بھارت میں ہونے والے حالیہ ریاستی انتخابات کے نتائج سے پاکستان کی سیاسی پارٹیاں بہت کچھ سیکھ سکتی ہیں۔ اگرچہ پاکستان کے عام انتخابات سر پر کھڑے ہیں اور ہماری سیاسی پارٹیوں کے پاس بھارت کے ان ریاستی انتخابات کے نتائج کی بنیاد پر اپنی حکمت عملیوں میں ضروری تبدیلیاں لانے کیلئے وقت بہت کم ہے‘ اس کے باوجود پاکستان کی سیاسی پارٹیاں بھارت کے ان انتخابات میں کامیاب ہونیوالی سیاسی جماعتوں کی طرف سے کیے جانیوالے اقدامات اور حکمت عملیوں کی روشنی میں اپنی اپنی انتخابی مہمات کی سمت اور فوکس متعین کر سکتی ہیں ۔ پاکستان میں چونکہ الیکشن شیڈول کے ابھی تک اعلان نہ ہونے کے سبب انتخابی سرگرمیاں پوری طرح شروع نہیں ہوئی ہیں‘ لیکن پیشتر اسکے کہ ہم اس موضوع پر مزید بات کریں‘ بہتر ہوگا کہ نہ صرف بھارت کے2024ء کے پارلیمانی انتخابات کے حوالے سے بلکہ موجودہ علاقائی اور عالمی تناظر میں ان ریاستی انتخابات کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے۔ یہ ریاستی انتخابات چونکہ بھارت کے پارلیمانی انتخابات کے صرف چھ ماہ قبل منعقد ہوئے ہیں‘ اس لیے ان کے بارے میں ایک غالب رائے یہ ہے کہ ان کے نتائج کا 2024ء کے پارلیمانی انتخابات پر اثر پڑے گا۔ ہندی بیلٹ کی تین ریاستوں مدھیہ پردیش‘ راجستھان اور چھتیس گڑھ میں کانگرس اپنی شکست کے اسباب پر غور کرکے پارلیمانی انتخابات کیلئے یقینا بہتر حکمت عملی تیار کرے گی۔ اس کے علاوہ بنگال میں ممتا بینر جی اور پنجاب میں کجریوال بھی ان انتخابی نتائج کے بعد الرٹ ہو جائیں گے کیونکہ ان انتخابی نتائج سے ثابت ہوا ہے کہ بی جے پی خصوصاً مودی کو کمزور سمجھنا غلطی ہو گی اور پارلیمانی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے انہیں نئی حکمت عملی اپنانا ہو گی۔
ان ریاستی انتخابات کی ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ ان کے نتائج پر صرف بھارتی عوام ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی برادری خصوصاً امریکہ کی بھی بڑی نظر تھی کیونکہ مودی کی قیادت میں بھارت اور امریکہ کے درمیان نہ صرف معاشی بلکہ دفاعی شعبوں میں بھی انتہائی قریبی تعلقات قائم ہو چکے ہیں۔ ان کی ایک مثال شمال مغربی بحر ہند سے لے کر بحرالکاہل تک (انڈوپیسیفک ریجن) آسٹریلیا اور جاپان کے ہمراہ کواڈ (Quad) کے فریم ورک میں ایک وسیع تر سٹریٹجک اتحاد قائم ہو چکا ہے۔ اس اتحاد کا مقصد اس وسیع اور اہم خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے آگے بند باندھنا ہے۔ ان کوششوں کی کامیابی کیلئے بھارت میں ایک مضبوط اور مستحکم حکومت کا قیام بہت ضروری ہے اور امریکہ کی رائے میں یہ صرف اور صرف نریندر مودی کے اقتدار میں رہنے سے ہی ممکن ہے۔
