ایوانِ زیریں (پاکستان میں قومی اسمبلی) میں سالانہ قومی بجٹ پیش ہونے کے بعد اس پر عام بحث کیلئے دن مقرر کیا جاتا ہے۔ اسی دیرینہ روایت کے تحت سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے بجٹ پر عام بحث کیلئے پیر 14 جون کا دن مقرر کیا۔ بحث کا آغاز قائدِ حزبِ اختلاف کی تقریر سے ہوتا ہے۔ اس کے جواب میں قائدِ ایوان (وزیر اعظم) تقریر کرتے ہیں۔ چونکہ وزیر اعظم شاذونادر ہی قومی اسمبلی میں تشریف لاتے ہیں‘ اس لئے فیصلہ ہوا کہ قائدِ حزبِ اختلاف کی تقریر کے بعد وزیر اعظم کی جگہ وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی تقریر کریں گے۔ مقررہ دن جب قائدِ حزبِ اختلاف نے اپنی تقریر کا آغاز کیا تو حکمران پارٹی پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے وزرا اور اراکین اسمبلی ہال میں اپنی نشستوں پر کھڑے ہو گئے‘ زور زور سے ڈیسک بجانے لگے اور قائدِ حزبِ اختلاف اور اپوزیشن پر جملے کسنے لگے۔ توقع کے مطابق شہباز شریف نے بجٹ اور حکومت کی معاشی پالیسیوں پر سخت تنقید کی اور غریبوں اور مفلسی کا شکار لوگوں کیلئے انتہائی تکلیف دہ قرار دیتے ہوئے بجٹ کو جعلی بجٹ کا نام دیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی معاشی پالیسی ناکام ہو چکی ہے۔ حکومتی ارکان نے اپوزیشن لیڈر کی تقریر کے دوران 'چور چور‘ کے نعرے لگائے‘ جس پر اپوزیشن والے بھی اشتعال میں آ گئے اور انہوں نے حکومت کے خلاف جوابی نعرے لگانا شروع کر دیئے۔ صورتحال اس قدر خراب ہو گئی کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ ایوان میں مچھلی منڈی کا سماں تھا۔ دونوں طرف سے نعرے بازی‘ جملے بازی اور دھمکیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ اپوزیشن نے الزام عائد کیا ہے کہ اس ہنگامہ خیزی کی قیادت وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کر رہے تھے مگر اگلے دن انہوں نے اس سے انکار کرتے ہوئے اپوزیشن کے الزام کو بے بنیاد قرار دیا؛ تاہم یہ حقیقت ہے کہ شہباز شریف اپنی تقریر جاری نہ رکھ سکے۔ سپیکر نے اجلاس مختصر وقت کیلئے ملتوی کر دیا اور حکومت و اپوزیشن‘ دونوں طرف سے تعلق رکھنے والے اراکین اور رہنمائوں کو اپنے چیمبر میں بلا کر پرامن ماحول میں بحث جاری رکھنے پر اتفاق حاصل کرنے کی کوشش کی‘ مگر کامیاب نہ ہو سکے‘ اور اسمبلی کا اجلاس اگلے دن کیلئے ملتوی کر دیا گیا۔
دوسرے دن یعنی 15 جون کو جب اسمبلی کے اجلاس میں قائدِ حزبِ اختلاف نے اپنی تقریر شروع کی تو مخالف فریق کی جانب سے پہلے سے زیادہ ہلڑ بازی کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا‘ جس میں کابینہ کے چند اراکین بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے نظر آئے۔ یہ ایک قسم کا فری فار آل سین تھا‘ جس میں اخلاق‘ مروت اور شائستگی کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ کوئی شک نہیں کہ ہنگامہ آرائی میں حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں کے ارکان نے حصہ لیا‘ ایک دوسرے کو گالیاں دیں‘ ہاتھا پائی کی اور بجٹ کی بھاری کتابوںسے ایک دوسرے کو ہٹ کرنے کی کوشش کی‘ لیکن حکمران پارٹی‘ خصوصاً کابینہ کے اراکین کا اس عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا اس لئے زیادہ افسوسناک ہے کہ قومی اسمبلی کی کارروائی کو پُرامن رکھنے کی اولین ذمہ داری حکومت کی ہے۔
پارلیمانی نظام میں مقننہ اور انتظامیہ کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ انتظامیہ مقننہ کی پیداوار ہے اور اس کے سامنے جواب دہ ہے۔ مقننہ کو چلانے‘ دیگر الفاظ میں اسے اپنے فرائض کی انجام دہی میں مدد دینے کی ذمہ داری انتظامیہ یعنی وزیر اعظم کی قیادت میں کابینہ کی ہے۔ درست کہ اپوزیشن کو بھی اس ذمہ داری سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا‘ لیکن زیادہ سٹیکس حکومت کے ہوتے ہیں کیونکہ عوام نے انتخابات کے ذریعے انہیں اختیارات استعمال کرنے کا مینڈیٹ دیا ہوتا ہے اور ریاست کے اغراض و مقاصد‘ جن میں تحفظ کی فراہمی‘ امن و امان کا قیام‘ ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے حصول کی ذمہ داری شامل ہے‘ بھی تفویض کئے ہوتے ہیں۔
