"DRA" (space) message & send to 7575

غزہ کی جنگ: مستقبل کے خدشات

کیا حماس اور اسرائیل کے درمیان موجودہ جنگ خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی؟ اگر ایسا ہوا تو عالمی سیاست پر اس کا کیا اثر پڑے گا؟ یوکرین اگرچہ تیل برآمد کرنے والا ملک نہیں ہے لیکن روس کے ساتھ جنگ چھڑ جانے کے بعد تیل اور گیس کی قیمتیں بے قابو ہو کر آسمان سے باتیں کرنے لگی تھیں۔ مشرقِ وسطیٰ تو تیل اور گیس کے ذخیرے پر بیٹھا ہے‘ اس لیے حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ کے بارے میں اس قسم کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ابھی تک اس جنگ نے بین الاقوامی منڈی میں تیل کی سپلائی اور قیمتوں پر کوئی نمایاں اثر نہیں ڈالا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اسرائیل تیل پیدا اور برآمد کرنے والے ممالک میں شامل نہیں ہے‘ نہ ہی اسرائیل یا غزہ سے گیس یا تیل کی پائپ لائنوں کا کوئی بڑا نیٹ ورک گزرتا ہے۔ اس لیے دو ہفتے سے زائد جاری رہنے والی اسرائیل کی خوفناک بمباری اور گولہ باری کے باوجود عالمی توانائی مارکیٹ پر کوئی برا اثر نہیں پڑا تاہم صورتحال پر نظر رکھنے والے مبصرین کی رائے ہے کہ اگر یہ جنگ طول پکڑتی ہے‘ جس کا غالب امکان ہے اور دیگر عرب خصوصاً تیل برآمد کرنے والے ممالک اسرائیل اور اس کی حمایت کرنے والے یورپی ممالک اور امریکہ کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی کرتے ہیں‘ تو بین الاقوامی سطح پر تیل اور گیس کی سپلائی اور قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہو جائے گا۔ اگرچہ ابھی تک اس قسم کے اقدامات کے کوئی آثار نہیں ملے کہ تیل برآمد کرنے والے عرب ممالک یورپ اور امریکہ کو تیل کی سپلائی بند کرکے 1973-74ء کے آئل ایمبارگو کی تاریخ دہرائیں گے۔
پچھلے ہفتے قاہرہ میں عرب لیگ کے تحت رکن ممالک کی سربراہی کانفرنس بھی اس سلسلے میں فیصلہ کرنے میں ناکام رہی تھی لیکن اگر غزہ پر اسرائیل کی بمباری جاری رہتی ہے اور فریقین کے درمیان جلد جنگ بندی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوتا یا اسرائیل غزہ میں اپنی فوجیں داخل کرتا ہے تو مشرقِ وسطیٰ کے ممالک‘ جن میں عرب ریاستوں کے علاوہ ترکی اور ایران بھی شامل ہیں‘ کوئی اقدام کرنے سے باز نہیں رہ سکیں گے کیونکہ نہ صرف عرب اور عالمِ اسلام بلکہ پوری دنیا‘ جس میں یورپی ممالک اور امریکہ بھی شامل ہیں‘ میں فلسطینیوں کی حمایت اور اسرائیل کی مذمت میں بھاری احتجاجی مظاہروں کے پیش نظر خطے کے ممالک خصوصاً اسرائیل کے ارد گرد واقع عرب ممالک کے لیے خاموش تماشائی بنے رہنا ممکن نہیں ہوگا۔ لبنان کی سرحد پر اسرائیلی فوجوں اور حزب اللہ کے دستوں کے درمیان جھڑپیں شروع ہو چکی ہیں۔ دونوں طرف جانی نقصان کی بھی اطلاعات آ رہی ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل کی طرف سے ایران پر حماس کی براہِ راست امداد کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔ ڈر ہے کہ لبنان کے محاذ پر جھڑپوں کا سلسلہ کہیں کسی بڑے تصادم کی شکل اختیار نہ کر جائے اور امریکہ خلیج فارس یا خلیج عمان میں ایران کے آنے جانے والے بحری جہازوں کو نشانہ بنائے۔ اگر یہ نوبت آتی ہے تو جنگ کا دائرہ یقینا وسیع ہو جائے گا۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس سے مشرقِ وسطیٰ ایک دفعہ پھر بڑی طاقتوں کے درمیان محاذ آرائی کا اکھاڑا بن جائے گا؟ اگر ہم ماضی کی طرف نظر دوڑائیں تو مشرقِ وسطیٰ میں ہونے والی ہر جنگ نے بین الاقوامی سطح پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں‘ 1956ء میں نہر سویز کے بحران کے نتیجے میں مشرقِ وسطیٰ میں برطانیہ اور فرانس کے اثر و رسوخ کو دفن کرکے سابقہ سویت یونین کو خطے کی سیاست میں ایک اہم پوزیشن حاصل کرنے میں مدد ملی تھی۔ مگر آج کی صورتحال 1956ء سے مختلف ہے۔ اس وقت اگرچہ امریکہ نے سیاسی اور عسکری لحاظ سے مشرقِ وسطیٰ میں برطانیہ اور فرانس کی جگہ لے لی تھی مگر اکتوبر نومبر 1956ء میں مصر پر برطانوی اور فرانسیسی فوجوں کے حملے اور اس کے ساتھ صحرائے سینا اور غزہ میں اسرائیل کی مداخلت کو امریکہ کی کھلم کھلا حمایت حاصل نہیں تھی اس لیے اس وقت کے سوویت لیڈر نکتیا خروشیف کی پیرس اور لندن کو ایٹمی میزائل کا نشانہ بنانے کی دھمکی کارگر ثابت ہوئی۔ حملہ آوروں کو نہ صرف حملہ روکنا پڑا بلکہ اسرائیل سمیت برطانیہ اور فرانس کو بھی مصر کے مقبوضہ علاقوں کو خالی کرنا پڑا تھا۔
