قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکی اور طالبان وفود کے درمیان افغانستان کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے چھ دن سے جاری مذاکرات کے بعد فریقین کے درمیان بعض اہم نکات پر اتفاق ہو گیا ہے۔ ان میں سے ایک افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کا ہے ‘جو طالبان کے مطالبات کی فہرست میں پہلے نمبر پر تھا۔ طالبان کا مطالبہ تھا کہ امریکہ اپنی فوجوں کو افغانستان سے فوری اور مکمل طور پر نکال دے۔ امریکہ نے انخلا کا مطالبہ تو مان لیا ہے‘ مگر یہ عمل 18ماہ میں مکمل ہو گا۔ امریکہ نے گرفتار طالبان رہنماؤں کی رہائی اور بعض پر عائد سفری پابندیوں کو اُٹھانے پر رضامندی بھی ظاہر کر دی ہے۔ اس کے بدلے طالبان نے وعدہ کیا ہے کہ وہ داعش اور القاعدہ کو افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا اور دیگر نکات پر عمل درآمد کے بعد افغانستان میں ایک عبوری حکومت قائم کی جائے گی اور اس کے لیے طالبان افغانستان کی موجودہ حکومت کے ساتھ مذاکرات میں اپنی طرف سے نام پیش کریں گے۔ طالبان نے یہ بھی وعدہ کیا ہے کہ وہ افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکنے کے لیے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور بلوچ قوم پرست عناصر کو اپنی سرزمین پر سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ابھی ان نکات پر اتفاق ہوا ہے‘ کسی باقاعدہ معاہدے پر دستخط نہیں ہوئے۔ اس کے لئے فریقین کے درمیان مذاکرات کا ایک اور راؤنڈ ہوگا۔ اس سے قبل امریکی وفد کے سربراہ زلمے خلیل زاد افغان حکومت کو اعتماد میں لینے کے لئے کابل گئے ہیں اور صدر اشرف غنی اور اُن کی حکومت کے ارکان کے ساتھ ملاقات کے بعد واشنگٹن میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے منظوری حاصل کریں گے۔
اگر افغان حکومت نے ان نکات پر رضامندی ظاہر کر دی اور صدر ٹرمپ نے منظوری دے دی تو فروری کے پہلے ہفتے میں زلمے خلیل زاد اور ان کے وفد کے ارکان کی ایک اور ملاقات طالبان وفد سے دوحہ میں ہوگی۔ اس ملاقات میں طالبان وفد کی قیادت پاکستان سے رہائی پانے والے طالبان رہنما ملا عبدالغنی برادر کریں گے۔ اگرچہ باقاعدہ اور حتمی معاہدے تک ابھی بہت سے امور پر تصفیہ ہونا باقی ہے‘ تاہم گزشتہ 17سال سے جاری اس تباہ کن جنگ کے خاتمے اور افغانستان میں پائیدار امن کے قیام کی طرف یہ ایک اہم پیش قدمی ہے‘ کیونکہ اس سے قبل اس مقصد کے لئے جتنی بھی کوششیں کی گئیں‘ وہ ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ سکیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ طالبان اور امریکہ کے مؤقف میں بہت فرق تھا‘ لیکن ستمبر میں صدر ٹرمپ نے زلمے خلیل زاد کو افغانستان کے لئے امریکہ کا خصوصی نمائندہ مقرر کر کے نئے سرے سے کوششوں کا آغاز کیا۔ زلمے خلیل زاد افغان نژاد امریکی شہری ہیں اور اس سے قبل وہ افغانستان اور عراق میں امریکہ کے سفیر رہ چکے ہیں‘ اس لئے وہ افغانستان اور خطے کے مسائل اور حالات سے بخوبی آگاہ ہیں۔ پاکستان زلمے خلیل زاد کی تقرری پر خوش نہیں تھا‘ کیونکہ امریکی سفیر کی حیثیت سے کابل میں اپنے قیام کے دوران انہوں نے متعدد بار پاکستان کے خلاف سخت بیانات دیئے تھے‘ جن میں پاکستان پر افغان طالبان کی اعانت کے الزامات لگائے گئے تھے۔ امریکی اس پس منظر سے آگاہ تھے اور انہیں خدشہ تھا کہ پاکستان زلمے خلیل زاد کا خوش دلی سے خیرمقدم نہیں کرے گا‘ اس لئے صدر ٹرمپ نے زلمے خلیل زاد کی اسلام آباد میں آمد سے قبل وزیراعظم عمران خان کو ایک خط لکھا جس میں خلیل زاد کے مشن کو کامیاب بنانے کے لیے پاکستان کے تعاون کی درخواست کی گئی تھی۔ مسٹر خلیل زاد اپنے مشن کے آغاز پر کافی پرامید تھے اور انہوں نے توقع ظاہر کی تھی کہ اپریل 2019 ء میں صدارتی انتخابات سے قبل افغانستان میں جنگ بند کرنے اور امن کے قیام کے لیے معاہدے پر دستخط ہو جائیں گے۔
زلمے خلیل زاد نے اپنے مشن کی تکمیل کے لئے خطے کا پانچ دفعہ دورہ کیا اور اس دوران میں انہوں نے کابل حکومت اور پاکستان کے علاوہ نئی دہلی‘ بیجنگ اور ماسکو میں علی الترتیب بھارتی‘ چینی اور روسی رہنماؤں سے بھی افغانستان میں امن تلاش کرنے کی راہ پر تبادلہ خیال کیا۔ اس کے علاوہ زلمے خلیل زاد نے خلیج فارس کا دورہ کر کے سعودی عرب‘ قطر اور متحدہ عرب امارات کے رہنماؤں سے بھی مشورہ کیا۔ مشاورت کے اس وسیع عمل کے بعد امریکی وفد اور طالبان کے درمیان پہلے دوحہ اور پھر ابوظہبی میں مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا۔ اگرچہ ان مذاکرات میں پاکستان‘ سعودی عرب اور متحدہ امارات کے نمائندے بھی شریک تھے۔ پھر بھی اس دوران میں کئی اُتار چڑھاؤ آئے۔ ایک موقع پر زلمے خلیل زاد نے سخت مایوسی کے عالم میں طالبان پر الزام عائد کیا کہ وہ مذاکرات کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔ مذاکرات میں جب امریکہ کے علاوہ پاکستان‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے طالبان پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ ان میں کابل حکومت کے نمائندوں کی شرکت پر راضی ہو جائیں‘ تو طالبان یہ کہہ کر مذاکرات کی میز سے اُٹھ گئے کہ وہ افغانستان کی موجودہ حکومت کے ساتھ کبھی بات چیت نہیں کریں گے‘ کیونکہ وہ اسے ایک ناجائز اور امریکہ کی کٹھ پتلی حکومت سمجھتے ہیں۔ امریکہ کا مطالبہ تھا کہ طالبان فوری طور پر تین ماہ کے لئے جنگ بندی کا اعلان کریں اور ایک عبوری حکومت کی تشکیل کے لئے کابل حکومت سے بات چیت بھی کریں‘ لیکن جب پاکستان نے امریکہ کے مؤقف کی حمایت کرتے ہوئے طالبان پر دباؤ ڈالا‘ تو انہوں نے جنوری میں اسلام آباد میں ہونے والے مذاکرات کا بائیکاٹ کر کے زلمے خلیل زاد سے ملنے سے انکار کر دیا۔ تاہم پس پردہ کوششوں اور امریکہ کی طرف سے اپنے مؤقف میں لچک پیدا کرنے کے بعد 20جنوری کو دوحہ میں مذاکرات دوبارہ شروع ہوئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مذاکرات کے سلسلے کو دوبارہ شروع کروانے اور اسے آگے بڑھانے میں پاکستان‘ سعودی عرب اور متحدہ امارات نے کلیدی کردار ادا کیا ہے‘ تاہم طالبان کو بھی یہ احساس ہو چکا تھا کہ اگر وہ مذاکرات سے بدستور انکار کرتے رہے‘ تو وہ ناصرف پاکستان‘ سعودی عرب اور متحدہ امارات کی ہمدردیوں سے محروم ہو جائیں گے‘ بلکہ افغان عوام کی رائے بھی اُن کے خلاف ہو جائے گی‘ کیونکہ گزشتہ دسمبر میں افغانستان کے تین بڑے شہروں‘ جن میں طالبان کا سابقہ گڑھ قندھار بھی شامل تھا‘ عام شہریوں اور سیاسی کارکنوں نے امن ریلیاں نکالی تھیں جن میں خاص طور پر طالبان سے جنگ بند کرنے اور قیام امن کے لئے افغان حکومت کے ساتھ بات چیت کرنے پر زور دیا گیا تھا۔
اصل بات یہ ہے کہ افغان جنگ میں ملوث تمام فریقین لڑائی سے اُکتا چکے ہیں۔ یہ ایک ایسی لڑائی ہے جو گزشتہ 17برس سے جاری ہے اور مزید 17برس بغیر کسی نتیجے کے جاری رہ سکتی ہے‘ کیونکہ امریکہ اور طالبان دونوں کو یقین ہو گیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو شکست نہیں دے سکتے۔ افغانستان میں جنگ سے شہری آبادی کا جتنا بھاری نقصان ہو رہا ہے‘ اس کی وجہ سے نا صرف ملک کے اندر بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی سخت تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اس لیے مذاکرات کے ذریعے اسے اختتام تک پہنچانے کے لیے صرف امریکہ اور افغان حکومت ہی کوشاں نہیں بلکہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک جن میں پاکستان پیش پیش ہے‘ اس جنگ کو جلد از جلد ختم کرنے اور افغانستان میں امن کے قیام کے لئے کوششوں میں مصروف ہیں۔ دوحہ میں مذاکرات کے نتیجے میں امریکہ اور طالبان کے درمیان بعض اہم نکات پر اتفاق پہلا اہم قدم ہے‘ تاہم قیام امن کی منزل تک پہنچنے کے لیے ابھی بہت سا سفر باقی ہے اور بہت سے ایسے مسائل ابھی باقی ہیں جن پر فریقین کا متفق ہونا ضروری ہے۔ ان میں عبوری حکومت کی تشکیل‘ افغانستان کے موجودہ آئینی اور قانونی ڈھانچے کا مستقبل اور سب سے اہم یہ کہ گزشتہ سترہ برس کے دوران میں افغانستان کے عوام نے آزادی اور جمہوری ماحول میں زندگی کے مختلف شعبوں مثلاً تعلیم‘ ثقافت‘ بنیادی انسانی حقوق‘ انصاف عورتوں اور اقلیتوں کے حقوق اور سپورٹس میں جو کامیابیاں حاصل کی ہیں‘ اُن کا مستقبل کیا ہوگا۔ سب سے اہم یہ کہ افغانستان کی کرکٹ ٹیم کا کیا بنے گا؟