"DRA" (space) message & send to 7575

کورونا وائرس اور نیشنل سکیورٹی

کورونا وائرس کی شکل میں عالمی وبا کے سامنے جس طرح چھوٹی بڑی‘ امیر غریب‘ طاقت ور اور کمزور قومیں بے بس نظر آتی ہیں‘ اسے چند الفاظ میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک نے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے جو تصورات اور ذرائع اپنا رکھے تھے‘ وہ سارے کے سارے ناکام ثابت ہو رہے ہیں۔ جس دن اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ کورونا وائرس کی ہلاکتوں کی خبروں سے اٹے پڑے تھے‘ اسی دن دو خبریں یہ بھی چھپی تھیں کہ امریکہ نے ایک ہائپر سانک یعنی آواز کی رفتار سے پانچ گنا تیز رفتار میزائل کا تجربہ کیا ہے۔ اسی طرح شمالی کوریا نے اپنے نواحی سمندر میں کم فاصلے پر مار کرنے والے میزائل کو تجرباتی طور پر داغا ہے۔ دونوں میزائل اپنے اپنے نشانوں پر جوہری بم گرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ باوجود اس بات کے کہ ایٹمی جنگ کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا اور ایٹمی ہتھیار استعمال میں لانے کے لیے تیار نہیں کیے جاتے‘ روایتی ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ ایٹمی ہتھیار بھی زیادہ سے زیادہ تعداد میں تیار کیے جا رہے ہیں۔ پوری دنیا‘ خصوصاً ترقی یافتہ ممالک ان ہتھیاروں کی تیاری پر کتنا پیسہ خرچ کرتے ہیں اور جو ممالک ان جدید ترین اور مہلک ہتھیاروں کو خود تیار نہیں کر سکتے‘ وہ ان کی خرید پر کتنا سرمایہ خرچ کر رہے ہیں‘ اس کا اندازہ کرنے کیلئے سویڈن کے سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (SIPRI) کی 2019 میں چھپنے والی سالانہ رپورٹ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ اس رپورٹ کے مطابق سال 2018 میں دنیا بھر میں ہتھیاروں کی تیاری پر جو رقم خرچ کی گئی‘ اس کی کل مالیت ایک ہزار آٹھ سو بائیس بلین ڈالر (1822 Billion) بنتی ہے جو کہ دنیا کے تمام ممالک کی مجموعی پیداوار (GDP) کا 21 فیصد ہے۔ سب سے زیادہ رقم (649 بلین ڈالر) امریکہ نے خرچ کی جو باقی تمام ممالک کے جنگی اخراجات کا 36 فیصد ہے۔ دوسرا نمبر چین کا ہے‘ جس نے اگرچہ 250 ملین ڈالر مالیت کے ہتھیار تیار کیے؛ تاہم امریکہ کے مقابلے میں یہ رقم کہیں کم ہے۔ وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے ممالک‘ جن میں پاکستان اور بھارت بھی شامل ہیں‘ نے اُس برس اسلحے کی تیاری و خریداری پر 85 بلین ڈالر خرچ کیے‘ جو کہ دنیا کے اسلحے پر مجموعی اخراجات کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔ اس کے باوجود ان ممالک کی معاشی صورتحال اور مجموعی قومی آمدنی کے تناظر میں یہ خاصی بڑی رقم محسوس ہوتی ہے۔ 
