امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات کی پاکستانی خواہش اور کوشش خود پاکستان سے بھی پرانی ہے‘ وہ ایسے کہ تقسیم ہند سے قبل ہی قائداعظم محمد علی جناح نے رائٹرز کو انٹرویو دیتے ہوئے نئے ملک اور امریکہ کے درمیان دوستانہ تعلقات کو دونوں ملکوں کے مفادات کے لئے سودمند قرار دیا تھا۔ پھر قیام پاکستان کے بعد قائداعظم نے امریکہ سے مارشل پلان کی طرز پر ملک کے لئے ایک امدادی پیکیج کی اپیل کی تھی۔ مگر چونکہ اُس وقت امریکہ کی تمام تر توجہ جنگ سے تباہ حال یورپ کو معاشی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے قابل بنانے پر مرکوز تھی‘ اس لئے صدر ٹر و مین نے بابائے قوم کی اس اپیل کو اہمیت نہ دی؛ البتہ جب 1950ء میں کوریا کی جنگ چھڑ گئی اور سرد جنگ کا محور یورپ سے ایشیا منتقل ہونے لگا تو امریکہ نے پاکستان کی اہمیت کو محسوس کرنا شروع کر دیا۔ وزیراعظم لیاقت علی خان کو امریکہ کے دورے کی دعوت دی گئی اور پاکستانی رہنما نے امریکہ کے دورے کے دوران جو تقاریر کیں اُن سے پاکستان کی طرف سے امریکہ کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کی شدید خواہش جھلکتی تھی۔ امریکہ اس وقت دوسری جنگ عظیم کے بعد امیر ترین اور عسکری لحاظ سے مضبوط ترین ملک کی حیثیت سے ابھرا تھا اور بیشتر ممالک خصوصاً ایشیا اور افریقہ کے نو آزاد ممالک اس کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کر کے اپنی معیشتوں کو مضبوط بنانا چاہتے تھے۔ مگر پاکستان کے لئے امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات اور اس طریقے سے حاصل ہونے والی خیر سگالی ایک اور پہلو سے بھی اہمیت کی حامل تھی۔ وہ اس طرح کہ کمیونسٹ ملکوں کو چھوڑ کر دنیا کے باقی تمام حصوں میں امریکہ اپنی دولت اور عسکری طاقت کے بل بوتے پر سب سے زیادہ بااثر ملک تھا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں روس کے علاوہ باقی تمام مستقل اراکین (برطانیہ، فرانس اور تائیوان) اس کے ہمنوا تھے۔ اس لئے تیسری دنیا کے نو آزاد ملکوں کو یقین تھا کہ امریکہ اقوام کے اندر اور باہر اپنے اثر و رسوخ کو کام میں لا کر ان کو درپیش مسائل کے حل میں فیصلہ کن مدد فراہم کر سکتا ہے۔ ایسے ملکوں میں پاکستان بھی شامل تھا؛ چنانچہ کوریا کی جنگ چھڑنے کے بعدجب امریکہ نے پاکستان سے امریکہ کی سرکردگی میں قائم ہونے والے نام نہاد بین الاقوامی کولیشن کی فوج میں فوجی دستے بھیجنے کی درخواست کی اور اس کے بدلے میں پاکستان کو اہم فوجی امداد دینے کی پیشکش کی تو وزیراعظم لیاقت علی خان نے جھٹ امریکہ کے سامنے دو شرائط رکھیں۔ ایک یہ کہ امریکہ کشمیر کے مسئلے کو حل کرانے میں براہ راست مداخلت کرے اور دوسرے یہ کہ افغانستان کے ساتھ ڈیورنڈ لائن کے جھگڑے کو طے کرانے میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے۔ لیکن امریکہ نے ان دونوں مسائل میں یہ کہہ کر دخل دینے سے انکار کر دیا کہ یہ بھارت اور افغانستان کے پاکستان کے دوطرفہ نوعیت کے مسائل ہیں اور امریکی خارجہ پالیسی ان میں براہ راست مداخلت کی اجازت نہیں دیتی۔
اس کے بعد اگرچہ امریکہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں متعدد مواقع پر کشمیر کے مسئلے پر پاکستانی موقف کے حق میں ووٹ دیا اور 1962ء کی چین بھارت سرحدی جنگ کے بعد کشمیر کے مسئلے کے حل میں سہولت کار کاکردار ادا کر کے پاک بھارت مذاکرات کا بھی اہتمام کیا‘ مگر اس کے بعد امریکہ کی کشمیر پر پالیسی اسی ایک نکتے پر مبنی رہی کہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک دوطرفہ جھگڑا ہے جسے دونوں ممالک کو پرامن طریقے سے باہمی مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہئے۔ اس سال پانچ اگست کو یک طرفہ طور پر جب بھارت نے کشمیر کی 70 برس سے زائد عرصے سے قائم خصوصی حیثیت کو ختم کر کے اسے دو وفاقی علاقوں میں تقسیم کر دیا تب بھی امریکہ نے یہی موقف اختیار کیا کہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک دوطرفہ مسئلہ ہے اور اس کا حل دونوں ملکوں کو بات چیت کے ذریعے ڈھونڈنا ہے ۔ البتہ اگر پاکستان اور بھارت متفق ہوں تو امریکہ ایک سہولت کار بلکہ ثالث کی حیثیت سے اس کے حل میں مددگار کا کردار ادا کر سکتا ہے۔ لیکن پاکستان کو توقع تھی کہ جس طرح کشمیر کی موجودہ صورت حال فوری اقدام کی متقاضی ہے‘ کیونکہ 5اگست سے اب تک بھارت کی سکیورٹی فورسز نے کشمیریوں کو اُن کے گھروں میں محبوس کر رکھا ہے، اُس کے پیش نظر امریکہ بھارتی اقدام کے خلاف سخت ردعمل کا اظہار کر کے پاکستان اور کشمیریوں کی حوصلہ افزائی کرے گا؛تاہم 5اگست کے اقدام پر امریکہ نے جو سرکاری موقف اختیار کیا وہ پاکستانی نقطہ نظر سے مایوس کن تھا۔
