اسلام آباد میں 19 دسمبر کو اسلامی تنظیم برائے تعاون (او آئی سی) کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کا جو غیرمعمولی اجلاس ہوا، وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے دوسرا اہم اجلاس تھا۔ اس سے قبل جنوری 1980ء میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا ایک ہنگامی اجلاس اسلام آباد میں ہی منعقد ہوا تھا اور جیسا کہ وزیر اعظم عمران خان نے کانفرنس کے پہلے سیشن میں اپنی تقریر میں ذکر کیا‘ اس وقت بھی واحد زیر بحث مسئلہ افغانستان کی صورتحال تھی۔ اس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ آج سے 41 برس قبل افغانستان کا جو دورِ ابتلا شروع ہوا تھا، وہ اب بھی جاری ہے۔ تب بھی او آئی سی وزرائے خارجہ کانفرنس منعقد کرنے کا مقصد افغانستان کے عوام کی امداد کیلئے بین الاقوامی برادری کو حرکت میں لانا تھا اور آج بھی افغانستان کے عوام کو بھوک، قحط، بیماری، بیروزگاری اور 20 سالہ جنگ سے پیدا شدہ دیگر مسائل سے نجات دلانے کیلئے دنیا کو آواز دی جا رہی ہے۔ موضوع اگرچہ ایک ہی ہے لیکن آج اور 41 برس پہلے کے افغان مسئلے اور اس پر بین الاقوامی برادری کے رد عمل کا موازنہ کیا جائے تو زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔
جنوری 1980ء میں او آئی سی وزرائے خارجہ غیرمعمولی کانفرنس افغانستان پر روس کے حملے اور پورے ملک پر غیرملکی افواج کے قبضے سے پیدا ہونے والی صورتحال پر غور کیلئے بلائی گئی تھی۔ افغانستان پر روس کے قبضے کے نتیجے میں لاکھوں افغان باشندوں کو اپنے گھر بار چھوڑ کر ہمسایہ ملک خصوصاً پاکستان میں پناہ لینا پڑی۔ 1980ء میں افغانستان کا جو مسئلہ پیدا ہوا، اس کے دو پہلو تھے۔ اول‘ کسی طرح سوویت یونین کو افغانستان سے فوجیں واپس بلانے پر مجبور کیا جائے۔ دوم‘ ملک میں پناہ لینے والے لاکھوں افغان مہاجرین کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد مہیا کی جائے۔ جنوری 1980ء میں اسلام آباد میں منعقد ہونے والی مسلم وزرائے خارجہ کانفرنس کے اختتام پر افغانستان میں روسی مداخلت کو ایک ''آزاد، خود مختار، مسلمان اور غیرجانبدار ملک‘‘ کیخلاف کھلی جارحیت قرار دیا گیا‘ اور ملک سے تمام غیرملکی (روسی) افواج کی فوری اور غیرمشروط واپسی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ یہی مطالبہ ہر سال جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں بھاری اکثریت سے منـظور کردہ قراردادوں میں دہرایا جاتا رہا۔ اس کے ساتھ امریکہ کی قیادت میں سوویت یونین کے خلاف عالمی سطح پر ایک زبردست سفارتی مہم کا آغاز کردیا گیا جس میں ماسکو اولمپکس کا بائیکاٹ بھی شامل تھا۔
جب سوویت یونین نے افغانستان میں اپنی فوجیں داخل کیں، امریکہ میں جمی کارٹر صدارت کے عہدے ہر فائز تھے۔ انہوں نے دھمکی دی کہ اگر سوویت افواج نے افغانستان کی سرحدوں کو پار کرکے خلیج فارس اور بحرہند کی طرف پیشقدمی کی تو امریکہ اسے روکنے کیلئے طاقت کا استعمال کرے گا۔ صدر کارٹر کے اس اعلان کو ''کارٹر ڈاکٹرائن‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس کے ساتھ کارٹر نے افغانستان میں روسی فوجوں کی موجودگی کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے پاکستان کو 20 کروڑ ڈالر کی امداد کی پیشکش کی جسے جنرل ضیاء الحق نے ''مونگ پھلی‘‘ (peanuts) کہہ کر مسترد کر دیا؛ تاہم 1982ء میں رونلڈ ریگن کے صدر بننے کے بعد امریکہ کی طرف سے نہ صرف پاکستان کو اربوں ڈالرز کا ایڈ پیکیج فراہم کیا گیا بلکہ افغانستان میں سوویت فوجوں کے خلاف مزاحمتی جنگ کے حوالے سے افغان مجاہدین کیلئے ہتھیاروں کے انبار بھی لگا دئیے گئے۔
