"DRA" (space) message & send to 7575

کیا مشرقِ وسطیٰ تبدیل ہو رہا ہے؟ … (4)

چند حلقوں کی رائے ہے کہ چین کی مدد سے ایران اور سعودی عرب کے درمیان طے پا نے والے معاہدے کی حیثیت محض نمائشی (symbolic) ہے۔ ان دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات کی جڑیں بہت گہری ہیں اور وہ آسانی سے اور محض ایک معاہدے سے دور ہونے والے نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں فرقہ وارانہ تقسیم اور علاقے میں بالادستی قائم کرنے کے لیے ایک دوسرے کے درمیان مقابلہ بازی کا خاص طور پر حوالہ دیا جاتا ہے۔ 1979ء کے اسلامی انقلاب کے بعد امریکہ نے ایران اور خلیج فارس کی عرب ریاستوں خصوصاً سعودی عرب کے درمیان فرقہ وارانہ کارڈ کھیلنے کی بڑی کوشش کی۔ ان ریاستوں میں ایران مخالف رجحانات کو ہوا دینے کے لیے امریکہ کی طرف سے پروپیگنڈا کیا گیا کہ انہیں ایران کے مبینہ توسیع پسندانہ عزائم سے خطرہ ہے۔ انہی بے بنیاد خدشات کی بنیاد پر 1981ء میں سعودی عرب کی قیادت میں قطر‘ کویت‘ مسقط‘ عمان‘ یو اے ای اور بحرین پر مشتمل خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) قائم کی گئی۔ یمن‘ عراق اور شام میں گزشتہ کئی برسوں سے جاری خانہ جنگی کو ایران سعودی عرب کے درمیان پراکسی وار اور اول الذکر کی جانب سے علاقائی بالا دستی کی کوشش قرار دیا گیا۔ ہنری کسنجر تو یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ موجودہ ایران 500قبل مسیح کی قدیم پرشین ایمپائر کو از سر نو قائم کرنا چاہتا ہے جس کی سرحدیں موجودہ ایران سے باہر وسطی ایشیا موجودہ افغانستان‘ پاکستان‘ افریقہ کے مشرقی ساحل تک خلیج فارس کے علاقے‘ ترکی اور بلقان کی ریاستوں اور میسو پوٹیمیا سے مصر تک پھیلی ہوئی تھیں۔
یہ سچ ہے کہ گزشتہ پانچ ہزار سال کی تاریخ میں مشرقِ وسطیٰ میں کبھی بھی طاقت کا خلا نہیں رہا اور اسے پُر کرنے کے لیے مختلف ایمپائرز ایک دوسری کی جگہ لیتی رہی ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اپنی وسعت اور طاقت کے اعتبار سے ایران دنیا کے اس حصے کی سب سے بڑی اور سب سے پہلی ایمپائر تھی جس کے ثقافتی اثرات فارسی زبان کی صورت میں اب بھی موجودہ ایران سے دور واقع خطوں‘ وسطی ایشیا‘ پاکستان‘ بھارت اور افریقہ کے مشرقی ساحل پر واقع ممالک میں کسی نہ کسی صورت میں موجود ہیں۔ تاہم موجودہ دور ایمپائرز کا نہیں اور مشرقِ وسطیٰ کی حالیہ تاریخ نے ثابت کر دیا ہے کہ طاقت کے زور پر قبضہ دیرپا ثابت نہیں ہوتا۔
دنیا کے باقی ملکوں کی طرح مشرقِ وسطیٰ اور خلیج فارس کی ریاستیں بھی آزادی‘ خود مختاری‘ علاقائی سالمیت اور قوم پرستی کے اصولوں پر قائم ہیں اور وہ کسی بھی بنیاد پر اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت‘ آزاد خارجہ پالیسی کے راستے میں رکاوٹ اور علاقائی حدود کی خلاف ورزی کو برداشت نہیں کریں گی۔ 1979ء کے اسلامی انقلاب کے بعد ایران کے اپنے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تعلقات میں فرقہ وارانہ تقسیم کا کوئی کردار نہیں رہا۔ پاکستان اور خلیج فارس کی عرب ریاستوں یو اے ای‘ قطر‘ مسقط اور عمان کے ساتھ ایران کے پُرامن اور خوشگوار تعلقات اس کی مثال ہیں۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان متعدد امور پر اختلافات موجود ہیں اور یہ توقع کرنا کہ 10مارچ کے معاہدے سے یہ اختلافات ایک دم دور ہو جائیں گے‘ غیر حقیقت پسندانہ ہوگا مگر کئی اہم مسائل پر اتفاق بھی موجود ہے۔ ان میں سے ایک خطے میں ترقی اور خوشحالی کو فروغ دینے کے لیے استحکام کی اشد ضرورت کا احساس ہے۔ ایران اور سعودی عرب چونکہ اس خطے کے سب سے بڑے اور طاقتور ملک ہیں‘ اس لیے ان کے درمیان مصالحت کے بغیر علاقائی استحکام کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ 10 مارچ کے معاہدے میں بے شک چین نے ایک اہم‘ مثبت اور تعمیری کردار ادا کیا ہے مگر بنیادی طور پر یہ خطے کے اپنے ممالک‘ جن میں ایران اور سعودی عرب کے علاوہ خلیج کی عرب ریاستیں بھی شامل ہیں‘ کے اس شدید احساس کی پیداوار ہے کہ وہ تیل اور گیس کی برآمد سے حاصل ہونے والی آمدنی کو ایران سعودی عرب کشیدگی کی وجہ سے اپنے قومی ترقیاتی منصوبوں پر خرچ نہیں کر سکتے۔ خلیج کی چھوٹی ریاستوں میں یہ احساس زیادہ شدید صورت میں پایا جاتا ہے کیونکہ سعودی عرب کی طرف سے ان پر یمن اور شام میں جاری جنگوں میں مالی معاونت فراہم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا تھا۔ سعودی عرب اور قطر کے درمیان کچھ عرصہ تک قائم رہنے والے کشیدہ تعلقات کی یہ بنیادی وجہ تھی۔
خلیجی عرب ریاستوں میں ایران‘ سعودی عرب کشیدگی کے نقصان دہ اثرات پر تشویش میں اضافہ ہو رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ماحول کے تناؤ میں کمی کے جو نہی امکانات نظر آنے لگے‘ ان ریاستوں نے ایران سعودی عرب معاہدے سے پہلے ہی ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنا شروع کر دیے۔ یو اے ای اور قطر نے معاہدے پر دستخط ہونے سے ایک ماہ قبل تہران میں اپنے سفیروں کو فرائض سنبھالنے کے لیے بھیج دیا تھا۔ جہاں تک اس معاہدے کی پائیداری اور اس کے بار آور ہونے کا تعلق ہے تو اس ضمن میں کئی مثبت اشارات کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ سب سے اہم چین‘ ایران اور سعودی عرب کی طرف سے اس معاہدے کے حق میں مثبت اور امید افزا بیانات ہیں۔ چین کے سابق وزیر خارجہ اور امور خارجہ کے کمیشن کے چیئرمین وانگ یی نے اس معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے امن اور ڈائیلاگ کی فتح اور صدر شی جن پنگ کی بین الاقوامی تعلقات کے بارے میں نئی حکمت عملی ''گلوبل سٹرییٹجک انیشی ایٹو‘‘ کی عملی شکل قرار دیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق چین عنقریب بیجنگ میں ایران‘ سعودی عرب اور خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے اراکین کا ایک سربراہی اجلاس بلانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ معاہدے پر دستخط ہونے کے فوراً بعد تہران اور ریاض میں اس پر خوشی اور اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے خطے میں امن اور استحکام کی طرف اسے ایک مثبت قدم قرار دیا گیا۔ یہ امر بھی خوش آئند ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے وزرائے خارجہ نے بیجنگ میں ملاقات کی ہے اور دو ماہ کے اندر سفارتی مشنز کو دوبارہ کھولنے اور پروازوں کو دوبارہ شروع کرنے اور دوطرفہ دوروں کی بحالی پر تبادلہ خیال کیا۔سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان آل سعود اور ان کے ایرانی ہم منصب حسین امیرعبداللہیان کے درمیان جمعرات کو ہونے والی یہ ملاقات سات سال سے زائد عرصے میں دونوں ملکوں کی اعلیٰ ترین سطح پر پہلی باضابطہ ملاقات ہے۔ملاقات کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں دونوں فریقوں نے تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے مل کر کام جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔بیان میں کہا گیا کہ دونوں فریقوں نے بیجنگ معاہدے پر عمل درآمد اور اس کے فعال ہونے کی اہمیت پر زور دیا جس سے باہمی اعتماد اور تعاون کے شعبوں کو وسعت ملے اور خطے میں سلامتی‘ استحکام اور خوشحالی پیدا کرنے میں مدد ملے۔اعلامیے میں کہا گیا کہ سعودی عرب اور ایران نے دو ماہ کے اندر دونوں ملکوں میں سفارت خانے کھولنے پر اتفاق کیا۔مزید کہا گیا کہ دونوں ممالک تعاون کو بڑھانے کے طریقوں کا جائزہ لینے کے لیے ہم آہنگی جاری رکھیں گے‘ جن میں پروازوں کے دوبارہ آغاز اور دوطرفہ دوروں کے علاوہ شہریوں کے لیے ویزوں کی سہولت فراہم کرنا شامل ہیں۔ تجزیہ کاروں کی رائے میں یہ معاہدہ نہ صرف خلیج فارس اور مشرقِ وسطیٰ میں امن اور استحکام کی راہ ہموار کرنے میں مدد گار ثابت ہوگا بلکہ اس سے مشرقِ وسطیٰ سے ملحقہ دوسرے خطوں مثلاً وسطی ایشیا‘ بحیرہ کیسپین اور جنوبی ایشیا میں بھی تنازعات کے حل اور امن اور سلامتی کی فضا پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔ جنوبی ایشیا خصوصاً پاک بھارت تنازع کے تناظر میں یہ معاہدہ کیا اثرات مرتب کر سکتا ہے‘ اگلی اور آخری قسط میں اس کا جائزہ لینے کی کوشش کی جائے گی۔(جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں