اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے واشنگٹن میں ایک ٹی وی انٹرویو میں امریکہ پر زور دیا ہے کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے تنازعہ پر موجودہ تعطل کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ اس قسم کا کردار ادا کرنے میں بہترین پوزیشن کا حامل ہے ۔ کیونکہ امریکہ اور بھارت کے درمیان گزشتہ چند برسوں سے گہرے اور قریبی تعلقات چلے آ رہے ہیں۔ ان تعلقات کی روشنی میں امریکہ بھارت پر اپنے اثرو رسوخ کو استعمال کر سکتا ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان اور بین الاقوامی برادری کے دیگر رکن ممالک کی طرح امریکہ بھی کشمیر کی موجودہ صورت حال کو جنوبی ایشیا کے امن کے لیے خطرناک سمجھتا ہے اس مسئلے پر امریکہ کی طرف سے اب تک جو بیانات جاری کئے گئے ہیں ان سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو تشویش کی نظر سے دیکھتا ہے۔ چنانچہ صورت حال اسی امر کی پوری طرح متقاضی ہے کہ امریکہ اس کشیدگی کو ختم کرنے کے اپنا کردار ادا کرے۔لیکن جیسا کہ ڈاکٹر صاحب نے بالکل درست کہا یہ کردار متوازن ہونا چاہیے اس کا مقصد فائر بریگیڈ کی طرح آگ بجھانا نہیں ہونا چاہیے بلکہ امریکہ کو چاہیے کہ وہ بھارت کو بھارت کے ساتھ کشمیر کے مسئلہ پر ٹھوس ‘ پر معنی اور نتیجہ خیز مذاکرات پر آمادہ کرے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے کہا ہے کہ ماضی قریب میں امریکہ کی جنوبی ایشیا میں پالیسی متوازن نہیں رہی بلکہ واضح طور پر اس کا جھکائو بھارت کی طرف رہا ہے ثبوت کے طور پر انہوں نے امریکہ اور بھارت کے درمیان سول نیوکلیئر معاہدہ کی مثال دی ہے۔ اس معاہدہ کے تحت امریکہ نے بھارت کی طرف سے ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلائو کو روکنے کے لیے عالمی معاہدہ (N,P,T)کی خلاف ورزی کرنے کے باوجود ایٹمی پروگرام نہ صرف جاری رکھنے کی اجازت دی ہے بلکہ اسے مزید ایٹمی ٹیکنالوجی اور ایٹمی ایندھن کے حصول کے لیے نیو کلیئر سپلائرز گروپ(N S G) کا رکن بنانے کی بھی کوشش کی ہے۔ پاکستان کی طرف سے اس قسم کے سول نیو کلیئر معاہدہ کا مطالبہ کرنے کے باوجود امریکہ نے ابھی تک ہامی نہیں بھری۔ حالانکہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف عالمی اتحاد کا ایک اہم رکن ہے اور افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کو رسد پہنچانے میں اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ نے پاکستان کو نان اتحاد ملک کا مقام بھی دے رکھا ہے۔
دوسرا اہم نکتہ جس کی طرف ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے واضح اشارہ کیا ہے یہ ہے کہ امریکہ کی طرف سے پاک بھارت تنازعات میں مداخلت کا مقصد محض بھڑکتی ہوئی آگ کے شعلے ٹھنڈے کرنا نہیں ہونا چاہیے بلکہ دونوں ملکوں کے درمیان تنازعہ کی جڑ یعنی مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے مذاکرات کی کوشش کرنا چاہیے۔ پاک بھارت کشیدگ شروع سے ہی عالمی برادری بلکہ امریکہ روس چین برطانیہ اور یورپی یونین کے لیے وجہ تشویش رہی ہے۔ کیونکہ اس کے نتیجے میں دونوں ممالک میں تصادم ہو سکتا ہے اور چونکہ دونوں ممالک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں اس لیے بین الاقوامی سطح پر یہ خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہ تصادم پاک بھارت ایٹمی جنگ میں بھی تبدیل ہو سکتا ہے ایسی صورت میں جنوبی ایشیا ہی نہیں بلکہ پوری دنیا ایک ایٹمی جنگ کی لپیٹ میں آ سکتی ہے اس لیے عالمی برادری اور خصوصاً اس سے اہم رکن ممالک کی جانب سے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم کرنے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ ان کوششوں کی سب سے زیادہ نمایاں مثال2004میں شروع ہونے والے پاک بھارت امن مذاکرات کا سلسلہ ہے۔ اگرچہ یہ سلسلہ اس وقت کافی عرصہ سے تعطل کا شکار چلا آ رہا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ امن مذاکرات کے اس سطح کے تحت دونوں ملکوں کے حکام کے درمیان مختلف مسائل پر جو مذاکرات ہوئے ان کے نتیجے میں نہ صرف پالیسی کشیدگی میں کمی