آج کی صورتحال میں امریکہ اسرائیل کے شانہ بشانہ کھڑا ہے اور غزہ میں اس کی وحشیانہ کارروائی کو اس کا جائز حق قرار دے رہا ہے۔ اس کے ساتھ 1956ء کے برعکس مشرقِ وسطیٰ اور اس کے ارد گرد پانیوں میں امریکہ کی بحری‘ بری اور ہوائی فوج ہر قسم کے ہتھیاروں سے لیس کھڑی ہے۔ فلسطینیوں کی حمایت میں اسرائیل کے خلاف باہر سے اگر کسی کارروائی کا آغاز کیا گیا تو امریکہ فوراً مداخلت کرے گا۔ پہلے ہی اس نے اربوں روپے کا اسلحہ‘ گولہ بارود اور ہتھیار اسرائیل پہنچا دیے ہیں۔ اس کے علاوہ بحیرۂ روم میں مشرقِ وسطیٰ کے دفاع کے لیے مستقل طور پر مقیم ساتویں بحری بیڑے کو امریکہ نے مزید کمک پہنچا دی ہے اور بحیرۂ روم میں اسرائیل کے فضائی دفاع کے لیے بھی امریکہ نے اپنے میزائل بحری جہازوں پر نصب کر دیے ہیں۔ ان حالات میں کسی بیرونی طاقت کے لیے مشرقِ وسطیٰ کی موجودہ جنگ میں کودنا ناممکن نظر آتا ہے تاہم آئندہ حالات کیا رُخ اختیار کرتے ہیں‘ اس کا زیادہ تر انحصار اسرائیل کے رویے پر ہے۔ غزہ میں اس کی وحشیانہ بمباری کے خلاف دنیا بھر میں سخت ردِ عمل آیا ہے اور اب اس کے دوستوں کی طرف سے بھی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جنگ بندی کے حق میں آوازیں اُٹھ رہی ہیں۔ اسرائیل نے اگر ان آوازوں پر کان نہ دھرا اور نہ صرف جنگ جاری رکھی بلکہ اس کا دائرہ وسیع کر دیا تو اسرائیل کی ہمسایہ عرب ممالک کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہو جائے گا جو ہو سکتا ہے سرحدوں پر تصادم کی شکل اختیار کر جائے۔ لبنان کے متعلق اس امکان کو زیادہ یقین کے ساتھ بیان کیا جا رہا ہے۔ اسرائیل نے اس کے پیش نظر لبنان کو نہ صرف جنگ سے دور رہنے بلکہ حزب اللہ کو روکنے کا بھی مطالبہ کیا ہے‘ ورنہ لبنان کو ایک بڑے اسرائیلی حملے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
بین الاقوامی سطح پر اس جنگ کا دائرہ روکنے کی سفارتی کوششوں کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں اپنی قرارداد کی ناکامی کے باوجود روس اس مسئلے کو زیادہ خطرناک صورت اختیار کرنے سے روکنے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ حال ہی میں صدر پوتن نے ایران کا دورہ کیا ہے۔ تہران میں ایرانی رہنماؤں سے ملاقات کے بعد انہوں نے امریکہ کی جنگی تیاریوں کی سخت مذمت کرتے ہوئے وارننگ دی ہے کہ اس قسم کے اقدامات سے جنگ میں مزید تیزی آئے گی۔ اسی طرح ترکی کے صدر اردوان متحدہ عرب امارات پہنچے ہیں جہاں انہوں نے یو اے ای کے ساتھ ترکی کے دو طرفہ تعلقات کو مزید گہرا اور مضبوط کرنے کے علاوہ غزہ پر اسرائیل کی بمباری اور جنگ کا دائرہ مزید وسیع کرنے کی کوششوں کو ناکام بنانے پر بات چیت کی ہے۔ چین کے مشرقِ وسطیٰ کے لیے خصوصی نمائندے یائی جُن (Zhai Jun) بھی خطے کا دورہ کرنے والے ہیں۔ ان سب کوششوں کا مقصد غزہ میں اسرائیل کی تباہ کن کارروائیوں کو روکنا ہے مگر اسرائیل کے وزیر دفاع یائو گیلنٹ نے خبردار کیا ہے کہ یہ جنگ ایک دو نہیں بلکہ کئی مہینوں تک جاری رہ سکتی ہے کیونکہ اس کا مقصد حماس کو ہمیشہ کے لیے صفحۂ ہستی سے مٹانا ہے‘ مگر خود اسرائیل کے دانشمند حلقوں کی طرف سے آوازیں آ رہی ہیں کہ یہ ایک دیوانے کی بڑھک ہے کیونکہ حماس ایک شخص یا جماعت کا نام نہیں بلکہ ایک تحریک کا نام ہے اور جو تحریک انصاف اور حق پر قائم ہو‘ دنیا کی کوئی طاقت اسے نہ تو آج تک دبا سکی ہے اور نہ ہی آئندہ دبا سکے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں