بھارت کے شہر گوا میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کی وزرائے خارجہ کانفرنس میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی شرکت کا جب سرکاری طور پر اعلان کیا گیا تو ملک میں ایک مخصوص حلقے کی طرف سے اس کی سخت مخالفت کی گئی اور اسے روکنے کے لیے پروپیگنڈا کے مختلف انداز اختیار کیے گئے۔ ان میں حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا اور بھارت خصوصاً بھارتی میڈیا کے معاندانہ رویے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا بھی شامل تھا لیکن پاکستانی وزیر خارجہ کے اپنے وفد کے ہمراہ کانفرنس میں شرکت کے لیے پہنچنے اور شرکت کے بعد وطن واپس آنے تک نہ صرف بھارتی بلکہ بین الاقوامی میڈیا نے بھی جس طرح ان پر توجہ مبذول کی‘ اس سے ثابت ہوا کہ وزیر خارجہ کا یہ دورہ ضروری اور پاکستان کے حق میں تھا۔ جن لوگوں نے اس کے خلاف آواز اٹھائی وہ اس کانفرنس کی اہمیت سے ناواقف تھے یا جان بوجھ کر اس کو نظر انداز کر رہے تھے۔ اس لیے اس امر کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کہ پاکستانی عوام کو دنیا کی سب سے بڑی علاقائی تعاون تنظیم‘ ایس سی او کے بارے بتایا جائے۔ خاص طور پر اس میں شمولیت سے پاکستان کو کیا فوائد حاصل ہو سکتے ہیں اور اس تنظیم کے زیر اثر علاقائی اور عالمی سطح پر سیاست‘ معیشت اور سکیورٹی کے شعبوں میں کیا تبدیلیاں رونما ہونے کی توقع کی جا رہی ہے۔ مگر اس سے پہلے کچھ ذکر گوا میں بلاول بھٹو زرداری کی آمد کے موقع پر میڈیا خصوصاً بھارتی میڈیا کے غیر معمولی فوکس کا ہو جائے تو کوئی حرج نہیں۔ اس کے بارے میں جو کچھ پاکستانی میڈیا میں چھپا‘ اس کے مطابق ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری ایس سی او وزرائے خارجہ کانفرنس میں شرکت کرنے والے واحد وزیر خارجہ تھے۔ دوسرے الفاظ میں میڈیا کوریج میں دیگر وزرائے خارجہ کو تقریباً نظر انداز کر دیا گیا تھا حالانکہ روس اور چین کے وزرائے خارجہ بھی کانفرنس میں شریک تھے مگر میڈیا کی نظریں پاکستان کے وزیر خارجہ پر مرکوز تھیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے حلقوں کے مطابق اس کی بڑی وجہ بلاول بھٹو زرداری کا بے نظیر بھٹو کا بیٹا اور ذوالفقار علی بھٹو کا نواسہ ہونا ہے۔ کسی حد تک یہ بات درست ہے کیونکہ بھارت اور بین الاقوامی برادری میں بلاول بھٹو زرداری کو ایک اعتدال پسند اور پاک بھارت مصالحت کی بنیاد پر ایک پُرامن‘ مستحکم اور خوشحال خطے کا حامی سمجھا جاتا ہے۔ بے نظیر بھٹو کا بیٹا اور ذوالفقار علی بھٹو کا نواسہ ہونے کے ناتے میڈیا کی غیر معمولی توجہ کا مرکز ہونے کی وجہ بھی سمجھ میں آتی ہے۔ بے نظیر اور خود ذوالفقار علی بھٹو بھارت اور عالمی سطح پر جانی پہچانی اور ہر دلعزیز سیاسی شخصیتیں رہی ہیں اور آمریت کے ہاتھوں اس خاندان نے جو صعوبتیں سہی ہیں جن میں ضیاالحق دور میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اور پرویز مشرف دور میں دسمبر 2007ء میں بے نظیر بھٹو کی دہشت گرد حملے میں شہادت بھی شامل ہے۔ ان کی وجہ سے اس خاندان کے لیے ہمدردی پائی جاتی ہے مگر بلاول بھٹو زرداری پر بھارتی یا عالمی میڈیا کی سپاٹ لائٹ کی یہی وجہ نہیں کیونکہ یہ پہلا موقع نہیں کہ بھارت یا بھارت سے باہر کسی بھی اجتماع میں پاکستان اور بھارت کے رہنما خواہ وہ وزرائے خارجہ ہوں یا وزرائے اعظم‘ میڈیا کے لیے اتنی دلچسپی پیدا کرتے ہیں کہ اس میں اس اجتماع یا کانفرنس کے اصل مقصد سے ہٹ کر تمام تر توجہ پاکستانی اور بھارتی رہنمائوں کی کانفرنس کی سائیڈ لائن پر ملاقات اور اس ملاقات کے ممکنہ نتائج پرمرکوز ہو جاتی ہے۔ جس زمانے میں سارک (SAARC) کے سالانہ سربراہی اجلاس باقاعدگی سے ہوتے تھے‘ ہر ا جلاس کے موقع پر میڈیا میں سارک کی کارکردگی یا اس کے پروگرام اور منصوبوں پر کم اور کانفرنس سے باہر پاکستان اور بھارت کے رہنمائوں کے درمیان ملاقات کے امکان اور اس ملاقات کے نتائج پر زیادہ بحث ہوتی تھی۔ اور اس کی بھی ایک خاص وجہ تھی‘ ایسی غیر رسمی ملاقاتوں سے دونوں (پاکستان اور بھارت) کے درمیان سرد مہری اور کشیدگی ختم کرنے میں متعدد بار مدد بھی ملی ہے۔ مثلاً 1997ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازع مسائل پر بات چیت پر کئی برسوں سے قائم ڈیڈ لاک کو ختم کرنے اور ایک سٹرکچرڈ اور کمپوزٹ ڈئیلاگ پراسیس شروع کرنے کا فیصلہ اُس وقت پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف اور ان کے بھارتی ہم منصب اندر کمار گجرال کے درمیان مالدیپ میں منعقد ہونے والی سارک کی ایک سربراہی کانفرنس کی سائیڈ لائن پر ایک غیر رسمی ملاقات میں کیا گیا تھا۔ اسی طرح کارگل (1999ء) اور بھارتی پارلیمنٹ پر دہشت گرد حملے (دسمبر 2001ء) کی وجہ سے اس پراسیس کو دوبارہ شروع کرنے پر پاکستان اور بھارت کی آمادگی بھی 2003ء میں نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں سارک کی سربراہی کانفرنس کے موقع پر پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف اور اس وقت کے بھارتی وزیراعظم آنجہانی اٹل بہاری واجپائی کے درمیان مشہور ''ہینڈ شیک‘‘ کے نتیجے میں عمل میں آئی تھی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سرحد کے دونوں طرف رہنے والے کروڑوں پاکستانی اور بھارتی باشندوں کے لیے پاک بھارت تعلقات کتنی اہمیت رکھتے ہیں۔ جب کبھی ان دونوں ملکوں کے سربراہوں کو ایک دوسرے سے ملنے کا اتفاق ہوتا ہے یا ان کے ملنے کا امکان پیدا ہوتا ہے تو گزشتہ 75سال سے خطے میں جنگ‘ تصادم اور کشیدگی کی فضا میں رہنے والے عوام ایک اچھی خبر سننے کے لیے کتنے بے تاب ہوتے ہیں۔
گوا کانفرنس میں پاکستان اور بھارت کے وزرائے خارجہ کے درمیان ایک غیر رسمی ملاقات کے امکان اور اس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان سرد مہری اور کشیدگی کے بجائے خوشگوار تعلقات کے لیے سازگار ماحول کے پیدا ہونے کی امید کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یہ کانفرنس ایس سی او کی چھتری تلے منعقد ہو رہی تھی۔ اگرچہ اس کانفرنس کا تعلق پاک بھارت تعلقات سے نہیں تھا اور نہ ہی وزیر خارجہ کا یہ بھارت کا دو طرفہ دورہ تھا۔ اس کے باوجود سرحد کے دونوں طرف اس سے پاک بھارت کشیدگی میں کمی کی امید کی جا رہی تھی۔ اس امید کی وجہ صرف یہ نہ تھی کہ پاکستانی وزیر خارجہ ایک ایسی ملٹی لیٹرل کانفرنس میں شرکت کرنے جا رہے ہیں جو بھارت کے سرزمین پر منعقد ہو رہی ہے اور جس کی میزبانی بھارت کے وزیر خارجہ کر رہے ہیں جبکہ یہ کانفرنس ایک ایسی تنظیم کے زیر اہتمام ہو رہی تھی جس کے مقاصد میں علاقائی تعاون کے ذریعے رکن ممالک کے باہمی تعلقات میں کشیدگی کے بجائے مفاہمت اور دوستی کو پروان چڑھانا بھی شامل ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان کی شمولیت چین کے تعاون اور مدد سے ممکن ہوئی تھی اور 2017ء میں جب پاکستان کے ساتھ بھارت کو بھی اس تنظیم کا رکن بنایا گیا تو چین نے واضح الفاظ میں اس توقع کا اظہار کیا تھا کہ اس تنظیم میں شمولیت کے بعد جنوبی ایشیا میں امن و استحکام اور ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گا۔ شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان اور بھارت کی بطور مستقل اراکین شمولیت تنظیم کی تاریخ میں ایک اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ تنظیم نے اپنی مستقل رکنیت میں اضافے پر پابندی عائد کر رکھی تھی کیونکہ روس‘ چین اور وسطی ایشیائی ریاستوں قازقستان‘ کرغزستان‘ تاجکستان اور ازبکستان پر مشتمل کور (Core) گروپ اپنے خطے سے باہر ممالک کو اس لیے مستقل ممبر شپ نہیں دینا چاہتا تھا تاکہ ان کے باہمی مسائل اور تنازعات کے نتیجے میں تنظیم کی کارکردگی متاثر نہ ہو۔ ایک عرصہ تک پاکستان اور بھارت کو ایس سی او سے باہر رکھنے کی بھی یہی وجہ تھی کیونکہ دونوں ملک ملٹی لیٹرل فورمز میں بھی اپنے دو طرفہ جھگڑوں اور تنازعات کو گھسیٹ لاتے ہیں۔ اس سے وسیع تر علاقائی تعاون کی خاطر قائم کی جانے والی ملٹی لیٹرل تنظیموں کو اپنے اصل مقاصد کے حصول میں رکاوٹ پیش آتی رہی ہے۔