24 جنوری کو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ایک اور ڈرون حملہ کیا گیا۔ ابتدائی اطلاعات‘ جو مقامی انتظامیہ کے معتبر ذرائع کے حوالے سے پاکستانی پرنٹ میڈیا میں شائع ہوئیں‘ کے مطابق یہ حملہ افغانستان سے ملنے والی پاکستانی سرحد سے اس طرف تقریباً 50 کلومیٹر پر واقع ایک مقام پر اورک زئی ایجنسی میں کیا گیا۔ اس حملے میں دو راکٹ داغے گئے اور نشانہ ایک مکان تھا۔ حملے میں مکان مکمل طور پر تباہ ہو گیا اور اس میں موجود جنگجوئوں کے دو کمانڈر‘ جن کا تعلق حقانی نیٹ ورک سے تھا‘ ہلاک ہو گئے۔ بعد میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک پریس کانفرنس میں اس بات کا تو اعتراف کیا کہ یہ حملہ پاکستانی علاقے میں کیا گیا تھا‘ لیکن کہا کہ نشانہ بننے والوں کا تعلق حقانی نیٹ ورک سے نہیں تھا‘ بلکہ دو افغان باشندے تھے‘ جنہوں نے افغان مہاجرین کے ایک کیمپ میں پناہ لے رکھی تھی۔ یہ حملہ کسی مکان پر نہیں تھا بلکہ افغان مہاجرین کے ایک کیمپ کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے نقشے کی مدد سے بھی بتایا کہ جس علاقے میں ڈرون حملہ کیا گیا‘ وہاں افغان مہاجرین کے متعدد کیمپ بھی موجود ہیں‘ جہاں افغانستان سے آ کر دہشت گرد چھپ جاتے ہیں۔ یہ حملہ انہی دہشت گردوں پر کیا گیا ہے اور اس سے پاکستان کے اس موقف کی تائید ہو جاتی ہے کہ پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کے کیمپوں کو افغانستان سے آنے والے دہشت گرد‘ دہشت گردی کیلئے استعمال کرتے ہیں‘ اسی بنیاد پر پاکستان کی طرف سے عرصے سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ پاکستان میںمقیم 25 لاکھ کے قریب افغان مہاجرین کو واپس ان کے وطن بھیجا جائے‘ کیونکہ موجودہ صورتحال میں ان کے کیمپ پاکستان کیلئے سکیورٹی رسک بن چکے ہیں۔ تازہ ترین ڈرون حملے کے بارے میں اسی قسم کا ایک بیان پاکستانی فارن آفس کی جانب سے بھی جاری کیا گیا‘ جس میں ان اطلاعات کی تردید کی گئی کہ حملے میں حقانی نیٹ ورک کے دو اہم کمانڈرز کو نشانہ بنایا گیا‘ اور دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ حملہ اورکزئی ایجنسی میں واقع افغان مہاجرین کے ایک کیمپ پر کیا گیا اور اس کا نشانہ وہ دہشت گرد تھے‘ جنہوں نے افغانستان سے آ کر یہاں پناہ لے رکھی تھی۔ فارن آفس نے بھی حکومت پاکستان کا یہ مطالبہ دہرایا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے سدباب کیلئے افغان مہاجرین کی واپسی کا انتظام کیا جائے۔
ڈرون حملے کی لوکیشن یا اس سے نشانہ بننے والے افراد کی شناخت پر بحث سے قطع نظر‘ یہ حملہ ہر لحاظ سے باعث تشویش اور قابل مذمت ہے‘ کیونکہ اس سے پاکستان کی آزادی‘ خود مختاری اور علاقائی سلامتی مجروح ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی وزارت خارجہ نے اس پر سخت احتجاج کرتے ہوئے اسے ایک یکطرفہ اور پاکستان کی خود مختاری کے خلاف کارروائی قرار دیا اور امریکہ پر واضح کیا ہے کہ اس حملے سے دونوں ملکوں میں دفاع اور سلامتی کے شعبوں میں جاری تعاون کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔ پہلے ہی دونوں ملکوں کے تعلقات سرد مہری بلکہ کشیدگی کا شکار ہیں‘ جیسا کہ سابق سیکرٹری خارجہ اور امریکہ میں پاکستان کے سفیر اعزاز چوہدری نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے باہمی تعلقات اس وقت دبائو کا شکار ہیں اور اس کی وجہ موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی پاکستان کے بارے میں پالیسی ہے۔ امریکہ کی اس پالیسی کا اعلان صدر ٹرمپ نے اپنی 21 اگست کی تقریر میں کیا تھا۔ اس تقریر میں امریکی صدر نے پاکستان پر افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے جنگجوئوں کو اپنے ہاں پناہ دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے‘ افغانستان کی موجوہ جنگ میں امریکی شکست کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کی‘ اور دھمکی دی تھی کہ پاکستان نے اپنی روش تبدیل نہ کی تو امریکہ پاکستان میں قائم دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے خلاف یکطرفہ کارروائی کرے گا۔ اس کارروائی میں ڈرون حملوں کے دائرے کو وسعت دینا بھی شامل ہو سکتا ہے۔ یکم جنوری کو صدر ٹرمپ نے اپنے ٹویٹ میں پاکستان پر امریکی امداد وصول کرنے کے باوجود افغانستان میں عدم تعاون کا الزام عائد کیا تھا۔ امریکی انتظامیہ کے دیگر اہم اراکین‘ جن میں سیکرٹری ڈیفنس جیمز میٹس بھی شامل ہیں‘ نے پاکستان پر اپنے ہاں افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کرنے پر زور دیا تھا۔ بصورت دیگر پاکستان کو سنگین نتائج کی دھمکی دی تھی۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ نے پاکستان کی فوجی امداد اور کولیشن سپورٹ فنڈ کے تحت ملنے والی رقم کی فراہمی روک دی تھی۔ امریکہ کے ان اقدامات کے بعد خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ پاکستان کے خلاف امریکہ مزید کارروائیاں کرے گا‘ کیونکہ پاکستان نے امریکہ کے دبائو میں آنے سے انکار کر دیا تھا۔ اورکزئی ایجنسی میں کئے گئے ڈرون حملے کو اس سلسلے کی ایک کڑی قرار دیا جا رہا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقتصادی امداد بند کرنے کے بعد امریکہ پاکستان پر عسکری دبائو میں بھی اضافہ کر رہا ہے۔ اور یہ ایک ایسے وقت پر ہو رہا ہے‘ جب اسلام آباد اور واشنگٹن‘ دونوں طرف سے یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ صدر ٹرمپ کی ٹویٹ سے پاکستان اور امریکہ کے درمیان اعتماد کو جو ٹھیس پہنچی ہے‘ اور باہمی تعلقات کو جو نقصان پہنچا ہے‘ اس کی تلافی کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کیلئے دونوں ممالک کے اعلیٰ سیاسی اور عسکری حکام آپس میں رابطے میں ہیں۔ حال ہی میں امریکی ڈپٹی سیکرٹری آف سٹیٹ ایلس ویلس نے پاکستان کا جو دورہ کیا‘ اور اس دورے میں پاکستان کے اعلیٰ حکام سے جو مذاکرات ہوئے تھے‘ انہیں بھی پاک امریکہ تعلقات میں پیدا ہونے والی کشیدگی کو کم کرنے کی کوششوں کا حصہ قرار دیا جا رہا تھا۔ پاکستان میں اپنے قیام کے دوران ایلس ویلس نے خود کہا تھا کہ پاکستان کا دشمن امریکہ کا دشمن ہے اور امریکہ پاکستان کے ساتھ مل کر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے پر تیار ہے۔ واشنگٹن میں بھی امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ ریکس ٹلرسن نے ایک بیان میں کہا کہ امریکی امداد کی بندش کا مقصد پاکستان کو سزا دینا نہیں بلکہ اس کے ذریعے پاکستان کو سبق سکھانا مطلوب ہے۔ امریکی حکام کی طرف سے بار بار کہا جا رہا تھا کہ امریکہ افغانستان کی جنگ میں اب بھی پاکستان کے تعاون کا خواہاں ہے اور اس مقصد کیلئے دونوں ممالک کے اعلیٰ حکام آپس میں رابطے میں ہیں۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی ڈیووس جانے سے ایک روز قبل اسلام آباد میں اخباری نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان اعلیٰ سطح کے رابطے جاری ہیں‘ اور اس سلسلے میں صرف امریکہ سے ہی وفود پاکستان نہیں آئے بلکہ پاکستان سے بھی اعلیٰ حکام پر مشتمل وفود نے امریکہ کا دورہ کیا ہے۔ بین الاقوامی برادری کی طرف سے بھی پاکستان اور امریکہ پر باہمی تعاون پر مبنی پالیسی اختیار کرنے پر زور دیا جا رہا ہے‘ کیونکہ افغانستان میں امن اور مصالحت کے عمل کی کامیابی میں پاکستان ایک کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس کے باوجود اگر ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کے اندر دور تک ڈرون حملوں سے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بناتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے پاکستان کے خلاف دھمکیوں پر عملدرآمد کا آغاز کر دیا ہے۔ جہاں تک حکومتِ پاکستان کا تعلق ہے‘ وہ اس ضمن میں کوئی جوابی کارروائی کرنے سے قاصر ہے۔ اس کا یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ حالیہ دنوں میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان اعلیٰ سطح کے رابطوں میں جو مذاکرات ہوئے‘ ان کا مقصد دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کو ٹرمپ کے ٹویٹ سے پہنچنے والے نقصانات کا ازالہ نہیں تھا‘ بلکہ یہ امریکہ کی طرف سے پاکستان کو امریکہ کی شرائط پر افغانستان میں تعاون کرنے پر آمادہ کرنے کی کوششیں تھیں۔ ان کوششوں میں بظاہر کوئی کامیابی کے آثار نظر نہیں آئے۔ 24 جنوری کو اورکزئی ایجنسی میں ہونے والا ڈرون حملہ اس کا ثبوت ہے‘ بلکہ سابق صدرِ امریکہ بارک اوباما کے دور سے موازنہ کیا جائے تو ٹرمپ کے گزشتہ ایک برس کے دورِ حکومت میں پاکستانی علاقوں پر ڈرون حملوں کی شرح زیادہ ہے۔ اس سے آنے والے دنوں میں پاک امریکہ تعلقات کی نوعیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے‘ جو غالباً کشیدگی کا شکار رہیں گے۔ دونوں ملکوں کیلئے ان تعلقات کی اہمیت کے پیش نظر سیاسی فہم و فراست اور سفارتی کوششوں کی ضرورت ہے‘ جو بدقسمتی سے ابھی نظر نہیں آ رہیں۔