واقع ہوئی بلکہ تجارت آمدو رفت ثقافت اور کھیلوں کے شعبوں میں تعلقات اور تعاون میں بھی اضافہ ہوا گزشتہ تقریباً پانچ برسوں سے پاکستان اور بھارت کے درمیان جو کشیدگی چلی آ رہی ہے اسے کم کرنے میں مدد دینے کے لیے بھی امریکہ نے متعدد بار پیش کش کی ہے۔ تازہ ترین مثال اقوام متحدہ میں امریکی سفیر کا وہ بیان ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ امریکہ دونوں ملکوں کے درمیان مصالحت کروانے کے لیے تیار ہے تاکہ اس وقت جو کشیدگی موجود ہے اس میں مزید اضافہ نہ ہو۔ پاکستان کی طرف سے اس پیش کش کا خیر مقدم کیا گیا تھا لیکن بھارت نے اسے مسترد کر دیا تھا لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات طے کرنے میں مدد فراہم کرنے کے لیے عالمی برادری کا کوئی کردار باقی نہیں رہا۔ بلکہ اس کے برعکس کشیدگی موجودہ صورت حال کے پیش نظر بین الاقوامی برادری کی طرف سے مداخلت اور خصوصاً امریکی کردار کی اور بھی اہمیت بڑھ گئی ہے گزشتہ برس جولائی سے کشمیر کے حالات سخت کشیدہ چلے آ رہے ہیں کشمیری عوام نے اپنی جدوجہد آزادی تیز کر دی ہے اور اسے دبانے کے لیے قابض بھارتی فوجوں نے نہتے اور پرامن کشمیریوں کے جلسوں اور جلوسوں پر گولیاں برسانے کا عمل تیز کر دیا ہے۔ لیکن طاقت کے اس بے دریغ استعمال سے کشمیری عوام کے حوصلے پست نہیں ہوئے بلکہ ان کی جدوجہد میں اور بھی تیزی آئی ہے۔ بین الاقوامی مبصرین کی بھی یہ متفقہ رائے ہے کہ کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکل رہا ہے کیونکہ طاقت کے استعمال سے وہ صورت حال کو قابو میں نہیں لا سکا ۔ اس صورت حال کے پیش نظر کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے بین الاقوامی مداخلت کی ضرورت پر
زور دیا جا رہا ہے ریاست جموں و کشمیر کے ایک سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ نے بھی اپنے ایک حالیہ بیان میں امریکہ پر زور دیا ہے کہ وہ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے مداخلت کرے کیونکہ کسی تیسرے فریق کی ثالثی کے بغیر یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ اور امریکہ‘ بھارت کا ایک قریبی ساتھ ہونے کی وجہ سے اس پوزیشن میں ہے کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے مسئلے کو حل کروانے کے لیے ایک موثر کردار ادا کرے۔ اس سلسلے میں انہیں سندھ طاس معاہدے کی بھی مثال دی اور کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان دریائے سندھ اور اس کے معاون دریائوں کے پانی کی تقسیم کا جھگڑا بھی امریکی مدد سے عالمی بنک کے ذریعہ حل ہوا تھا۔ اسی طرح امریکہ اگر چاہے تو کشمیر کا مسئلہ بھی حل کروا سکتا ہے۔ کیونکہ امریکہ کے پاکستان اور بھارت دونوں سے قریبی تعلقات ہیںاور اس کی بناء پر وہ بھارت پر اپنا اثرو رسوخ استعمال کر سکتا ہے۔ پاک بھارت تنازعات خصوصاً کشمیر کے مسئلے کو حل کروانے میں امریکی مداخلت کے حق میں مزید دلائل بھی پیش کئے جا سکتے ہیں۔ مثلاً ماضی کا تجربہ بتاتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اہم تنازعات کبھی دو طرفہ بنیادوں پر حل نہیں ہوئے۔ اس سلسلے میں سندھ طاس معاہدہ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔جہاں تک کشمیر کا تعلق ہے اسے حل کرنے کے لیے پاکستان اور بھارت کے درمیان دو طرفہ بنیادوں پر مذاکرات کی صورت میں متعدد بار کوششیں کی گئی لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ اس کا ثبوت2004سے جاری پاک بھارت مذاکرات امن کی صورت میں موجود ہے جسے کمپوزٹ ڈایا لاگ بھی کہا جاتا ہے اس کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے باقی شعبوں میں بہتری آئی ہے لیکن تنازعات مثلا کشمیر کے سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ کشمیر کے مسئلے پر دونوں ملکوں کے درمیان ایک مکمل ڈیڈ لاکھ ہے۔ اس ڈیڈ لاک کو ختم کرنے کے لیے پاکستان نے بارہا بھارت کو بامعنی اور نتیجہ خیز مذاکرات کی دعوت دی ہے لیکن بھارت کی جانب سے اس دعوت کا جواب ہمیشہ نفی کی صورت میں آیا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ امریکہ جس کے جنوبی ایشیا میں امن اور استحکام سے بہت سے مفادات منسلک ہیں۔ مداخلت کرے اور اس دیرینہ مسئلے کو حل کرنے میں مدد فراہم کرے۔