"DRA" (space) message & send to 7575

کھیل اور سیاست

سیاست ایک کھیل نہیں! جیسا کہ قدیم یونان کے فلسفی افلاطون نے کہا تھا کہ اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے کیونکہ اُس کے نزدیک یہ انسانی معاشرے کا اعلیٰ اور ارفع ترین عمل ہے۔ اسی لیے قدیم یونان میں شہریوں کیلئے اپنے حکام کے انتخاب یعنی سیاست میں حصہ لینا لازمی سمجھا جاتا تھا لیکن ہمارے ہاں سیاست کو ایک کھیل سمجھا جاتا ہے بلکہ کھیل پر اسے قربان کر دیا جاتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال بھارتی حکومت کا ایک حالیہ بیان ہے‘ جس میں کہا گیا ہے کہ اگلے برس پاکستان میں ہونے والے ایشیا کپ کے میچوں میں حصہ لینے کیلئے بھارتی ٹیم پاکستان نہیں جائے گی۔ پاکستان اور بھارت میں ہر شخص جانتا ہے کہ بھارتی حکومت کے اس فیصلے کے پیچھے سیاست ہے اور اس سیاست کا تعلق پاکستان اور بھارت کے درمیان گزشتہ تین سے زیادہ برسوں سے چلی آنے والی کشیدگی ہے۔ بھارت کے اس فیصلے سے دونوں ملکوں میں نہ صرف کرکٹ کے کروڑوں شائقین کو مایوسی ہوئی ہے بلکہ اس سے بھی بڑی تعداد میں ان لوگوں کے دل ٹوٹے ہیں جنہیں توقع تھی کہ پاکستان میں آ کر بھارتی ٹیم کرکٹ میچ کھیلے گی تو دونوں ملکوں کے درمیان موجودہ کشیدگی میں کمی آئے گی۔ ماضی میں ایسا ہو چکا ہے۔ اسے ''کرکٹ ڈپلومیسی‘‘ کا نام دیا گیا تھا اور اس میں حصہ لینے والے بڑے کھلاڑی پاکستان کے صدر ضیاء الحق اور بھارت کے وزیراعظم راجیو گاندھی تھے۔ سال 1987ء تھا اور مہینہ فروری کا۔ جنگی مشقوں کے بہانے بھارت نے نہ صرف کشمیر میں لائن آف کنٹرول (LOC) پر بلکہ پنجاب اور سندھ کے ساتھ ملنے والی بین الاقوامی سرحدوں پر بھی کیل کانٹے سے لیس لاکھوں کی تعداد میں فوج جمع کر رکھی تھی۔ بھارتی افواج کی اتنی بڑی تعداد میں موجودگی اور اس کے جارحانہ انداز میں پوزیشن لینے سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ ان کا ارادہ پاکستان پر حملہ کرنے کا ہے۔ اس حال میں صدر ضیاء الحق نے بھارتی وزیراعظم کو مطلع کیا کہ وہ بھارتی شہر جے پور میں کرکٹ میچ دیکھنا چاہتے ہیں۔ پاکستانی صدر کے اس فیصلے نے بھارتی حکومت کو تذبذب میں ڈال دیا اور اطلاعات کے مطابق ابتدا میں بھارتی وزیراعظم صدر ضیاء کو جے پور کے ہوائی اڈے پر ریسیو کرنے کیلئے تیار نہ تھے مگر مشیران کے کہنے پر تیار ہو گئے۔ صدر ضیاء الحق نے اسی دورے کے دوران بھارتی وزیراعظم کو پاکستان پر حملہ کرنے کے خلاف وارننگ دی کہ اس حملے سے دونوں ملکوں کے درمیان ایٹمی جنگ چھڑ جائے گی۔ بہرحال اس دورے کے دوران پاکستان اور بھارت کے درمیان سرحدوں پر آمنے سامنے کھڑی افواج کو پیچھے ہٹانے اور حالات کو معمول پر لانے کا فیصلہ ہوا اور یوں دونوں ملکوں میں ایک خطرناک اور تباہ کن جنگ کا خطرہ ٹل گیا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان ''کرکٹ ڈپلومیسی‘‘ کے ذریعے کشیدگی دور کرنے اور ڈیڈ لاک ختم کرنے کا ایک اور مظاہرہ 2011ء میں دیکھنے میں آیا۔ اس دفعہ بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ نے اپنے پاکستانی ہم منصب یوسف رضا گیلانی کو بھارتی شہر موہالی میں کرکٹ ورلڈ کپ کا سیمی فائنل میچ دیکھنے کی دعوت دی جو پاکستانی رہنما نے قبول کر لی۔ موہالی میں آمد اور اپنے بھارتی ہم منصب ڈاکٹر منموہن سنگھ کے ساتھ ملاقات کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں 2008ء کے ممبئی کے دہشت گردانہ حملوں کی وجہ سے پیدا شدہ تعطل ختم ہوا اور 2004ء میں کمپوزٹ ڈائیلاگ کے تحت شروع ہونے والے مذاکرات کے سلسلے کو دوبارہ شروع کر دیا گیا۔یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ انتہا پسند ہندو نظریے ہندتوا کی علمبردار مودی حکومت کے قیام سے پہلے پاکستان کی طرح بھارت بھی دونوں ملکوں کے درمیان کھیلوں بشمول کرکٹ اور ہاکی کے میچوں کے تبادلے کے حق میں تھا اور اس یقین کا حامل رہا کہ کھیلوں کے ذریعے دونوں ملکوں میں اعتماد سازی کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ 18اپریل 2003ء کو سری نگر میں آنجہانی بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی مشہور تقریر‘ جس میں انہوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر کی موجودگی کا اعتراف کرتے ہوئے دونوں ملکوں کے درمیان مفصل مذاکرات کی تجویز دی تھی‘ کے جواب میں اس وقت کے پاکستانی وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی نے جن شعبوں میں پاک بھارت تعاون کیلئے تجویز پیش کی تھی ان میں تجارت اور عوامی سطح پر رابطے کے علاوہ سپورٹس بھی شامل تھا۔
