حزبِ مخالف کی سیاسی پارٹیوں کی نمائندہ کمیٹی ''رہبر کمیٹی‘‘ اور حکومت کے درمیان دو روز کے مذاکرات کے بعد معاہدہ طے پایا گیا ہے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں ''آزادی مارچ‘‘ کا احتجاجی جلسہ اسلام آباد کے ریڈ زون میں منعقد نہیں کیا جائے گا بلکہ پشاور موڑ کے قریب ہوگا۔اس طرح جلسہ گاہ کا مسئلہ تو حل ہو گیا ہے لیکن ''آزادی مارچ‘‘ کے باقی مطالبات پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اختلافات بدستور موجود ہیں۔ ان مطالبات میں وزیراعظم عمران خان کا استعفیٰ‘ نئے انتخابات اور دستور میں موجود اسلامی دفعات کے تحفظ کی یقین دہانی شامل ہیں۔ جہاں تک پہلے دو مطالبات کا تعلق ہے‘ حکومت نے انہیں یکسر مسترد کر دیا ہے۔ وزیراعظم خود کہہ چکے ہیں کہ اُن کے مستعفی ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسی طرح نئے انتخابات کے مطالبے کو بھی بلاجواز قرار دے کر حکومت مسترد کر چکی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جلسے کے مقام پر اتفاق ہونے کے باوجود حکومت اور ''آزادی مارچ‘‘ کے شرکا میں تصادم کا خطرہ موجود ہے‘کیونکہ ''آزادی مارچ‘‘ کے رہنما مولانا فضل الرحمن اور اُن کی جماعت کے سینئر رہنماؤں نے یہ یقین دہانی کرانے سے انکار کر دیا ہے کہ 31اکتوبر کے جلسے کے بعد ''مارچ‘‘ کے شرکا منتشر ہو جائیں گے‘ بلکہ اُن کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اگرچہ معاہدے کے تحت ''آزادی مارچ‘‘ کے شرکا ''ڈی چوک یا ریڈ زون کی طرف نہیں بڑھیں گے‘ مگر اسلام آباد کی سڑکوں پراپنے مطالبات کے حق میں مظاہرہ کریں گے۔ مظاہرین کے اس اقدام سے پیدا ہونے والی ممکنہ صورت حال کا سامنا کرنے کے لئے‘ اسلام آباد کی انتظا میہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے شہر میں داخل ہونے والے راستوں کو بلاک کرنے کیلئے سینکڑوں کنٹینرز کھڑے کر دیئے ہیں۔ اس طرح مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے یا اُنہیں آگے بڑھنے سے روکنے کے لئے بھی پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری تعینات کی جا چکی ہے۔ ایسے اقدامات صرف اسلام آباد تک محدود نہیں بلکہ پورے ملک میں کئے جا رہے ہیں کیونکہ آزادی مارچ میں شمولیت کے لئے ملک کے ہر کونے سے لوگوں کے آنے کی توقع ہے۔ ایسے لوگوں کو روکنے کی ذمہ داری ان صوبوںپر ڈالی گئی ہے جہاں حکمران جماعت پی ٹی آئی کی حکومتیں قائم ہیں؛ چنانچہ پنجاب اور کے پی کے کی صوبائی انتظامیہ کی طرف سے اعلانات کئے جا چکے ہیں کہ وہ اہم ناکوں پر پولیس تعینات کر کے اور بڑی سڑکوں کو بلاک کر کے عام لوگوں کو بڑے جلوسوں کی شکل میں اسلام آباد جانے سے روکیں گے‘ اس صورت میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم کا خطرہ ہے اور منتظمین کا یہ دعویٰ کہ ''آزادی مارچ‘‘ پر امن رہے گی‘ غلط ثابت ہو سکتا ہے۔ البتہ اگر حکومت اپنی وعدوں کے مطابق ''آزادی مارچ‘‘ کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالے اور جس طرح اُنہیں اسلام آباد میں ایک مخصوص جگہ پرجلسہ کرنے کی اجازت دی گئی ہے‘ اسی طرح اُنہیں بلا روک ٹوک اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے دیا جائے تو تصادم کا خطرہ ٹل سکتا ہے لیکن ایسے مواقع پر دونوں طرف سے پوری کوشش کے باوجود صورتحال دونوں طرف کے بعض عناصر کی تخریبی کارروائیوں کی وجہ سے کنٹرول سے باہر بھی ہو سکتی ہے۔ ایسی صورتحال میں نقصان دونوں طرف کا ہوگا‘ مگر ''آزادی مارچ‘‘ کومنظم کرنے والے زیادہ گھاٹے میں رہیں گے کیونکہ سیاسی محاذ پر اپوزیشن ''آزادی مارچ‘‘ کے ذریعے جو مقاصد حاصل کرنا چاہتی تھی ‘تصادم کی صورت میں یہ کامیابیاں رائیگاں جائیں گے۔
گزشتہ جون میں جب جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما مولانا فضل الرحمن نے ''آزادی مارچ‘‘ کا اعلان کیا تو حکومت نے اسے کوئی اہمیت نہ دی تھی بلکہ اسے مولانا کی سولو فلائٹ قرار دے کر اسے مذہبی کارڈ استعمال کرنے کی ایک بھونڈی کوشش قرار دیا گیا ۔ وزیراعظم عمران خان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ مولانا فضل الرحمن‘ جن کی پارلیمنٹ میں نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے‘ کی طرف سے احتجاجی کال پر اپوزیشن پارٹیاں خصوصاً پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی اکٹھی ہو جائیں گی۔ لیکن چار ماہ کے اندر جماعت اسلامی اور ایک آدھ دیگر چھوٹی جماعتوں کو چھوڑ کر باقی تمام بڑی اپوزیشن پارٹیاں جن میں پی ایم ایل (ن) اور پی پی پی کے علاوہ اے این پی اور بلوچستان سے بی ا ین پی بھی شامل ہیں‘ مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں ''آزادی مارچ‘‘ میں شریک ہو رہی ہیں ۔ پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے 18اکتوبر سے سندھ میں سیاسی جلسوں کے انعقاد کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے‘ اسے اگرچہ مولانا فضل الرحمن کی آزادی مارچ کا باضابطہ حصہ قرار نہیں دیا جا سکتا‘ تاہم ان اجتماعات سے خطاب کے دوران پی پی پی رہنما جن مسائل کو اجاگر کر کے وفاقی حکومت پر تابڑ توڑ حملے کر رہے ہیں‘ اُن کے نتیجے میں ''آزادی مارچ‘‘ مولانا فضل الرحمن کی سولو فلائٹ کی بجائے ایک ملک گیر احتجاجی تحریک کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ آغاز میں مولانا فضل الرحمن کی احتجاجی کال واقعی ایک سولو فلائٹ کا تاثر دے رہی تھی‘ کیونکہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی‘ دونوں بڑی سیاسی پارٹیاں اس میں شرکت سے کترا رہی تھیں۔ ان کے خیال میں ایسی احتجاجی تحریک کا ابھی وقت نہیں اور وہ چاہتی تھیں کہ اس تحریک کو مزید مؤخر کیا جائے۔ مگر مولانا فضل الرحمن نہیں مانے اور انہوں نے صاف کہہ دیا کہ آزادی مارچ کی تاریخ تبدیل نہیں ہوگی۔ اس کے بعد مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کے سامنے مارچ میں شرکت کے سوا اور کوئی راستہ نہ بچا اور 27اکتوبر سے شروع ہونے والے مارچ میں ان دونوں جماعتوں کے کارکن ہی نہیں بلکہ اہم رہنما بھی شرکت کر رہے ہیں۔ کراچی میں منعقد ہونے والی ریلی اس کا ثبوت ہے۔