اگرچہ امریکہ نے پہلے کی طرح ریاست جموں و کشمیر کو ایک متنازعہ علاقہ قرار دے کر پاکستان اور بھارت پر باہمی مذاکرات کے ذریعے اس کا فیصلہ کرنے پر زور دیا‘ مگر 5اگست کے بھارتی اقدام کی مذمت سے احتراز کیا‘ بلکہ اسے بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دیا۔ عالمی برادری اور خصوصاً امریکہ کے اس رویے پر وزیراعظم عمران خان نے بھی سخت مایوسی کا اظہار کیا‘ تاہم آہستہ آہستہ عالمی برادری ہی نہیں بلکہ امریکہ کے رویے میں بھی مثبت تبدیلی کے آثار نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ امریکہ کی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز‘ جو امریکی محکمہ خارجہ کی ایک سینئر سفارت کار ہیں اور انہیں جنوبی اور وسطی ایشیاء کے امور کا بڑا گہرا تجربہ ہے، نے حال ہی میں ایک بیان دیا ہے کہ امریکہ کو کشمیر میں انسانی حقوق کی متواتر خلاف ورزیوں پر سخت تشویش ہے۔ ایلس ویلز نے کشمیر کی موجودہ صورتحال کے بارے میں بھارت کے دعوؤں کو جھٹلاتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیر میں اب بھی صورتحال نارمل نہیں اور سخت پابندیوں کے باوجود کشمیری عوام روزانہ احتجاجی جلوس نکال رہے ہیں اور بھارتی پابندیوں کو چیلنج کر رہے ہیں‘ اس لئے بھارت کو چاہئے کہ وہ مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کر دے اور کشمیری عوام پر عاید نقل و حرکت اور روابط پر پابندیاں ختم کر دے تاکہ وہ روزمرہ ضروریات پوری کرنے کے قابل ہو سکیں۔ امریکہ کی طرف سے یہ پالیسی بیان خوش آئند ہے۔ اس لئے کہ اس سے کشمیر کی سنگین صورتحال سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی آگاہی اور اُس پر سخت تشویش عیاں ہوتی ہیں۔ ایلس ویلز ایک تجربہ کار امریکی سفارت کار ہیں۔جنوبی ایشیا کے امور پر صدر ٹرمپ ان کی بات کو ہمیشہ اہمیت دیتے ہیں۔ وہ ان امریکی سفارت کاروں میں شامل ہیں جو متعدد بار جنوبی ایشیا کے دورے کر چکے ہیں اور پاکستانی حکام کے ساتھ ان کے متواتر اور قریبی روابط رہے ہیں۔
ایک طرف امریکہ کے رویے میں یہ مثبت تبدیلی رونما ہوئی ہے اور دوسری طرف مغربی میڈیا اور تھنک ٹینک بھی کشمیر میں بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو اُجاگر کر رہے ہیں ۔اس طرح بین الاقوامی سطح اور خصوصاً مغربی دنیا میں کشمیر پر بھارت کا بیانیہ پٹ رہا ہے‘ یعنی سفارتی سطح پر بھارت کا یہ موقف کہ مسئلہ کشمیر اس کا اندرونی مسئلہ ہے اور یہ کہ وادی میں حالات آہستہ آہستہ نارمل ہوتے جا رہے ہیں، شکست کھا رہا ہے۔ اس کا اعتراف بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر نے بھی حال ہی میں ایک بیان میں کیا ہے‘ جس میں انہوں نے مغربی میڈیا پر تعصب اور جانبداری کا الزام عائد کیا ہے‘ حالانکہ 5اگست سے اب تک بھارت نے وادی میں کشمیریوں کی نقل و حرکت پر بدستور پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
کشمیریوں کی سیاسی قیادت اپنے گھروں میں نظر بند ہے۔ ان کے معمولاتِ زندگی اور کاروبار بدستور معطل ہے۔ کشمیری عوام ذہنی طور پر ہی نہیں بلکہ معاشی طور پر بھی سخت اذیت کا شکار ہیں۔ ان حالات کو کب تک دنیا سے پوشیدہ رکھا جا سکتا ہے؟ عالمی برادری آہستہ آہستہ کشمیریوں پر روا رکھے جانے والے مظالم سے آگاہ ہو رہی ہے اور اب اس کا برملا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کشمیر کی موجودہ صورتحال سے عالمی برادری کو آگاہ کرنے میں موجودہ حکومت کی سفارت کاری نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کی وجہ سے عالمی برادری خصوصاً مغربی میڈیا مسئلہ کشمیر اور وادی کی صورتحال کے اُن پہلوؤں کو اجاگر کر رہے ہیں جو پہلے دنیا کی نظروں سے اوجھل تھے۔ چین اور دیگر دوست ملکوں کی حمایت اور عالمی سطح پر کشمیر کے بارے نئی آگاہی نے نریندرا مودی کی حکومت پر سخت دباؤ ڈال رکھا ہے اور اسے عنقریب حقیقت تسلیم کرتے ہوئے کشمیریوں کو اُن کے چھینے ہوئے حقوق واپس کرنا پڑیں گے۔