پاکستان اور بھارت کے رہنماؤں کے ایک دوسرے کیلئے خیر سگالی پر مبنی ان بیانات کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان نہ صرف سپورٹس کے شعبے میں تعاون میں اضافہ ہوا بلکہ نومبر 2003ء میں لائن آف کنٹرول کے آر پار ایک دوسرے پر فائرنگ اور گولہ باری ختم کرنے اور مستقل امن کے قیام کا بھی وہ مشہور معاہدہ ہوا جو اکا دکا خلاف ورزیوں کے باوجود ابھی تک قائم ہے‘ بلکہ گزشتہ سال فروری میں دونوں طرف سے اس معاہدے پر اس کی روح کے مطابق عمل کرنے کے عزم کے بعد لائن آف کنٹرول پر امن قائم ہے۔ جہاں تک پاکستان اور بھارت کے کرکٹ کے کھلاڑیوں کا تعلق ہے‘ وہ بھی اسے صرف ایک کھیل سمجھتے ہیں اور سیاست سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان ملک سے باہر کھیلے گئے کرکٹ میچز کے دوران‘ دونوں ملکوں کے کھلاڑیوں کے درمیان دوستانہ ماحول سے یہ حقیقت واضح طور پر سامنے آتی ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین رمیز راجہ تو پچھلے سال پاکستان اور بھارت کرکٹ کنٹرول بورڈز کے درمیان ایک باقاعدہ تعلق قائم کرنے کی تجویز پیش کر چکے ہیں۔ اپنے بیان میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ کے کھیل کو سیاست سے دور رہنا چاہیے۔ لیکن جب سے بھارت میں نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کی حکومت برسر اقتدار آئی ہے‘ کرکٹ بھی پاک بھارت تعلقات کی سیاست کا شکار ہو گیا ہے۔ یہ منفی طرز عمل دراصل بی جے پی کی سکہ بند نظریاتی ساتھی‘ مہاراشٹر کی جماعت ''شیوسینا‘‘ کے اس فعل کا تسلسل ہے جس کے تحت1991ء میں اس کے کارکنوں نے ممبئی میں پاکستان ٹیم کو کھیلنے سے روکنے کیلئے کرکٹ پچ اکھاڑ پھینکی تھی۔ شیو سینا نے کرکٹ ہی نہیں بلکہ آرٹ اور کلچر کے شعبوں میں بھی پاک بھارت تعاون کی سخت مخالفت کی‘ متعدد پاکستانی فنکاروں کو پرفارم کرنے سے روکا گیا۔ شیو سینا کے اس تعصب کو اب نریندر مودی کی حکومت نے باضابطہ بلکہ زیادہ شدید صورت میں اپنا لیا ہے۔ بھارت کی کرکٹ ٹیم کو پاکستان نہ بھیجنے کا فیصلہ اسی تعصب کی عکاسی کرتا ہے۔
نریندر مودی کی قیادت میں ہندو انتہا پسندوں کے اس طرزِ عمل میں پہلے سے زیادہ شدت آئی ہے۔ اس کی وجہ سے دونوں ملکوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت‘ عدم برداشت اور دشمنی پر مبنی ایسا ماحول پیدا ہوا ہے کہ کرکٹ جیسے دلچسپ اور صحت مندانہ کھیل کیلئے کھلاڑی ایک دوسرے کے ہاں نہیں جا سکتے۔ بھارتی کرکٹ کنٹرول بورڈ کی طرف سے ایشین کپ میچز میں شرکت کیلئے بھارتی ٹیم کو نہ بھیجنے کا اعلان اس لیے بھی حیران کن ہے کہ ایک روز قبل بعض حلقوں کی طرف سے اس ضمن میں مثبت اطلاع موصول ہوئی تھی۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ سیاسی وجوہات کی بنا پر کیا گیا ہے اور اس کی ذمہ دار براہِ راست بھارتی حکومت ہے۔ پاکستان کی طرح بھارت میں بھی کرکٹ معاملات کو کنٹرول کرنے والے ادارے اور کھلاڑی کھیل کو سیاست سے الگ رکھنے کے حامی ہیں لیکن انتہا پسندانہ ہندتوا نظریے کے حامی عناصر اسے روز بروز مشکل بنا رہے ہیں۔ اب تو نفرت اور عدم برداشت کا یہ زہر جنوبی ایشیا سے باہر ہندو اور مسلمانوں کے دیرینہ تعلقات کو متاثر کر رہا ہے۔ برطانیہ کے شہر لیسٹر میں ہونے والے حالیہ ہنگامے اس کی ایک مثال ہیں۔ نفرت کی یہ لہر امریکہ بھی جا پہنچی ہے جہاں دہائیوں سے پُرامن ماحول میں رہنے والے ہندوؤں اور مسلمانوں کو اشتعال انگیزی کے ذریعے تشدد اور تصادم پر اکسایا جا رہا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں