افغانستان سے امریکہ کے انخلا اور کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد خطے میں جن علاقائی طاقتوں کے ممکنہ کردار پر خصوصی طور پر بحث ہو رہی ہے‘ ان میں چین سرِ فہرست ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ چین ایک ابھرتی ہوئی طاقت اور دنیا کی دوسری سب سے مضبوط معیشت ہے۔ افغانستان کے ارد گرد کے خطوں مثلاً وسطی ایشیا‘ جنوبی ایشیا‘ مغربی ایشیا (خلیج فارس اور مشرقِ وسطیٰ) میں چین ایک سرمایہ کار اور اہم تجارتی پارٹنر کی حیثیت سے پہلے ہی موجود ہے۔ افغانستان کی سابقہ حکومتوں (حامد کرزئی اور اشرف غنی) کے ادوار میں چین اور افغانستان کے مابین دوستانہ اور قریبی تعلقات تھے۔ متعدد شعبوں‘ خصوصاً کان کنی میں چین نے سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور وہاں کئی ترقیاتی منصوبے مکمل کئے ہیں۔ ان میں افغانستان کے زرعی پیداوار کے علاقے میں پانی کے ذخیرے کی تعمیر بھی شامل ہے۔
موجودہ اور پُرانے (1979-89) دونوں ادوار میں افغانستان کے مسئلے کے ساتھ چین کا اہم واسطہ رہا ہے۔ چین ان ممالک میں شامل تھا‘ جنہوں نے 1979 میں افغانستان میں سوویت یونین کی مداخلت اور قبضے کی سخت مخالفت کی تھی البتہ نائن الیون کے بعد افغانستان میں امریکہ اور نیٹو افواج کی موجودگی کی مخالفت نہیں کی‘ تاہم گزشتہ بیس برسوں کے دوران چین کی طرف سے افغانستان میں ہونے والی غلطیوں اور انسدادِ دہشت گردی سے ہٹ کر خطے میں چین کے خلاف امریکی مہم کو ہدف تنقید بنایا جاتا رہا ہے۔ افغانستان کے مسئلے کے بارے میں چین کا موقف یہ ہے کہ یہ امریکہ کا پیدا کردہ ہے۔ افغانستان میں جو تباہی اور بربادی ہوئی ہے‘ اس کی ذمہ داری امریکہ پر عائد ہوتی ہے اور اس ساری خرابی کا امریکہ ہی اصل مجرم ہے۔ چین نے افغانستان سے امریکی انخلا پر خاص طور پر تنقید کی ہے کہ اسے عجلت میں عمل میں لایا گیا اور کسی تسلی بخش سیاسی حل کے بغیر افغانستان سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔
سابقہ افغان حکومتوں کے ساتھ دو طرفہ بنیادوں پر قریبی تعلقات کے ساتھ ساتھ چین کا طالبان کے ساتھ بھی رابطہ رہا ہے بلکہ وہ امریکہ‘ روس اور پاکستان کے ساتھ مل کر افغان مسئلے کا حل تلاش کرنے کی کوششوں میں بھی مصروف رہا ہے۔ اس لیے افغانستان سے امریکہ کے چلے جانے کے بعد خطے اور خصوصاً افغانستان میں چین کے ممکنہ کردار پر مختلف قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔ ایک تھیوری‘ جس کا منبع مغربی میڈیا ہے‘ کے مطابق امریکی انخلا کا سب سے زیادہ فائدہ چین کو ہوا ہے اور وہ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خلا کو پُر کرنے کی کوشش کرے گا۔ چین کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے کی خواہش پر مبنی طالبان کی طرف سے جو بیانات جاری کئے گئے ہیں‘ ان سے اس امکان کو مزید تقویت حاصل ہوئی ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ افغانستان سے امریکہ کے نکل جانے کے بعد خطے کا جیو پولیٹیکل نقشہ بنیادی طور پر تبدیل ہو جائے گا اور چین‘ پاکستان‘ افغانستان‘ ترکی اور ایران پر مشتمل ایک نیا اتحاد وجود میں آنے والا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جنوبی اور مغربی ایشیا کے خطوں کے ساتھ چین کے اہم دفاعی‘ تجارتی اور معاشی مفادات وابستہ ہیں‘ اور ان خطوں کے بارے میں چین کی پالیسی کا بڑا مقصد نہ صرف ان مفادات کو تحفظ فراہم کرنا بلکہ فروغ دینا ہے‘ مگر افغانستان سے امریکیوں کے انخلا کے بعد افغانستان اور جنوبی ایشیا کے بارے میں چینی کردار کے بارے میں جو قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں‘ ان کا اگر چین کی گزشتہ چار دہائیوں کی خارجہ اور علاقائی پالیسی کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ان میں سے بہت سی نہ صرف غیر حقیقت پسندانہ بلکہ بے بنیاد ہیں۔ یہ قیاس آرائیاں یا تو چین کی موجودہ علاقائی اور خارجہ پالیسی سے لا علمی کی بنیاد پر کی جا رہی ہیں یا پھر ان کا مقصد جنوبی اور مغربی ایشیا کے ان ممالک‘ جن کے ساتھ چین نے قریبی تجارتی اور اقتصادی تعلقات قائم کر رکھے ہیں‘ میں چین کے خلاف غلط فہمیاں پیدا کر کے ان کو نقصان پہنچانا ہے۔چین متعدد ایسی بین الاقوامی تنظیموں کا رکن ضرور ہے‘ جن کا مقصد علاقائی سطح پر تعاون برائے ترقی ہو‘ مثلاً شنگھائی تعاون تنظیم۔ اسی مقصد کے تحت چین نے آسیان اور سارک سے اپنے آپ کو وابستہ کر رکھا ہے‘ لیکن چین کسی فوجی الائنس کا رکن نہیں ہے۔ نہ ہی چین نے کسی ملک میں اپنا فوجی اڈا قائم کر رکھا ہے۔ یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ اس کے کوئی جارحانہ عزائم ہیں۔ معاشی ترقی البتہ ہدف ضرور ہے۔
