہی تھیں‘ کی طرف سے سخت ردِعمل کا سامنا کرنا پڑے گا، جو کہ قومی اسمبلی کے بائیکاٹ کی صورت میں بھی ہو سکتا تھا۔ لیکن ستمبر میں عمران خان نے دیگر اپوزیشن پارٹیوں کو اعتماد میں لیے بغیر حکومت کے خلاف اچانک تحریک چلانے کا اعلان کر دیا، جس میں 30ستمبر کو رائے ونڈ میں وزیر اعظم کی ذاتی رہائش گاہ سے صرف ایک کلو میٹر کے فاصلے پر جلسہ عام کا انعقاد شامل تھا۔ اس جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے عمران خاں نے اعلان کیا تھا کہ اگر پاناما لیکس کسی پر کوئی پیش رفت نہ ہوئی تو محرم کے بعد ن لیگ کی حکومت کو کام نہیں کرنے دیا جائے گا۔ دیگر اپوزیشن پارٹیوں بلکہ طاہر القادری کی عوامی تحریک اور چودھری برادران کی ق لیگ کی عدم شرکت کے باوجود عمران خاں نے ایک بڑے جلسے کا انعقاد کر کے یہ تو ثابت کر دیا کہ وہ اب بھی ایک بہت بڑے کرائوڈ پلر(Crowd puller)ہیں لیکن انہوں نے اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد کو بھاری نقصان پہنچا کر ایک ایسا موقع گنوا دیا ‘ جو شاید حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتا۔ تاہم رائے ونڈ میں اپنی کال پر لوگوں کے ایک بہت بڑے اجتماع سے حوصلہ پا کر عمران خان نے
27اکتوبر سے راولپنڈی اور اسلام آبادمیں احتجاجی جلسوں اور اسلام آباد کی ناکہ بندی کا اعلان کر دیا۔ اس فیصلے میں بھی عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید احمد کے سوا نہ تو کوئی اہم سیاسی شخصیت اور نہ کوئی سیاسی پارٹی شامل تھی۔ حتیٰ کہ خیبر پختونخوا کی صوبائی مخلوط حکومت میں شامل جماعت اسلامی بھی اس معرکے میں عمران خان کی ہمرکاب نہیں تھی۔ اس کا نتیجہ وہی ہوا جو عام طور پر سولو فلائٹ والوں کا ہوتا ہے۔2نومبر کی ڈیڈ لائن سے ایک دن پہلے عمران خان نے دھرنے اور اسلام آباد کو بلاک کرنے کے پروگرام کو منسوخ کر دیا۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ چونکہ سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس میں حکومت سے جواب طلبی کا فیصلہ کیا ہے اس لیے اب ہمیں دھرنے کی ضرورت نہیں۔ عمران خان کو یقین تھا کہ سپریم کورٹ میں فیصلہ نہ صرف جلدی بلکہ نواز شریف کے خلاف ہو گا۔ لیکن یہ توقع پوری نہ ہوئی اور کیس کی سماعت کے لیے چیف جسٹس کے عہدہ سنبھالنے اور نئے بنچ کی تشکیل تک موخر کر دی گئی۔ ان پے درپے ناکامیوں کی بناء پر پی ٹی آئی کا قومی اسمبلی میں رویہ قابل فہم ہے۔ عمران خان کا اصل ہدف یہ ہے کہ وہ وزیر اعظم کی حکومت کو مفلوج کر کے ناکام ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے انہوں نے لانگ مارچ کیا‘ سول نافرمانی کی کال دی‘ چار ماہ تک دھرنا دیا اور شہروں کو بلاک کیا۔ لیکن ناکام رہے۔ اس کی صرف ایک وجہ ہے ہدف حقیقت پسندانہ نہیں تھا۔ اسے بغیر سوچے سمجھے متعین کیا گیا تھا۔ اب بھی پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی میں جو رویہ اپنایا ہے وہ ایک سوچی سمجھی‘ طویل المیعاد اور جامع حکمت عملی پرمبنی نظر نہیں آتا۔ پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں جو کچھ کر رہی ہے‘ اس سے اخبارات کی شہ سرخیاں تو بن سکتی ہیں اور ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز کے لیے گرما گرم موضوع تو مہیا ہو سکتا ہے لیکن حکومت لرزہ براندام نہیں ہو گی، کیونکہ یہ ایک منتخب جمہوری اور آئینی حکومت ہے۔