موجودہ اسمبلیوں کی آئینی مدت پوری ہونے میں محض چند دن باقی ہیں۔ ان کی تحلیل کے ساتھ ہی صوبائی حکومتیں اور مرکز میں وزیراعظم جناب شاہد خاقان عباسی کی حکومت تقریباً 10 ماہ اقتدار میں رہ کر ختم ہو جائیں گی۔ وزیراعظم عباسی‘ سابق وزیراعظم جناب نواز شریف کی نا اہلی اور استعفے کے بعد اس عہدے پر منتخب ہوئے تھے۔ اب جبکہ ان کا دور اختتام پذیر ہونے والا ہے۔ جانے والی حکومت کی کارکردگی کا ایک سرسری جائزہ لینا دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا۔ ان کے اپنے ایک بیان کے مطابق عباسی صاحب نہ تو وزارت عظمیٰ کے خواہشمند تھے اور نہ ہی انہوں نے یہ عہدہ حاصل کرنے کیلئے ہاتھ پائوں مارے۔ ان کا وزیراعظم بننا ایک حادثے کی پیداوار کہا جا سکتا ہے۔ یہ حادثہ 28 جولائی کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی صورت میں نمودار ہوا تھا‘ جس میں میاں نواز شریف کو اقامہ کی بنیاد پر نااہل قرار دے دیا گیا تھا۔ اسی فیصلے کی روشنی میں نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے الگ ہونا پڑا۔ اور ان کی جگہ حکمران پارٹی سے ہی تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی جناب شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم منتخب کر لیا گیا۔ عباسی حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لینے کیلئے اگر انگریزی کے اس مشہور مقولے کا سہارا لیا جائے کہ No News Is Good News تو یہ کہنا پڑے گا کہ جناب شاہد خاقان عباسی ایک کامیاب وزیراعظم ثابت ہوئے ہیں‘ کیونکہ ملک کی گاڑی ‘جس سمت میں اور جس رفتار سے چل رہی تھی وہ ڈرائیور کی تبدیلی کے باوجود اسی رفتار سے اور اسی سمت میں چلتی رہی۔ اس لحاظ سے جناب شاہد خاقان عباسی کی حکومت کو سابق وزیراعظم نواز شریف کی حکومت اور اس کی پالیسیوں کا تسلسل کہاجا سکتا ہے۔ انہوں نے ایک انتہائی نازک موقعہ پر اقتدار سنبھالا تھا۔ سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف مبینہ کرپشن کے الزام میں مقدمات کا آغاز ہو چکا تھا۔ سول‘ ملٹری تعلقات میں کشیدگی تھی اور ملک کی مشرقی اور مغربی سرحدوں پر خطرات منڈلا رہے تھے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ چائنہ پاکستان اکنامک کاریڈور اپنا پہلا مرحلہ مکمل کرنے کے بعد دوسرے مرحلے میں داخل ہو رہا تھا۔ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام پر ہمارے چینی دوست بھی پریشان تھے‘ لیکن عباسی صاحب کے وزیراعظم بننے کے بعد سی پیک پر کام حسب ِمعمول اور تسلی بخش طریقے سے جاری رہا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ نئے وزیراعظم نے اپنی ٹیم ‘یعنی کابینہ میں کوئی بڑے پیمانے پر رد و بدل کرنے سے احتراز کیا۔ بلکہ سی پیک کی تعمیر پر عملدرآمد کی ذمہ داری جناب احسن اقبال کو سونپ دی۔ ان کے پاس وزارت داخلہ کا قلمدان بھی تھا‘ لیکن چونکہ وہ ایک عرصہ سے اسی منصوبے سے منسلک تھے اور اس کے تمام پہلوئوں سے واقف تھے۔ اسی لئے نئے وزیراعظم کی جانب سے جناب احسن اقبال کو سی پیک سے بدستور منسلک رکھنے کا اقدام ایک خوش آئند اور مفید فیصلہ تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جناب شاہد خاقان عباسی کے دور میں سول ملٹری تعلقات کسی قسم کی کشیدگی یا محاذ آرائی سے پاک رہے‘ بلکہ سول عسکری قیادت صحیح معنوں میں ایک پیج پر نظر آئی۔ اہم بیرونی دوروں کے دوران میں وزیراعظم اور چیف آف آرمی سٹاف کا ایک ساتھ جانا ‘ اسی کا ثبوت ہے‘ لیکن اس ''تعاون‘‘ کیلئے سول حکومت کو بڑی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ اس کی مثال دسمبر 2017ء میں فیض آباد میں ایک مذہبی جماعت کی طرف سے دیئے گئے دھرنے کی دی جا سکتی ہے‘ جسے ختم کرانے میں حکومت کی ناکامی کے بعد فوج کو مداخلت کرنا پڑی اور ایسی شرائط پر یہ دھرنا ختم ہوا‘ جو واضح طور پر حکومت کی بے بسی کا مظہر تھیں۔ اسی طرح حکومت کو تازہ بجٹ میں دفاعی اخراجات میں تقریباً 20 فیصد اضافہ اور پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام میں کمی کر کے متعدد حلقوں کی طرف سے نکتہ چینی کا سامنا کرنا پڑا۔ خارجہ پالیسی کے شعبے میں بھی عباسی حکومت نے کوئی بڑا اور جرأت مندانہ قدم نہیں اٹھایا‘ بلکہ حالات کو جوں کا توں رکھنے میں ہی خیریت جانی۔ حالانکہ افغانستان میں قیام امن کیلئے چین نمایاں کردار ادا کر رہا تھا اور اس کی خواہش تھی کہ پاکستان بھی ان کوششوں میں کردار ادا کرے‘ لیکن صاف معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کے اندرونی‘ سیاسی حالات اور خاص طور پر وزیراعظم کی پارٹی کو جو مشکلات در پیش ہیں‘ ان کی وجہ سے حکومت خارجہ پالیسی کے شعبہ میں کوئی فعال کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔ اس وقت اگر پاکستان کے خارجہ تعلقات پر ایک سرسری نظر دوڑائیں تو معلوم ہو گا کہ ہماری خارجہ پالیسی کی نہ کوئی اہمیت ہے اور نہ اس کے پیچھے کوئی واضح مقصد کار فرما نظر آتا ہے۔ اندرونی محاذ پر سینیٹ کے انتخابات اور ان کے نتائج کو حکمران پارٹی کے لئے ایک بہت بڑی پسپائی سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ کیونکہ سینیٹ کے چیئر مین اور ڈپٹی چیئر مین کے عہدوں پر شکست سے دو چار ہونے کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) اگر قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کر بھی لے‘ تب بھی وہ سینیٹ سے مطلوبہ تعداد میں ووٹ حاصل کر کے آئین میں ترمیم نہیں کر سکتی۔ اسی طرح نواز شریف کی نا اہلی کے عدالتی فیصلے کو پارلیمنٹ کے ذریعہ کالعدم قرار دینے کا کوئی امکان نہیں آتا۔ لیکن وزیراعظم عباسی کا دور حکومت اپوزیشن کے لئے بھی مایوسی کا باعث ثابت ہوا ہے‘ کیونکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے خلاف سرگرم سیاسی جماعتوں خصوصاً پاکستان تحریک ِانصاف کو قوی امید تھی کہ نواز شریف کی نا اہلی اور وزارت ِعظمیٰ کے عہدے سے علیحدگی کے بعد حکمران جماعت کا شیرازہ بکھرنے میں ذرا بھر بھی تاخیر نہیں ہو گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ مستعفی ہونے کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی کی‘ جس طرح ایک بڑی تعداد نے نواز شریف کو پارٹی کا صدر منتخب کیا‘ اس سے معلوم ہوتا تھا کہ نا اہلی اور استعفے نے نہ صرف نواز شریف کی ہر دلعزیزی میں اضافہ کیا ہے بلکہ اس سے سابق وزیراعظم کو پارٹی پر بھی اپنی گرفت مضبوط کرنے میں مدد حاصل ہوئی ہے۔ نواز شریف کے مخالف حلقوں میں توقع کی جا رہی تھی کہ وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد شاہد خاقان عباسی ‘نواز شریف سے آنکھیں چرا لیں گے۔ کیونکہ دونوں کے بیانیے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا رہا کہ وزیراعظم اپنے پیشرو کے مقابلے میں شہباز شریف اور سابق وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کے زیادہ قریب ہیں‘ لیکن شاہد خاقان عباسی نے نواز شریف سے پرے سرکنے اور چودھری نثار علی خان کے قریب جانے کی کوشش نہیں کی۔ بلکہ پارٹی سے زیادہ انہوں نے نواز شریف سے اپنی وفاداری کا ثبوت دیا۔ انہوں نے برملا کہا کہ وہ اب بھی نواز شریف کو وزیراعظم سمجھتے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی کو وزارت ِعظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد جن چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ہے‘ ان میں گرتی ہوئی برآمدات اور بڑھتی ہوئی درآمدات کی وجہ سے پیدا ہونے والا وسیع تجارتی خسارہ سب سے زیادہ سنگین تھا۔ تمام تر کوششوں کے باوجود ان کی حکومت اسی خسارے کو کم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ لیکن وزیراعظم شاہد خاقان عباسی خوش قسمت ہیں کہ انہیں شہباز شریف جیسا محنتی وزیراعلیٰ اور ساتھی ملا‘ جس نے پنجاب میں ترقیاتی کام میں رکاوٹ نہیں آنے دی۔ حالانکہ نیب کی طرف سے پنجاب کی نوکر شاہی کے سرکردہ اراکین کے خلاف مبینہ کرپشن کے مقدمات کا اندراج صوبے میں جاری ترقیاتی سکیموں کی بروقت تکمیل پر اثر انداز ہو سکتا تھا۔ پنجاب میں گیس اور کوئلے سے چلنے والی بجلی گھروں کی تکمیل نے ملک میں لوڈ شیڈنگ کو کم کرنے میں بہت مدد فراہم کی ہے اور یہ ایک ایسی کامیابی ہے‘ جس پر سبکدوش ہونے والی حکومت فخر کر سکتی ہے اور پارٹی کے لئے آئندہ انتخابات میں عوام کے سامنے اپنی کارکردگی کو ثابت کرنے کیلئے استعمال کر سکتی ہے۔ مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی حکومت کی پالیسیاں اپنے پیشرو کی پالیسیوں کا تسلسل تھیں۔ البتہ انہوں نے اداروں خصوصاً فوج کے ساتھ ٹکرائو سے بچنے کیلئے خصوصی احتیاط کا مظاہرہ کیا ہے۔