مولانا فضل الرحمن کے ''آزادی مارچ‘‘ کے بارے میں جو اندازے حکومت اور اپوزیشن کی دیگر سیاسی جماعتوں نے لگائے تھے‘ وہ غلط ثابت ہوئے اور مولانا نے اسلام آباد پہنچنے سے پہلے ہی اپنے اہم اہداف حاصل کر لئے۔ ان میں پہلا ہدف حکومت سے اپنی سیاسی اہمیت تسلیم کروانا تھا۔ چند دن پہلے وزیراعظم عمران خان کہتے تھے کہ مولانا سے بات چیت کیلئے کسی کمیٹی کی تشکیل کی ضرورت نہیں۔ پھر وہ مرحلہ بھی آیا کہ نہ صرف ایک حکومتی کمیٹی بنی‘ بلکہ اس کمیٹی کے ارکان جمعیت علمائے اسلام (ف) کی قیادت کو ڈھونڈ رہے تھے‘ لیکن حکومتی کمیٹی کو صاف بتا دیا گیا کہ اب معاملہ صرف جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ہاتھ سے نکل کر متحدہ اپوزیشن کے ہاتھ میں چلا گیا ہے اور بات چیت اب محض جمعیت سے نہیں بلکہ متحدہ اپوزیشن کی نمائندہ تنظیم یعنی رہبر کمیٹی سے ہوگی۔ کہاں وزیراعظم لیڈر آف اپوزیشن سے ہاتھ ملانے اور مولانا فضل الرحمن کی جماعت سے بات کرنے پر مائل نہ تھے‘اور کہاں حالات نے انہیں جمعیت علمائے اسلام (ف) کی قیادت کی بجائے متحدہ اپوزیشن سے مذاکرات پرمجبور کر دیا۔ اگر کوئی غیر معمولی اور انتہائی نا خوشگوار واقعہ پیش نہ آیا توغالب امکان ہے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کی قیادت میں 31اکتوبر کو اسلام آباد احتجاجی جلسہ ضرور ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی مارچ میں شریک ہیں‘ لیکن ابھی مکمل طور پر یہ واضح نہیں کہ جلسے سے ان دونوں پارٹیوں کے سربراہان یعنی شہباز شریف اور بلاول بھٹو بھی خطاب کریں گے یا نہیں۔ اگر ان دونوں رہنماؤں نے بھی مولانا فضل الرحمن کے ہمراہ جلسہ سے خطاب کیا تو پاکستان کی اندرونی سیاست ایک نئے مرحلے میں داخل ہو جائے گی کیونکہ یہ جلسہ جمعیت علمائے اسلام کا نہیںبلکہ متحدہ اپوزیشن کا ہے۔ اپوزیشن جو اب تک دو بڑی سیاسی جماعتوں یعنی مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کے درمیان اختلافات کی وجہ سے متحد ہو کر سرگرم عمل نہیں تھی۔ اب مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں ایک ہی پلیٹ فارم سے حکومت کے خلاف متحرک ہے اور امکان ہے کہ 31اکتوبر کے جلسے کے بعد بھی متحرک رہے گی کیونکہ وزیراعظم کا استعفیٰ اور نئے انتخابات کا انعقاد تینوں جماعتوں کا مشترکہ مطالبہ ہے۔ ان مطالبات کے فوری طورپر یا ایک مارچ اور دھرنے کے نتیجے میں تسلیم ہونے کا کوئی مکان نہیں‘ لیکن اندرونی طور پر بگڑتی ہوئی معیشت کو سنبھالا دینے میں ناکامی‘ بیورو کریسی کا عدم تعاون اور بیرونی طورپر ایف اے ٹی ایف کی لٹکتی تلوار جیسے مسائل سے دوچار وزیراعظم عمران خان کی حکومت کب تک ان مطالبات کے خلاف مزاحمت جاری رکھے گی؟