چین دوسرے ملکوں کے ساتھ صرف دو طرفہ بنیادوں پر برابری‘ باہمی احترام‘ باہمی مفاد اور عدام مداخلت کے اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے تعلقات قائم کرتا ہے۔ اسی طرح چین دوسرے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو کسی تیسرے ملک کے ساتھ مشروط نہیں کرتا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ جدید چین کے بانی ڈینگ یائو پنگ کے وژن کے مطابق چین کی ساری توجہ اندرون ملک اور ملک کی سرحدوں سے منسلک دیگر ملکوں اور خطوں میں امن پر مرکوز ہے کیونکہ قومی ترقی کے لیے علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر امن کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لداخ میں بھارت اور بحرالکاہل کے خطے میں امریکہ کی اشتعال انگیز کارروائیوں کے باوجود چین نے کبھی کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا جس کے نتیجے میں علاقائی یا بین الاقوامی امن خاکستر ہو جائے؛ البتہ چند معاملات کو چین سخت تشویش کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ ان میں مذہبی انتہا پسندی‘ علیحدگی پسندی اور دہشت گردی شامل ہیں۔ ان خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے چین نے قریبی تعاون پر مبنی جنوبی اور وسطی ایشیا کے متعدد ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کر رکھے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ البتہ اس کے تعلقات خصوصی نوعیت کے ہیں‘ لیکن پاکستان کے ساتھ بھی چین کا کوئی رسمی قومی معاہدہ نہیں‘ اس کے باوجود عسکری اور معاشی شعبوں میں دونوں ملکوں کے مابین بہت قریبی تعلقات قائم ہیں۔
طالبان کے افغانستان کے بارے میں چین کا نقطہ نظر کیا ہو گا؟ یہ معلوم کرنے کے لیے 3 جون 2021 کو ویڈیو لنک کے ذریعے منعقدہ پاکستان‘ چین اور افغانستان کے سہ فریقی فورم کی کانفرنس کے اختتامی اعلان کو پڑھ لیجیے۔ اس اعلان میں تینوں ملکوں نے اس عزم کا اظہار کر رکھا ہے کہ خطے میں کسی ملک کو دہشت گرد تنظیموں کا افزائشی مرکز بننے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس اعلان میں ایک آزاد اور غیر جانب دار افغانستان کی حمایت کی گئی ہے اور امید ظاہر کی گئی ہے کہ آئندہ کا افغانستان اعتدال پسندی کی راہ اختیار کرے گا اور دہشت گردی کے خلاف ثابت قدمی کے ساتھ جنگ کرے گا تاکہ مختلف شعبوں میں باہمی تعاون کو مضبوط بنایا جا سکے اور عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لیے افغانستان کو بیلٹ اینڈ روڈ کا ایک مفید رکن بنایا جا سکے۔ افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد طالبان نے بھی اپنے ملک کو چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) کا حصہ بنانے کی حمایت کی ہے‘ لیکن بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے سے پوری طرح فائدہ اٹھانے کے لیے محض افغانستان کی شمولیت کافی نہیں۔ اس کے لیے وسطی اور جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کو بھی شامل کرنا پڑے گا‘ مگر اس کے لیے تصادم اورکشیدگی سے پاک ایک پُرامن ماحول کی ضرورت ہے اور ایسا ماحول صرف اس صورت میں پیدا ہو سکتا ہے جب دہشت گردی‘ انتہا پسندی اور علیحدگی پسندی کے رجحانات کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ امن اور تعاون پر مبنی تعلقات قائم کیے جائیں۔ چین کی علاقائی حکمت عملی کے یہ بنیادی اصول ہیں اور مختلف قیاس آرائیاں کرنے والے حلقوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ چین ان پر ثابت قدمی کے ساتھ کاربند ہے۔