امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے چند ایسی بے سروپا اور مضحکہ خیز باتیں کیں کہ 193 اقوام کے نمائندوں پر مشتمل ہائوس قہقہے لگائے بغیر نہ رہ سکا‘ لیکن ایران کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے اس اسلامی جمہوری ملک پر جو الزامات لگائے‘ وہ اتنے لغو اور حقیقت کے برعکس ہیں کہ دنیا کا کوئی بھی ذی شعور شخص ان پر یقین نہیں کر سکتا۔ اس طرح یہ الزامات اس قابل ہی نہیں کہ ان کا جواب دیا جائے۔ اس کے باوجود یہ جاننا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ ایران کیوں امریکہ کے اعصاب پر سوار ہے؟ ڈونلڈ ٹرپ کیوں اپنے ہر بیان میں ایران کو تباہ و برباد کرنے کی دھمکیاں دیتے ہیں؟ 1979ء کے اسلامی انقلاب سے اب تک ایران نے اپنے کسی ہمسایہ ملک کے خلاف جارحیت کا ارتکاب نہیں کیا۔ اس کی فوجیں کبھی اپنی سرحدوں کو پار کر کے کسی دوسرے ملک میں داخل نہیں ہوئیں۔ اس کے برعکس ایران بلا اشتعال بیرونی جارحیت کا شکار رہا ہے۔ اس کی سب سے نمایاں مثال 1979ء میں ایران پر عراق کے سابق صدر صدام حسین کا حملہ اور اس کے نتیجے میں طویل ایران، عراق جنگ ہے۔ امریکی صدر ایران پر مشرق وسطیٰ میں ''دہشت گردی اور تخریب کاری‘‘ کو فروغ دینے کا الزام عائد کرتے ہیں‘ حالانکہ حال ہی میں ایران کے جنوب مغربی حصے میں آہواز کے علاقے میں ایک ملٹری پریڈ پر دہشت گردوں کے حملے میں 29 افراد‘ جن میں 20 فوجی جوان بھی شامل تھے‘ جاں بحق ہو گئے۔
ایک عرصہ سے امریکہ اور اسرائیل، ایران پر مشرق وسطیٰ پر قبضہ کرنے کا الزام عائد کر رہے ہیں‘ اور اپنے اس بے بنیاد دعوے کے حق میں وہ شام، عراق اور یمن کی مثال دیتے ہیں‘ حالانکہ شام میں گزشتہ سات برس سے مسلسل جاری خونریز جنگ کی سب سے زیادہ ذمہ داری امریکہ اور اس کے علاقائی اتحادیوں پر عائد ہوتی ہے‘ جنہوں نے شام کو انارکی کے حوالے کرنے کیلئے ملک کی جائز اور قانونی حکومت کے خلاف ایک باغی فوج تیار کی‘ اسے مالی اور عسکری امداد فراہم کی‘ اور جب یہ کوشش ناکام رہی تو ''داعش‘‘ کے روپ میں انتہا پسند جہادی تنظیم کو شام اور عراق میں تاریخ کی بد ترین جارحیت کو ہوا دینے کے لئے تیار کیا۔ حیرت یہ ہے کہ امریکہ ایران پر عراق پر قبضہ کرنے اور اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا الزام عائد کرتا ہے‘ حالانکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ عراق میں بحران امریکی حملے کی پیداوار ہے۔ اگر عراق میں اب تک مکمل طور پر سیاسی استحکام اور امن کی فضا قائم نہیں ہو سکی تو اس کی سب سے بڑی وجہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی ریشہ دوانیاں ہیں۔ یمن میں مداخلت اور حملے کا جواز تلاش کرنے کیلئے حوثی قبائل کو ایران کی طرف سے مالی اور فوجی امداد کا ڈھونگ رچایا گیا۔ سب سے زیادہ مضحکہ خیز الزام یہ ہے کہ ایران ایٹمی طاقت بننا چاہتا ہے‘ اور اس کے لئے امریکہ ایران پر خفیہ طریقے سے جوہری ہتھیار تیار کرنے کا الزام عائد کرتا ہے‘ حالانکہ یورپی یونین اور اقوام متحدہ کے نمائندے اس امر کی تصدیق کر چکے ہیں کہ ایران تین سال پہلے طے ہونے والے ایٹمی معاہدے کی مکمل طور پر پاسداری کر رہا ہے۔ امریکہ نے خود اس معاہدے پر دستخط کرنے کے باوجود، اسے ختم کیا‘ اور بلا جواز یک طرفہ طور پر ایران کے خلاف اقتصادی پابندیوں کا اعلان کر دیا۔ امریکی صدر کے ایران مخالف بیانات میں تیزی کیوں آ رہی ہے؟ ایران کے خلاف امریکہ کے بے بنیاد الزامات کی فہرست کیوں طویل ہوتی جا رہی ہے؟ امریکی صدر اور اس کے علاقائی اتحادیوں کے لب و لہجے میں ایران کے خلاف اشتعال انگیزی کا عنصر کیوں بڑھ رہا ہے؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایران کے خلاف امریکہ کے کیا عزائم ہیں؟ یہ سوالات اس لئے اہمیت اختیار کرتے جا رہے ہیں کہ مشرق وسطیٰ اور خلیج فارس کے خطے کو مسلسل جنگ اور خلفشار سے دوچار رکھنے کیلئے امریکہ اور اسرائیل کی شام میں کوشش ناکام ہوتی نظر آ رہی ہے اور ایران، ترکی اور روس کے درمیان تعاون اور مفاہمت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ‘ خصوصاً شام کے مسئلے پر ان تینوں ملکوں کا مؤقف ایک جیسا ہے۔ شام میں صدر بشارالاسد کی حکومت ''داعش‘‘ اور امریکہ کی پشت پناہی سے لڑنے والے باغیوں کو شکست دینے میں تقریباً کامیاب ہو چکی ہے۔ یمن میں حملہ آور اتحادی افواج کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بوکھلاہٹ میں شہریوں کو فضائی حملوں کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان حملوں میں سکول جاتے ہوئے بچوں کو بھی نہیں بخشا جاتا۔ اس پر دنیا بھر میں ان کی حرکتوں کی جو مذمت کی گئی ہے‘ اس نے امریکہ اور مشرق وسطیٰ میں اسرائیل جیسے اس کے اتحادیوں کو حواس باختہ کر دیا ہے اور وہ بوکھلاہٹ میں ایران پر دہشت گردی، جارحیت، دوسرے ملکوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے الزام عائد کر رہے ہیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو دراصل ایران، روس اور چین کے درمیان بڑھتے ہوئے تعاون اور مفاہمت نے تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ افغانستان، شام اور مشرق وسطیٰ اور خلیج فارس کے علاقوں میں واقع دیگر اہم مقامات کی سکیورٹی کے بارے میں ان تینوں ملکوں کے موقف میں یکسانیت بڑھ رہی ہے۔ اس کے مقابلے میں امریکہ کے نقطہ نظر کے ساتھ ان کا اختلاف بڑھ رہا ہے۔ اس کا تازہ ترین ثبوت ستمبر کے آغاز میں روس کی طرف سے افغانستان کے مسئلے پر ماسکو میں 12 ملکوں کی ایک علاقائی کانفرنس میں امریکہ کا شرکت سے انکار ہے۔ یہ کانفرنس افغانستان میں امن اور مصالحت کے فروغ کیلئے افغان جنگ میں متحارب فریقین کے درمیان بات چیت کا راستہ ہموار کرنے کے لئے بلائی گئی تھی۔ روس، چین، پاکستان، امریکہ اور افغانستان سمیت افغان مسئلے سے متاثر ہونے والے تمام ممالک کو اس کانفرنس میں مدعو کیا گیا تھا۔ افغان طالبان کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی‘ جو انہوں نے قبول کر لی تھی؛ تاہم امریکہ نے اس میں شرکت کرنے سے انکار کر دیا‘ جس کے باعث اس کانفرنس کو ملتوی کرنا پڑا اور اس طرح افغانستان میں قیام امن کا ایک اہم موقعہ ہاتھ سے نکل گیا۔ دراصل امریکہ اس خطے میں امن اور سلامتی کے کسی ایسے نظام کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں جس پر روس، چین اور ایران کی سرپرستی کی مہر ثبت ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ، خلیج فارس اور مغربی ایشیا کے خطوں میں امریکی مفادات کے تحفظ کے بارے میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا تصور مختلف ہے۔ امریکی صدر کے نزدیک ان علاقوں میں امریکی مفادات کا تحفظ علاقائی امن اور استحکام میں نہیں بلکہ مسلسل جنگ، خلفشار اور عدم استحکام میں مضمر ہے‘ کیونکہ اس صورت میں اس ایریا کا کوئی ملک اور طاقت امریکی مفادات کے لئے چیلنج نہیں بن سکتا۔
امریکہ کے نزدیک اس پورے خطے میں ایران واحد ملک ہے جو اپنے جغرافیائی محل وقوع اور تیل جیسی دولت سے مالا مال ہونے کی وجہ سے خطے میں امن، استحکام اور سلامتی کے قیام میں ایک مضبوط کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس لئے امریکہ کی جانب سے ایران کے خلاف اشتعال انگیز بیانات اور اندرونی تخریب کاری کی کوششوں میں اچانک اضافہ ہو گیا ہے۔ ایران پر اقتصادی پابندیوں کے نفاذ اور اس کے خلاف کارروائی کی دھمکیوں کے پیچھے کارفرما ایک اور امریکی مقصد یہ ہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان قدیم اور گہرے تعلقات میں رخنہ ڈالا جائے۔ یہ ایران کو اپنے ہمسایہ ممالک سے الگ تھلگ کرنے کی امریکی کوشش ہے، جو کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی‘ کیونکہ ایران نہ صرف قدیم زمانے سے وسطی ایشیا سے لے کر شمالی افریقہ اور بلقان سے لے کر ہندوستان تک پھیلے ہوئے وسیع علاقوں میں ایک با اثر طاقت رہ چکا ہے بلکہ موجودہ دور میں اسے اسلامی دنیا میں جو ممتاز مقام حاصل ہے‘ اس کے پیش نظر ایران اور اسلامی ملکوں کے درمیان رختہ ڈالنے کی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ نہ صرف اسلامی دنیا بلکہ خود مغربی ممالک نے بھی مشرق وسطیٰ اور ایران کے بارے میں امریکی صدر کی پالیسیوں کو مسترد کر دیا ہے۔ حال ہی میں برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے، امریکہ کی پیروی نہ کرتے ہوئے ایران کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کرنے سے انکار کر دیا۔ روس نے بھی ایران کے ساتھ کئے گئے معاہدوں پر کاربند رہتے ہوئے ایران کے مسئلے پر امریکہ کے دبائو کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ وہ حالات ہیں جن سے گھبرا کر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہر فورم پر ایران کے خلاف اشتعال انگیز بیانات دیتے ہیں۔