جنوبی ایشیا کو سلامتی کے بہت سے خطرات لاحق ہیں۔ اندرونی بھی بیرونی بھی۔ لیکن اس وقت سب سے زیادہ اور فوری توجہ کا مستحق خطرہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی خصوصاً آئے دن کی لائن آف کنٹرول پر خونریز جھڑپیں ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری کے ساتھ ساتھ شہری آبادی کو پہنچنے والے جانی اور مالی نقصان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر تشویشناک بات یہ ہے کہ اس خونیں کھیل کو بند کرنے کی کسی سنجیدہ کوشش کے آثار نظر نہیں آتے۔ پچھلے دنوں بھارت کے آرمی چیف جنرل بپن راوت نے ایک دھمکی آمیز بیان دے کر پاکستان کو بھی ترکی بہ ترکی جواب دینے پر مجبور کیا۔ وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مختلف مواقع پر اپنے علیحدہ علیحدہ بیانات میں اس خطرناک صورتحال کی طرف بین الاقوامی برادری کی توجہ مبذول کرواتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا کہ بھارت اپنے اندرونی خلفشار پر پردہ ڈالنے کیلئے فروری 2019 کے پلوامہ جیسے واقعہ کا ڈرامہ رچا سکتا ہے۔ دونوں رہنمائوں نے واضح کیا کہ اگر بھارت نے کسی مہم جوئی کا ارتکاب کیا تو پاکستان کی طرف سے اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ ''بھرپور جواب‘‘ سے عام طور پر یہ مطلب لیا جاتا ہے کہ پاکستان اپنی دفاع کیلئے ہر آپشن استعمال کرے گا‘ جن میں ملک کے بنیادی مفادات کو خطرہ لاحق ہونے کی صورت میں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کا آپشن بھی ہو سکتا ہے۔ چونکہ دونوں ممالک ایٹمی ہتھیاروں سے مسلح ہیں اور دونوں میں تصادم کا ہر وقت خطرہ موجود رہتا ہے۔
دوسری طرف مقبوضہ وادیٔ جموں و کشمیر میں بھارت کی طرف سے لاک ڈائون پانچویں مہینے میں داخل ہو چکا ہے اور کشمیری عوام کی نقل و حرکت‘ مواصلاتی رابطوں اور روزمرہ کی دیگر سرگرمیوں پر پابندی بدستور قائم ہے۔ بھارت کو کشمیر میں انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پر پامالی پر عالمی رائے عامہ کی روز افزوں تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بھارت میں نریندر مودی کی حکومت نے بارہا دعویٰ کیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں حالات معمول پر آ رہے ہیں مگر مختلف ذرائع سے آنے والی اطلاعات نے بھارت کے ان دعووں کی قلعی کھول دی ہے۔ اس علاقے کا دورہ کرنے والے وفودنے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں حالات بالکل نارمل نہیں۔ کشمیری عوام بدستور مختلف پابندیوں کا شکار ہیں اور صورتحال کسی وقت بھی ایک خطرناک موڑ لے سکتی ہے۔ صورتحال کو مختصر طور پر بیان کیا جائے تو وہ یوں ظاہر ہوتی ہے کہ بھارت نے ہر گلی اور ہر موڑ پر سکیورٹی فورسز کے ذریعے کشمیری عوام کو دبا رکھا ہے لیکن اسے معلوم ہے کہ گرفت ڈھیلی ہوتے ہی کشمیری عوام پہلے کی طرح ''آزادی آزادی‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئیں گے اور پھر صورتحال بھارتی حکام کے کنٹرول میں نہیں رہے گی۔ اسی لئے بھارت نے 5 اگست سے نافذ اس لاک ڈائون میں ابھی تک کسی نرمی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ دوسری طرف بین الاقوامی برادری کی طرف سے بھارت کے ان اقدامات کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے بلکہ انسانی حقوق کی علمبردار تنظیموں اور سیاسی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی طرف سے بھارت سے ان پابندیوں کو اٹھانے کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔ امریکی حکومت اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور او آئی سی کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کے حالات پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے مگر جہاں تک مقبوضہ کشمیر میں نافذ موجود لاک ڈائون کا تعلق ہے تو اسے ختم کرانے کیلئے کسی جانب سے کوئی ٹھوس تحریک شروع نہیں کی جا سکی۔ پاکستان کو امید تھی کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی اس اعلانیہ جارحیت اور انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزی پر عالمی برادری خاموش نہیں رہے گی اور بھارت پر ان اقدامات کو واپس لینے کیلئے دبائو ڈالا جائے گا مگر ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ صرف چین‘ ترکی اور ملائیشیا نے کشمیر میں لاک ڈائون کی مذمت کی اور مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل کرنے پر زور دیا مگر اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ باقی ساری دنیا بھارت کی حامی ہے بلکہ اس کے برعکس سوائے بھوٹان جیسے ایک آدھ ملک کے دنیا کا کوئی ملک کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں سمجھتا بلکہ اسے ایک متنازعہ مسئلہ سمجھا جاتا ہے جس کا حتمی حل ہونا ابھی باقی ہے۔ عالمی برادری کے ارکان کی بھاری تعداد سمجھتی ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ ان پر تشویش کا اظہار بھی کیا جا رہاہے اور ان خلاف ورزیوں کو ختم کرنے پر بھی زور دیا جا رہا ہے۔ متعدد ممالک جن میں امریکہ‘ چین‘ یورپی یونین اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل شامل ہیں‘ اس مسئلے کو حل کروانے میں اپنے ثالثانہ کردار کی پیشکش بھی کر چکے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں اور ان کے درمیان کشیدگی کا برقرار رہنا خطرناک نتائج کا باعث ہو سکتا ہے لیکن بین الاقوامی برادری اس سے آگے جانے کیلئے تیار نہیں اور اس پر پاکستان کی طرف سے مایوسی اور افسوس کا اظہار کیا جا رہا ہے مگر پاکستان کی مایوسی اور افسوس سے نہ تو بین الاقوامی برادری حرکت میں آ سکتی ہے اور نہ یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے اس لئے کہ ہر ملک نے اپنی خارجہ پالیسی کی سمت قومی مفادات کی روشنی میں متعین کرنا ہوتی ہے؛ تاہم ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہئے کہ اس وقت عالمی سطح پر کشمیر کے معاملے میں بین الاقوامی برادری کی ہمدردیاں پاکستان اور کشمیری عوام کے ساتھ ہیں۔ اس سازگار فضا میں پاکستان کشمیر کاز کو ایک جارحانہ سفارتکاری کے ذریعے فروغ دے سکتا ہے اور گزشتہ تین ماہ میں پاکستان نے اسی قسم کی سفارتکاری کے ذریعے بھارت کو پسپائی پر مجبور کیا ہے مگر جہاں تک اس مسئلے کے حل کی طرف پیش قدمی کا سوال ہے عالمی رائے عامہ تشدد‘ اشتعال انگیز یا دھمکی آمیز بیانات کے ذریعے کشیدگی میں اضافے کے سخت خلاف ہے۔ ایٹمی جنگ کے خطرے کی دہائی دینے سے دنیا مسئلہ کشمیر کو حل کروانے کی طرف نہیں دوڑے گی۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ جنوبی ایشیا میں پاک بھارت ایٹمی تصادم کے خطرے نے دنیا میں پاک بھارت تنازعات اور مسئلہ کشمیر کی مرکزیت کو اجاگر کیا ہے مگر اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ ایٹمی جنگ کا الارم بجا کر ہم عالمی برادری کو بھارت پر دبائو ڈالنے پر مجبور کر سکتے ہیں بلکہ ایٹمی جنگ کے اندیشے کو بار بار ظاہر کرکے پاکستان نقصان اٹھا سکتا ہے۔ اس لئے کہ اس صورت میں دنیا ایٹمی جنگ کی دھمکی دینے والے ملک کو ایک غیر ذمہ دار ایٹمی ملک قرار دے سکتی ہے۔
تو پھر آخر آگے بڑھنے کا راستہ کیا ہے؟ اس سلسلے میں اگر یہ کہا جائے کہ واحد راستہ پرامن مذاکرات کا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ موجودہ ماحول میں اگرچہ اس کا انعقاد ناممکن نہیں تو مشکل ضرور نظر آتا ہے لیکن ماضی میں بھی پاکستان اور بھارت اس ضمن میں انتہائی مشکل اور پیچیدہ صورتحال سے دوچار رہے ہیں مگر دونوں ملکوں کی دور اندیش سیاسی قیادت نے تعلقات میں ڈیڈ لاک کو ختم کرکے مذاکرات کی راہ اپنا لی اور تعلقات کو نارمل سطح پر لانے کی کوشش کی۔ نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں کمپوزٹ ڈائیلاگ کی بنیاد پر پاک بھارت دوطرفہ مذاکرات سے پہلے دونوں ملکوں میں چار برس سے ہر قسم کی بات چیت کی دروازے بند تھے مگر پاکستانی وزیراعظم اور ان کے بھارتی ہم منصب کے درمیان مالدیپ کے دارالحکومت مالے (Male) میں سارک کی سربراہی کانفرنس کے موقع پر ملاقات کے بعد دونوں ملکوں میں باضابطہ بات چیت بحال ہو گئی‘جو آگے چل کر فروری 1999 میں بھارتی وزیر اعظم واجپائی کے دورہ پاکستان اور اعلان لاہور کے اجرا پر منتج ہوئی۔ 2004 میں کمپوزٹ ڈائیلاگ اور امن مذاکرات کی بحالی سے قبل پاک بھارت دوطرفہ تعلقات کارگل کی جنگ اور 2001 میں آگرہ کانفرنس کی ناکامی کی وجہ سے سخت جمود کا شکار تھے‘ مگر جنوری 2004 میں وزیر اعظم واجپائی اور صدر مشرف کے درمیان اسلام آباد میں ملاقات نے جمود توڑا اور دونوں ملکوں میں کمپوزٹ ڈائیلاگ اور امن مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا جس کے چار رائونڈ بلا کسی روک ٹوک کے 2008 تک جاری رہے۔ موجودہ حالات ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ پاکستان اور بھارت کی قیادتوں سے امن اور مذاکرات کی راہ اپنانے کا تقاضا کر رہے ہیں کیونکہ اس میں دونوں ملکوں کے عوام کی فلاح مضمر ہے۔