اپوزیشن اپنی نوعیت کے لحاظ سے حکومت کی ضد ہوتی ہے‘ اور حکومتِ وقت کے خلاف احتجاج کرنا ناصرف اس کا دستور ہے بلکہ اسے اس کا حق حاصل ہے‘ لیکن بجٹ پر بحث کے سیشن کے پہلے تین دن حکومت اور اپوزیشن کے رول بدل گئے ہیں۔ اپوزیشن کے بجائے حکومت احتجاج کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ ان تین دنوں میں جو کچھ ہوا‘ اس کی ذمہ داری حکومت اپوزیشن پر اور اپوزیشن حکومت پر ڈال رہی ہے‘ لیکن ایوان میں اس ہنگامہ آرائی کے بارے میں جو رپورٹس موصول ہوئی ہیں‘ ان کے مطابق قائدِ حزبِ اختلاف کی تقریر شروع ہوتے ہی حکومتی ارکان نے شور شرابہ شروع کر دیا‘ جس سے صاف معلوم ہو رہا تھا کہ حکومت کسی قیمت پر شہباز شریف کو تقریر مکمل کرنے کا موقع نہیں دے گی۔ اسی کی بنیاد پر اپوزیشن‘ خصوصاً مسلم لیگ (ن) کا دعویٰ ہے کہ یہ سب کچھ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا جا رہا ہے اور اس کا نشانہ اپوزیشن‘ نون لیگ یا محض شہباز شریف نہیں بلکہ 1973 کے آئین کے تحت قائم شدہ پارلیمانی سیاسی نظام ہے۔ نون لیگ کے ایک سرکردہ رہنما نے الزام عائد کیا ہے کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن کو غیر موثر کرنے کی حکومتی کوشش دراصل اس مہم کا تسلسل ہے‘ جس کے تحت اقتدار حاصل کرنے سے پہلے تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت نے پارلیمنٹ کو چوروں‘ ڈاکوئوں اور کرپٹ لوگوں کا ٹولہ قرار دیا تھا۔ اپوزیشن کی طرف سے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ پارلیمنٹ میں ہنگامہ کرکے حکومت اسے عوام اور ہر کسی کی نظر میں بے توقیر کرنا چاہتی ہے تاکہ صدارتی نظام کا جواز پیدا کیا جا سکے‘ کیونکہ موجودہ سیٹ اپ میں پارلیمان اور صوبوں کو زیادہ سے زیادہ خود مختاری کے تحت وفاقی نظام بعض حلقوں کے مفادات کو پورا نہیں کرتا‘ اور اس نظام کے خلاف اور صدارتی نظام کے حق میں پہلے ہی مہم جاری ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کی تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔ 1958 میں ایوب خان کے مارشل لا سے پہلے مشرقی پاکستان اسمبلی میں بھی اسی قسم کی ہنگامہ آرائی کی گئی تھی‘ جس میں ڈپٹی سپیکر کی جان چلی گئی تھی۔ 1958 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد فوجی حلقوں نے مارشل لا کو جن وجوہات اور واقعات کی بنیاد پر جائز قرار دیا تھا‘ ان میں مشرقی پاکستان کا یہ افسوسناک واقعہ بھی شامل ہے۔ اپوزیشن کا الزام ہے کہ حکومت پارلیمنٹ کو ہنگامہ آرائی کے ذریعے مفلوج کرکے یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ پاکستان میں پارلیمانی نظام نہیں چل سکتا‘ اور ملک میں سیاسی استحکام‘ امن و امان اور معاشی ترقی صرف اسی صورت ممکن ہے کہ یہاں اختیارات کی مرکزیت پر مبنی صدارتی نظام نافذ کیا جائے۔
قومی اسمبلی میں تین روز حالات کو قابو میں رکھنے میں ناکام ہونے کے بعد سپیکر اسد قیصر حکومتی اور اپوزیشن ارکان پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دے کر فریقین کو ایوان میں ایک پُرامن بحث پر راضی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ جس میں کچھ کامیابی ملی ہے کہ چوتھے روز حالات بہتر رہے‘ اور لیڈر آف دی اپوزیشن شہباز شریف نے بجٹ کے حوالے سے اپنی تقریر مکمل کی۔ بہرحال اپوزیشن کا خیال ہے کہ حکومت اپنی پرفارمنس اور خامیوں پر تنقید برداشت نہیں کر سکتی۔ شہباز شریف کو تقریر کا موقع نہ دینے کی دیگر وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔ بجٹ اور ملک میں معاشی صورتحال کے بارے میں شہباز شریف نے اب تک جو کچھ کہا ہے اور اگر انہیں موقع دیا گیا تو آئندہ جو کچھ کہیں گے‘ وہ عام آدمی کی رائے سے مختلف نہیں۔ اپوزیشن کسی قسم کی لچک کا مظاہرہ کرنے کے موڈ میں نہیں۔ اسی لئے اس نے سپیکر کی طرف سے تین حکومتی اور چار اپوزیشن اراکین اسمبلی کو ہنگامہ آرائی میں ملوث ہونے کے الزام میں ایوان سے باہر رکھنے کے فیصلے کو مسترد کر دیا۔ اگر 22 جون کو شہباز شریف اور 24 جون کو حمزہ شہباز کو گرفتار کر لیا جاتا ہے تو حکومت اور اپوزیشن کے مابین کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گا۔ اس کا فائدہ اپوزیشن اور نہ حکومت کو ہو سکتا ہے‘ البتہ سیاسی نظام عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے‘ جو اپوزیشن کے الزام کے مطابق حکومت کا اصل مقصد ہے۔