وزیراطلاعات و نشریات فواد چودھری نے ایک غیر ملکی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ 5 نکاتی معاہدہ صرف امن و امان کی مخدوش صورتحال پر قابو پانے کا مقصد پورا کرتا ہے،جہاں تک اصل مسئلے کا تعلق ہے‘ اسے مستقل بنیادوں پر حل کرنے کے لئے اہم اور دور رس اقدامات کرناہوں گے۔ وزیر موصوف نے جو کہا‘ اس پر دو آرا نہیں ہوسکتیں۔ حکومت کے علاوہ اپوزیشن میں شامل سیاسی پا رٹیاں بھی اس بات سے متفق ہیں کہ ملک کے امن و امان کو چند ہاتھوں میں یرغمال بننے سے روکنے کیلئے اہم اور دور رس اقدامات کی ضرورت ہے‘ کیونکہ امن و امان کا قیام اور لوگوں کی جان ومال کی حفاظت ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اگر کوئی حکومت ریاست کی بنیادی ذمہ داریاںنبھانے میں ناکام رہے تو اسے اقتدار میں رہنے کا کیا حق ہے؟ عوام اپنے ووٹوں کے ذریعے حکمرانوں کو صرف انہی مقاصد کیلئے منتخب کر کے مسند اقتدار پر بٹھاتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں بد قسمتی سے ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ ہماری قومی ترقی کے عمل میں رکاوٹ اور بیرون ملک ہمارے حالات کے بارے میں بدگمانیاں اسی وجہ سے ہیں۔ لیکن اس بارے میں نہ تو حکومت سنجیدہ ہے اور نہ سیاسی پارٹیاں ان مسائل کا کوئی مستقل حل پیش کرتی ہیں۔
تین دن تک ملک جس صورتحال سے دو چار رہا، اسے ذہن میں لا کر یہ سوال اٹھانے کی ضرورت ہے کہ ہم اس ملک کو کس سمت میں لے جا رہے ہیں؟ پورا ملک تقریباً مفلوج ہو کر رہ گیا تھا‘ موٹرویز سمیت تمام بڑی بڑی شاہرا ہیں بند تھیں۔ بڑے شہروں کے درمیان رابطے کٹ کر رہ گئے تھے۔ ضروری اشیا کی فراہمی بند ہو چکی تھی‘ لوگوں کی آمدورفت ناممکن تھی‘ سکول کالج اور یونیورسٹیاں بند تھیں اور کارخانوں کے گیٹ پر تالے لگے ہوئے تھے۔ ملک ایک محاصرے کی حالت میں تھا‘ شہری اپنے گھروں میں دبک کر رہ گئے تھے ‘ البتہ شرپسند عناصر ہاتھوں میں ڈنڈے اٹھائے شہروں میں توڑ پھوڑ میں مصروف تھے۔ لوگوں نے ٹیلی ویژن سکرینوں اور سوشل میڈیا پر دیکھا کہ مٹھی بھر افراد کس طرح اپنے سے کہیں زیادہ تعداد میں لوگوں کی املاک کی توڑ پھوڑ اور گاڑیوں‘ موٹر سائیکلوں کو آگ لگانے میں مصروف تھے۔ ایسے میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار کہیں دکھائی نہیں دیئے ۔محسوس ہوتا تھا کہ پاکستان میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ‘شرپسندوں نے قانون کو مکمل طور پر اپنے ہاتھوں میں لے رکھا تھا اور کوئی بھی اپنی جان و مال کو محفوظ نہیں سمجھتا تھا۔
معمولاتِ زندگی مکمل طور پر معطل ہونے سے شہریوں کو جو تکلیف ہوئی وہ اپنی جگہ لیکن ان ہنگاموں کی وجہ سے قومی املاک اور قومی معیشت کا جو نقصان ہوا اس کا ابھی پوری طرح اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ وزیر مملکت برائے مواصلات مراد سعید نے کہا کہ ان تین دنوں میںتوڑ پھوڑ سے اربوں روپے کا نقصان ہوا۔ یہ سب کچھ ہونے کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات فرما رہے ہیں کہ اصل مسئلے پر قابو پانے کے لئے دور رس اقدامات کی ضرورت ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان تین دنوں میں جو کچھ ہوا ہے، اسے روکنے کیلئے کیا حکومت کے پاس وسائل نہیں تھے؟ اور کیا حکومت اتنی ہی بے بس تھی؟ پاکستان ایک معمولی ملک نہیں‘ 22 کروڑ آبادی ہے اور یہ ایٹمی قوت ہے۔ جغرافیائی محل وقوع کے اعتبار سے ہم صرف وسطی، مغربی اور جنوبی ایشیا کی حکمت عملی میں ہی کلیدی کردار کے مالک نہیں ہیں بلکہ اب ون بیلٹ ون روڈ اور سی پیک کی کامیابی کیلئے بھی پاکستان کے تعاون کو ضروری سمجھا جا رہا ہے۔ دو سو سال حکومت کرکے انگریز ہمارے لئے قانون پر سختی سے عملدرآمد کرنے اور امن و امان کے قیام کو ممکن بنانے والی پولیس اور نوکرشاہی چھوڑ گئے ہیں‘ لیکن حکومت ان سے فائدہ نہیں اٹھاسکی۔ مظاہرین نے ملک و قوم کو کتنا نقصان پہنچایا، اس کی تفصیلات سامنے آرہی ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کی آنکھیں بھی ان واقعات کے بعد کھلی ہیں اور سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے ان افراد کی شناخت کی جا رہی ہے۔ کچھ گرفتاریاں بھی عمل میں آئی ہیں اور حکومت نے اعلان کیا ہے کہ کسی کو نہیں بخشا جائے گا۔ تاہم حکومت کو بھی اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔
تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ معاہدہ طے پانے کے بعد زندگی نارمل ہوگئی ‘اور شہریوں نے سکھ کا سانس لیا ہے؛ تاہم چند سوالات ایسے ہیں جن کا حکومت کی طرف سے جواب آنا ضروری ہے۔ پہلا سوال یہ ہے کہ سپریم کورٹ میں آسیہ بی بی کی اپیل کے فیصلے کے اعلان پر ہنگاموں کے متوقع خطرے کے پیش نظر حکومت نے پیشگی اقدامات کیوں نہیں کئے؟ کیا حکومت کو علم نہ تھا کہ اس فیصلے کے خلاف ردعمل آسکتا ہے؟ ملک کے انٹیلی جنس ادارے کیا کر رہے تھے؟ ہم حالتِ جنگ میں ہیں اور پاکستان اپنی تاریخ کے ایک انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے‘ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں‘ تو ایک انتہائی حساس مسئلے پر انٹیلی جنس اداروں نے حکومت کو الرٹ کیوں نہ کیا؟ اور اگر حکومت کو الرٹ کر دیا گیا تھا تو حکومتی مشینری حرکت میں کیوں نہ آئی؟ پولیس کے علاوہ حکومت کی مدد کیلئے نیم فوجی دستے، رینجرز ایف سی اور فوج‘ موجود ہیں۔ ان سب کو حرکت میںلا کر ایک مربوط آپریشن کے ذریعے مشکوک شرپسندوں اور ان کے سرکردہ رہنمائوں کو متحرک ہونے سے پہلے ہی حراست میں لیا جاسکتا تھا۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد تحریک کے کارکنوں نے عام لوگوں کو ساتھ ملانے کیلئے جو مہم شروع کی اس میں ابتدا میں شامل ہونے والے لوگوں کی تعداد بہت کم تھی۔ حکومتی مشینری کی طرف سے کسی قسم کی تادیبی کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے نہ صرف مظاہرین کے حوصلے بڑھے بلکہ عام لوگوں کی بھی ایک بڑی تعداد ان کا ساتھ دینے پر تیار ہوگئی۔ اس کے باوجود راستے روکنے، سڑکیں بلاک کرنے اور املاک کی توڑ پھوڑ کرنے والے افراد کی تعداد اتنی زیادہ نہیں تھی کہ پولیس ان پر قابو نہ پاسکتی۔ اگر حکومت کی طرف سے پولیس کو ان مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے تیار رکھا جاتا اور ان کی پشت پر رینجرز اور مسلح افواج کے دستوں کو بھی پوری طرح تیار رکھا جاتا اور مظاہرین پر واضح کر دیا جاتا کہ توڑ پھوڑ اور ہنگامہ آرائی کی صورت میں قانون حرکت میں آئے گا اور اسے لاگو کرنے کیلئے کسی بھی اقدام سے گریز نہیں کیا جائے گا، تو پاکستان کے عوام اس کربناک صورتحال سے نہ گزرتے‘ جس سے انہیں 31 اکتوبر سے 2 نومبر کے دوران میں گزرنا پڑا۔
ان تین دنوں میں مظاہرین نے جس مؤثر طریقے سے شہروں کے اندر ٹریفک کو اور شہروں کے درمیان سڑک اور شاہراہوں کو بلاک کیا‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی منصوبہ بندی کافی عرصہ پہلے سے کی گئی تھی اور اس منصوبے پر جس سرعت کے ساتھ عمل کیا گیا اس سے صاف ظاہر ہے کہ انہیں پیشہ ور ایجی ٹیٹرز اور تخریب کاری میں ماہر عناصر کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ اس کے مقابلے میں ہماری پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس کوئی پلان نہ تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت کے ایجنڈے میں لا اینڈ آرڈر کے قیام اور لوگوں کی جان و مال کی ذمہ داری شامل نہیں۔ حکمرانوں کی نظر میں یہ کام ان کا نہیں بلکہ مخصوص اداروں کا ہے اور وہی اس قسم کی صورتحال سے نمٹیں گے اس لئے انہوں نے اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کیلئے نہ تو کوئی پیشگی منصوبہ بندی کی، نہ کوئی حکمت عملی وضع کی اور نہ ہی سٹیٹ پاور کو متحرک کیا۔ سب سے قابل افسوس بات یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں حزب مخالف کی طرف سے توازن اور اعانت کی پیش کش کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھا گیا۔ اس پُر تشدد احتجاج سے پیدا ہونے والی سنگین صورتحال کا تقاضا یہ تھا کہ پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم سے شرپسندوں کو ملک کی سیاسی قیادت سے ایک اجتماعی پیغام ارسال کیا جاتا‘ لیکن اس راستے کو جان بوجھ کر ترک کر دیا گیا اور ایسا راستہ اختیار کیا گیا‘ جس پر چل کر حکومت نے سوائے بدنامی کے اور کچھ نہ کمایا۔ جس طریقے سے حکومت نے بحران کے دوران منصوبہ سازی میں کمزوری کا مظاہرہ کیا اس سے عوام میں سخت مایوسی اور شکست کا احساس پیدا ہوا۔