دوسری طرف افغان مہاجرین‘ جن میں اکثریت پشتون نسل سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی تھی‘ کیلئے نہ صرف امریکہ، یورپ بلکہ دنیا بھر کے ممالک نے امدادی سامان کے ڈھیر لگا دیئے۔ نقدی کی صورت میں ملنے والی امداد اس کے علاوہ تھی۔ بین الاقوامی برادری کی طرف سے افغان مہاجرین کو امداد فراہم کرنے کا یہ سلسلہ 1989 میں سوویت فوجوں کی واپسی تک جاری رہا۔ اس کے بعد افغانستان میں امریکہ اور بین الاقوامی برادری کی دلچسپی ختم ہوگئی‘ یوں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دی جانے والی امداد کا سلسلہ بھی بند ہوگیا‘ مگر افغان مہاجرین بدستور پاکستان میں مقیم رہے اور افغانستان کا مسئلہ بھی کسی نہ کسی صورت میں موجود رہا۔
افغانستان کا موجودہ بحران 1980ء میں پیدا ہونے والے مسئلے کا تسلسل نہیں بلکہ یہ مختلف حالات کی پیداوار ہے‘ اس لئے اس کے بارے میں بین الاقوامی برادری کا ردعمل مختلف ہے؛ البتہ ایک عنصر مشترک ہے۔ 1980ء میں بھی افغانستان کے مسئلے میں پاکستان کو مرکزی حیثیت حاصل تھی اور آج بھی پاکستان مرکزی کردار ادا کررہا ہے۔ اس لیے 1980ء کی طرح موجودہ مرحلے پر بھی پاکستان نے او آئی سی کے وزرائے خارجہ کی غیرمعمولی کانفرنس کا انعقاد کرکے افغانستان کی گمبھیر صورتحال کی طرف عالمی برادری کی توجہ مبذول کروانے کی کوشش کی ہے‘ کیونکہ 15 اگست کو طالبان کے قبضے کے بعد سے افغانستان میں معاشی صورتحال اس قدر خراب ہوچکی ہے کہ ملازمین کو کئی کئی مہینے تنخواہ نہیں مل رہی کیونکہ بینکنگ کا نظام مفلوج ہوچکا ہے۔ معیشت کے تمام شعبے بند پڑے ہیں۔ لوگ بھوک، بلکہ فاقہ کشی، بیماری، بیروزگاری کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت افغانستان کی چار کروڑ آبادی میں سے آدھے سے زیادہ لوگ خوراک کی کمی کا سامنا کررہے ہیں اور 90 لاکھ لوگوں کو بہت جلد قحط جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وزیر خارجہ پاکستان شاہ محمود قریشی نے عالمی برادری کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر افغانستان کے عوام کو فوری امداد فراہم کرنے کیلئے اقدامات نہ کئے گئے تواس کی معیشت مکمل طور پر بیٹھ جائے گی اور اس سے جو صورتحال پیدا ہوگی وہ افغان عوام کیلئے جس حد تک ناقابل برداشت ہوگی وہ تو عیاں ہے، مگر اردگرد کے ممالک بلکہ پوری دنیا بھی اثرات سے نہیں بچے گی۔
کانفرنس کے اختتام پر جو اعلامیہ جاری کیا گیا‘ اس میں ان سنگین خطرات کا اعتراف کیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے یہ کانفرنس نہ صرف ایک مثبت پیشرفت بلکہ ایک اہم کامیابی ہے۔ کانفرنس میں شریک مندوبین نے اپنی تقاریر میں اس کا اظہارکیا۔ 15 اگست کے بعد پاکستان کی افغان سفارت کاری کی یہ پہلی بڑی کامیابی ہے۔ اگرچہ افغانستان کو درپیش مسئلہ اس وقت تک حل نہیں ہوگا، جب تک بین الاقوامی برادری طالبان کی موجودہ حکومت کو ملک کی جائزاور قانونی کی حکومت تسلیم نہیں کرتی۔
کانفرنس میں شریک طالبان کے وفد کیلئے بھی یہ ایک مفید موقع ثابت ہوا ہے یہ جاننے کیلئے کہ اب تک دنیا میں سے ایک ملک نے بھی ان کی حکومت کو کیوں تسلیم نہیں کیا؟ امید ہے کہ اس کانفرنس کے بعد طالبان بھی ملک میں اپنی سخت گیر پالیسیوں میں نرمی دکھانے پر آمادہ ہوجائیں گے جیسا کہ توقع تھی، کانفرنس کے پلیٹ فارم سے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کی کوئی اپیل جاری نہیں کی گئی کیونکہ یہ آئٹم کانفرنس کے ایجنڈے میں شامل نہیں تھا‘ مگراس کانفرنس سے طالبان اور بین الاقوامی برادری اور اقوام متحدہ کے درمیان روابط بڑھانے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ او آئی سی کے سیکرٹری جنرل کے ماتحت افغانستان کیلئے ایک نمائندہ خصوصی کی تقرری اسی مقصد کیلئے کی گئی ہے۔ اگرچہ یہ کانفرنس بنیادی طور پر مسلم ملکوں کی تنظیم کے فورم سے بلائی گئی تھی‘ لیکن یورپی یونین، اقوام متحدہ، سکیورٹی کونسل کے پانچ مستقل ارکان (امریکہ، برطانیہ، روس، چین اور فرانس) اور جرمنی کے نمائندوں کے علاوہ افغانستان کیلئے امریکہ کے نمائندہ خصوصی تھامس ویسٹ اور متعدد علاقائی اور بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندوں کی شرکت نے اسے ایک بین الاقوامی کریکٹر بخشا ہے۔ اس لیے جیسا کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا ہے‘ اس کانفرنس کے پلیٹ فارم سے پھیلنے والا پیغام پوری دنیا تک پہنچے گا۔