اس سے ثابت ہوا کہ نیشنل سکیورٹی کا جو مفہوم ہمارے ہاں رائج ہے‘ اس کے تحت ابھی تک سکیورٹی کو اولین ترجیح دی جاتی ہے‘ حالانکہ گزشتہ چند عشروں سے نیشنل سکیورٹی کا مطلب اب صرف ملٹری سکیورٹی کے معنوں میں نہیں لیا جاتا‘ بلکہ ہیومن سکیورٹی کے وسیع تر تناظر میں دیگر عوامل یعنی معاشی ترقی‘ ماحولیات‘ توانائی‘ خوراک‘ تعلیم اور صحت کو بھی برابر کی اہمیت دی جاتی ہے۔ مگر کورونا وائرس کی وبا پھوٹ پڑنے کے بعد دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں جو افراتفری پھیل چکی ہے‘ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نیشنل سکیورٹی کے نان ملٹری عوامل میں سے ایک یعنی صحت کے شعبے میں ایک ایسے انفراسٹرکچر کی تعمیر نہیں کی گئی‘ جو کورونا وائرس جیسی وبا کی روک تھام کیلئے فوری اور مؤثر طور پر حرکت میں آ سکتا‘ حالانکہ صحت پر عالمی سطح پر گورنمنٹ اور نان گورنمنٹ فی کس سالانہ اخراجات میں بہت اضافہ ہوا ہے‘ لیکن عالمی ادارہ صحت (WHO) کے ایک جائزے کے مطابق اس میں حکومت (پبلک سیکٹر) کا حصہ بتدریج کم ہوتا جا رہا ہے۔ زیادہ تر لوگوں کو اپنی جیب سے ہی اپنی صحت اور علاج معالجے پر پیسے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کورونا وائرس جیسی تیزی سے پھیلنے والی وبا کا مؤثر مقابلہ کرنے کے لئے جس قسم کے انفراسٹرکچر یعنی ہسپتالوں‘ ڈاکٹروں‘ پیرامیڈیکل سٹاف کی تعداد میں ضرورت کے مطابق اضافہ اور تشخیص‘ تحقیق اور علاج معالجہ کے لئے جو ضروری سازوسامان درکار ہوتا ہے‘ دستیاب نہیں ہے۔ یہاں تک کہ امریکہ‘ جہاں صحت پر فی کس سالانہ خرچ 8362 ڈالرز ہے‘ میں بھی ماہرین نے تنبیہہ کی ہے کہ کورونا وائرس جس تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے‘ خطرہ ہے کہ آئندہ تین چار ماہ میں امریکہ کی تقریباً 60 فیصد آبادی متاثر ہو گی اور اس صورت میں امریکہ کا موجودہ ہیلتھ انفراسٹرکچر جواب دے سکتا ہے۔ اٹلی‘ جہاں کورونا وائرس سے ہونے والی اموات بدقسمتی سے چین سے بھی بڑھ گئی ہیں‘ کے بارے میں یہ سوال سنجیدہ بحث کا موضوع ہے کہ آخر کار اٹلی میں اس صورتحال کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما ہیں؟ بہت سے لوگوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ان میں سے ایک اٹلی کا ناکافی اور پُرانا ہیلتھ انفراسٹرکچر ہے‘ جو دبائو پڑنے پر صورتحال کو قابو میں نہیں رکھ سکا۔ برطانیہ میں اپوزیشن لیڈر جیریمی کوبرین نے وزیر اعظم بورس جانسن کی قدامت پسند حکومت پر الزام لگایا ہے کہ ان کی پارٹی کے مختلف ادوارِ حکومت میں صحت کے لیے پبلک سیکٹر فنڈنگ میں جو بتدریج کمی کی جاتی رہی‘ وہ برطانیہ میں کورونا وائرس کے بے قابو ہونے کی ایک وجہ ہے۔
اگر دنیا کے ترقی یافتہ ممالک‘ جو آبادی کے لحاظ سے دنیا کی کل آبادی کا صرف 18 فیصد ہونے کے باوجود صحت پر اٹھنے والے کل عالمی اخراجات (6.5 ٹریلین ڈالر) کا 80 فیصد خرچ کرتے ہیں‘ کی یہ حالت ہے تو پاکستان جیسے غریب اور پس ماندہ ملک میں یہ مسئلہ کتنی سنگین صورت اختیار کر سکتا ہے‘ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ عالمی ادارہ صحت کی رائے ہے کہ کورونا وائرس جیسی وبائوں کا مقابلہ کرنے کیلئے مغربی ممالک بنیادی انفراسٹرکچر کی تعمیر پر توجہ نہیں دے رہے ہیں۔ پھر بھی دنیا صحت کی طرف زیادہ توجہ دے رہی ہے اور اس پر پرائیویٹ اور پبلک سیکٹر کی طرف سے اخراجات میں اضافہ ہو رہا ہے‘ مگر پاکستان میں قومی بجٹ میں صحت کے لیے مختص رقم میں بتدریج کمی ہو رہی ہے‘ جس کی وجہ سے لوگوں کی بڑی تعداد کو پرائیویٹ ہسپتالوں اور معالجوں پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد صحت کو صوبوں کی تحویل میں دے دیا گیا ہے اس لیے وفاقی بجٹ میں صحت کے لیے مختص رقم کو بتدریج کم کیا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ سے اب صحت کے شعبے میں اخراجات کو پورا کرنا صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے مگر 17ویں این ایف سی ایوارڈ کے تحت محصولات اور ٹیکسوں کی مد میں صوبوں کو اپنے حصے کی پوری رقم نہ ملنے کی وجہ سے صوبے بھی مطلوبہ رقم خرچ کرنے سے قاصر ہیں۔ اس کے نتیجے میں ملک میں نہ صرف ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل سٹاف کی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے بلکہ ہسپتالوں میں مریضوں کو لٹانے کیلئے بستروں‘ تشویشناک حالت میں بیمار مریضوں کے علاج کیلئے درکار سامان مثلاً وینٹی لیٹرز اور خود ڈاکٹروں کی حفاظت کیلئے ضروری سامان کی شدید کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس کمی کی وجہ سے کورونا وائرس جیسی موذی وبا کا مقابلہ کرنے کیلئے سخت دقت پیش آ رہی ہے۔ کئی مقامات پر ڈاکٹرز اور نرسوں نے پرسنل پروٹیکشن کٹس کی عدم دستیابی میں کورونا وائرس کے مریضوں کا علاج کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ پاکستانی ماہرین کا اندازہ ہے کہ آئندہ تین چار ماہ میں کورونا وائرس کی وبا شدت اختیار کرے گی اور لاکھوں افراد کا اس مرض سے متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔ اس میں سے کم از کم 10 فیصد مریض یقیناً ایسے ہوں گے‘ جنہیں فوری طور پر وینٹی لیٹرز کی ضرورت پڑے گی۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA) کے ذرائع کے مطابق اس وقت ملک میں 1700 وینٹی لیٹرز پبلک ہیلتھ سیکٹر اور 600 پرائیویٹ سیکٹر میں موجود ہیں‘ جبکہ وہ مریض جنہیں ان کے استعمال کی فوری ضرورت پڑ سکتی ہے‘ ان کی تعداد ہزاروں تک پہنچ سکتی ہے۔ حکومت اور اس کے ادارے اس کمی کو پورا کرنے کیلئے سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں۔ این ڈی ایم اے کے ذرائع کے مطابق ڈاکٹروں کی حفاظت کیلئے 12500 پرسنل پروٹیکشن کٹس‘ دو لاکھ این 95 ماسک اور کورونا وائرس کی تشخیص کے لئے 100000 کٹس کا آرڈر دیا جا چکا ہے۔ یہ اقدامات فوری خطرے کا مقابلہ کرنے کیلئے مددگار ثابت ہوں گے‘ مگر صحت کو نیشنل سکیورٹی کے ایک اہم شعبے کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے ملک کیلئے ایک طویل المیعاد ہیلتھ کیئر سسٹم اور ضروری انفراسٹرکچر کی تعمیر کی بھی ضرورت ہے تاکہ کسی بھی ہنگامی صورت میں حالات پر قابو پایا جا سکے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں