پاکستان کے جنوبی حصوں خصوصاً سندھ اور بلوچستان کے وسیع علاقوں میں آنے والے سیلاب کے پانی کی سطح آہستہ آہستہ نیچے آ رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً 50فیصد رقبے سے پانی کو خارج کر دیا گیا ہے جس کے بعد متاثرہ افراداپنے علاقوں کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ ان میں کچھ اپنے تباہ شدہ مکانوں کی مرمت میں اور بہت سے اپنی عارضی پناہ گاہوں سے نکل کر اپنی زمینوں اور گھر بار کی طرف واپس جانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ حکام کے مطابق سیلابی پانی کے مکمل اخراج کیلئے ابھی تین چار ماہ کا عرصہ درکار ہے۔ جوں جوں سیلاب کے پانی کی سطح نیچے آ رہی ہے‘ اس کی تباہ کاریوں کے خدوخال بھی نمایاں طور پر سامنے آرہے ہیں۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق وسط جون سے ستمبر تک اس سیلاب کی وجہ سے دو لاکھ سے زیادہ مکان تباہ ہوئے یا ان کو اتنا شدید نقصان پہنچا ہے کہ وہ مناسب مرمت کے بغیر رہائش کے قابل نہیں ہیں۔ اس سیلاب میں تقریباً 1718افراد جاں بحق ہوئے‘ 12800زخمی ہوئے۔ جو لوگ سیلاب کی وجہ سے اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے ان کی تعداد 80 لاکھ ہے۔ ان میں 644000 ایسے افراد بھی شامل ہیں جو عارضی ریلیف کیمپوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ حالیہ سیلاب نہ صرف اپنے پیچھے تباہی اور بربادی کی ہولناک داستان چھوڑ گیا ہے بلکہ آنے والے وقت میں متاثرہ افراد کو صحت‘ خوراک‘ پینے کے لیے صاف پانی‘ حفظانِ صحت کی سہولتوں کی شدید کمی اور سیلابی پانی کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریاں لاحق ہونے کے خدشات کی بھی گھنٹی بجا رہا ہے۔ پاکستان ہی نہیں دنیا کے کسی بھی حصے میں جب بھی کوئی آفت بنی نوع انسان پر ٹوٹتی ہے تو معاشرے کے سب سے زیادہ کمزور طبقات‘ عورتیں اور بچے‘ اس کا سب سے پہلے اور سب سے زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ حالیہ سیلاب میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم عمل اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کی ایک حالیہ رپورٹ میں سیلاب کی تباہ کاریوں خصوصاً بچوں کی حالت زار کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے وہ پاکستان میں حکومت‘ فلاحی اداروں اور مخیر حضرات کیلئے ایک لمحۂ فکریہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ''جوں جوں سیلاب کے پانی کی سطح کم ہو رہی ہے‘ اس کی تباہ کاری کے آثار نمایاں ہوتے جا رہے ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں مکان تباہ ہو چکے ہیں یا انہیں شدید نقصان پہنچا ہے۔ لاتعداد ہسپتال‘ ڈسپنسریاں‘ بنیادی صحت کے مراکز ‘ واٹر سپلائی سسٹم اور سکول مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں یا ان کو نقصان پہنچا ہے۔ چھوٹے بچوں کو رات دن کھلے آسمان تلے اپنے والدین کے ساتھ رہنا پڑ رہا ہے‘ جہاں انہیں پینے کا صاف پانی تک دستیاب نہیں‘ کچھ کھانے کیلئے بھی نہیں‘ کوئی روزگار نہیں بلکہ وہ سیلاب کے نتیجے میں پیدا ہونے والی کئی بیماریوں اورخطرات‘ مہلک حادثات کی زد میں ہیں۔ سیلاب سے متاثرہ33ملین افراد میں بچوں کی تعداد16ملین ہے۔ بڑی عمر کے بچوں کے مقابلے میں چھوٹے بچے حادثات‘ بیماریوں اور خوراک کی کمی کا زیادہ شکار ہو رہے ہیں۔ وفاقی وزیر شیری رحمن کے مطابق سیلاب سے متاثر ہونے والے سندھ اور بلوچستان کے 72 اضلاع میں ہر طرف پانی ہی پانی تھا‘ یہاں تک کہ امدادی سامان سے لدے ہوئے ہیلی کاپٹرز کو اترنے کیلئے کوئی خشک جگہ نہیں مل رہی تھی۔ قومی اور بین الاقوامی حلقوں کے مطابق سیلاب سے 1700سے زیادہ انسانی اموات اور انفراسٹرکچر کو پہنچنے والے نقصان کے بعد آنے والے وقت میں متاثرہ افراد کو جو مسائل اور مشکلات درپیش آنے کا خطرہ ہے‘ وہ پہلے سے کہیں زیادہ باعثِ تشویش ہے۔ ان میں پہلے نمبر پر گندے پانی کی وجہ سے نئی بیماریاں پھوٹنے کا امکان ہے جسے عالمی ادارۂ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق حکومت پاکستان کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ سب سے زیادہ مخدوش صورتحال سندھ اور بلوچستان میں ہے جہاں ابھی تک کئی کئی فٹ پانی کھڑا ہے اور آبادی کے جس حصے کو اس سے فوری خطرہ لاحق ہو سکتا ہے‘ وہ ستر لاکھ عورتوں اور بچوں پر مشتمل ہے‘ جن کی جان بچانے کیلئے خوراک اوررہائش کی سہولتوں کی ضرورت ہے۔ ان میں سے 55لاکھ کو پینے کے صاف پانی کی سہولت میسر نہیں‘ حفظانِ صحت کی سہولتیں ناپید ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد کو صحت کے شعبے میں فوری مدد درکار ہے۔
این ڈی ایم اے کی رپورٹ کے مطابق سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں چھ لاکھ پچاس ہزار حاملہ عورتوں کو فوری طور پر زچہ بچہ سہولتیں فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ 40لاکھ کے قریب بچے ایسے ہیں جنہیں بیماری کی صورت میں علاج معالجے کیلئے کوئی سہولت میسر نہیں۔ سیلاب کا پانی اتر جانے کے بعد سیلاب متاثرین کو درپیش دوسرا بڑا مسئلہ خوراک کی فراہمی ہے۔ پاکستان اور بین الاقوامی تنظیموں کی متفقہ رائے ہے کہ اس وقت سیلاب متاثرین کی ایک بہت بڑی تعداد کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے اور آنے والے دنوں میں یہ مسئلہ اور بھی نازک صورت اختیار کر سکتا ہے کیونکہ سیلاب کے پانی نے نہ صرف کھڑی فصلوں‘ سبزیوں اور باغوں کو تباہ کر دیا ہے بلکہ ذرائع آب پاشی کو بھی اتنا نقصان پہنچایا ہے کہ ان کی مرمت پر خطیر رقم خرچ کرنے کے علاوہ اس کے فنکشنل ہونے میں بھی تاخیر ہو جائے گی۔ اس سے ملک میں اناج‘ سبزیاں‘ پھل اور کھانے پینے کی دیگر اشیا کی نہ صرف کمی واقع ہو گی بلکہ ان کی قیمتیں بھی عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو جائیں گی۔ حکومت کیلئے اس مسئلے پر قابو پانا ایک بہت بڑا چیلنج ہے کیونکہ اناج اور خوراک کی درآمد پر خرچ کرنے کیلئے مطلوبہ زر مبادلہ موجود نہیں‘ لیکن یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ورلڈ فوڈ آرگنائزیشن کے تخمینے کے مطابق دسمبر 2022ء سے مارچ 2023ء تک کے عرصہ کے دوران پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں میں ایک کروڑ 46 لاکھ افراد ایسے ہوں گے جنہیں ہنگامی بنیادوں پر خوراک مہیا کرنے کی ضرورت ہو گی۔
سیلاب کی وجہ سے نہروں اور کھالوں کو پہنچنے والے نقصانات اور مہنگائی کی وجہ سے فوڈ سکیورٹی کی صورتحال بھی مخدوش ہو نے کا خدشہ ہے۔ مویشیوں کی ایک بڑی تعداد کے سیلاب میں بہہ جانے‘ کھڑی فصلوں کی تباہی اور باغوں میں کئی کئی فٹ پانی کھڑا رہنے سے اناج‘ سبزیوں اور پھلوں کو جو نقصان پہنچا ہے‘ اس کا لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو دودھ‘ گوشت‘ اناج اور پھلوں کی کمی یا ان کے مہنگا ہونے کی صورت میں سامنا کرنا پڑے گا۔ این ڈی ایم اے کی رپورٹ کے مطابق سیلاب سے 70فیصد کھڑی فصلوں اور سبزیوں کو نقصان پہنچا ہے اور 30فیصد باغ متاثر ہوئے ہیں۔ حکومت کے ذرائع کے مطابق ان نقصانات کو پورا کرنے اور سیلاب زدہ علاقوں میں زندگی کو معمول پر لانے میں کم از کم تین سے چار سال کا عرصہ درکار ہے اور اس پر 30سے 40بلین ڈالر خرچ ہوں گے جو کہ حکومت کی بساط سے باہر ہے‘ اسی لیے موجودہ وفاقی حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی اداروں‘ اقوام متحدہ اور ڈونر ایجنسیوں سے فوری مدد کی اپیل کی ہے۔ اقوام متحدہ نے پاکستان کی امداد کیلئے عالمی برادری سے 160 ملین ڈالر کی جو ابتدا میں اپیل کی تھی اسے بھاری نقصان اور پاکستان کی معاشی مشکلات کے پیش نظر پانچ گنا کر دیا گیاہے۔ پاکستان نے درخواست کی ہے کہ اس رقم کو ریلیز کیا جائے تاکہ سیلاب سے متاثرہ افراد کی مدد اور تباہ شدہ انفراسٹرکچر کی تعمیر کا کام فوری طور پر شروع کیا جائے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عالمی برادری اورعالمی مالیاتی اداروں نے ملک میں سیلاب سے پیدا ہونے والی صورتحال کا سنجیدگی سے نوٹس لیا ہے اور اس ضمن میں امداد فراہم کرنے کے لیے اقدامات بھی کیے ہیں مگر بالآخر پاکستان کو یہ بوجھ خود اٹھانا ہوگا اور اس کیلئے ملک کے اندر امن‘ اتحاد اور تعاون کی فضا قائم کرنا ضروری ہے لیکن سیاسی محاذ آرائی‘ عدم برداشت اور انا پرستی کی وجہ سے ایسا ماحول قائم ہوتا نظر نہیں آتا۔ اس کی وجہ سے سیلاب زدگان کی امداد کی کوششیں متاثر ہو رہی ہیں۔