اسی طرح پاکستان اور چین کیلئے بھی ان انتخابات کے نتائج خصوصی اہمیت کے حامل تھے کیونکہ گزشتہ 10برس کے عرصہ میں نریندر مودی حکومت کی جارحانہ پالیسیوں کی وجہ سے بھارت اور ان دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ جہاں تک پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا بھارت کے ان حالیہ ریاستی انتخابات کے نتائج سے سیکھنے کا تعلق ہے تو اس کی بہت گنجائش ہے کیونکہ دونوں ملکوں کے سیاسی‘ آئینی اور قانونی ڈھانچے کی ایک ہی (گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء) بنیاد ہے۔ دونوں ملکوں کی سیاسی اور معاشرتی حرکیات ایک جیسی ہیں۔ پاکستان کی طرح بھارت کی بھی بیشتر سیاسی پارٹیاں خاندانی اور موروثی قیادت کے گرد گھومتی ہیں۔ پاکستان میں ابھی تک برادری ازم کو انتخابات میں اہمیت حاصل ہے۔ بھارت میں اس کا ذات پات کی شکل میں متبادل موجود ہے۔ پاکستان کی طرح بھارت میں بھی بیشتر سیاسی پارٹیاں انتخابات میں کامیابی کیلئے تنظیم‘ کارکنوں کی تربیت اور موبلائزیشن کے بجائے شخصیت پر انحصار کرتی ہیں۔ انتخابات کے موقع پر عوام سے لمبے چوڑے وعدے کیے جاتے ہیں مگر اقتدار میں آ کر ان سب وعدوں کو بھلا دیا جاتا ہے۔
2014ء سے اب تک بھارت کی انتخابی سیاست میں بی جے پی کی مسلسل کامیابی کی ایک وجہ یہ ہے کہ بھارت کی کسی اور پارٹی کے پاس آر ایس ایس کی طرح منظم‘ تربیت یافتہ اور موٹیویٹڈ کارکنوں کی فوج نہیں ہے۔ یہ سچ ہے کہ نریندر مودی نے بی جے پی کی کامیابی میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے اور بھارت میں پارلیمانی نظام کے ہوتے ہوئے بھی قومی انتخابات صدارتی انتخاب کی طرح منعقد ہوتے ہیں‘ مگر یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ مدھیہ پردیش‘ راجستھان اور چھتیس گڑھ میں بی جے پی کی انتخابی مہم کے دوران صرف نریندر مودی ہی بڑے بڑے جلسوں سے خطاب کرنے میں مصروف نہیں تھے بلکہ موہن بھاگوت (آر ایس ایس کے صدر) بھی خاموشی کیساتھ محلاتی سطح پر چھوٹی چھوٹی کارنر میٹنگز اور ڈور ٹو ڈور روابط کے ذریعے ان لوگوں کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے جن سے کانگرس کے کسی امیدوار یا پارٹی کے لیڈر نے رابطے کی کوشش نہیں کی۔ کہا جاتا ہے کہ مدھیہ پردیش‘ راجستھان اور چھتیس گڑھ میں لوگوں نے کانگرس کے حق میں اس لیے ووٹ نہیں ڈالے کہ ان ریاستوں میں حکمران کانگرس پارٹی نے پچھلے انتخابات کے موقع پر لوگوں سے کیے گئے وعدوں کو پورا نہیں کیا تھا۔ اس کے مقابلے میں بی جے پی کے بارے میں تاثر پایا جاتا ہے کہ اسکی حکومتیں لوگوں سے جو وعدے کرتی ہیں‘ ان پر پورا اترتی ہیں۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ باقی پارٹیوں کے برعکس بی جے پی کے پاس ان وعدوں کو پورا کرنے کیلئے وافر مقدار میں وسائل موجود ہیں ‘ بالخصوص جب اسکی مرکز میں بھی حکومت موجود ہے‘ بی جے پی کیلئے لوگوں کے مختلف مطالبات پورے کرنا اور وعدوں کو نبھانا دوسری پارٹیوں کے مقابلے میں آسان ہوتا ہے‘ تاہم کانگرس سمیت باقی پارٹیوں کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ صرف انتخابات کے موقع پر ہی ان کے امیدوار عوام کے پاس چل کر آتے ہیں اور ووٹ حاصل کرنے کے بعد اس طرف رُخ نہیں کرتے۔ اس لیے بھارت کے آج کل کے سیاسی موسم میں کہا جاتا ہے کہ نریندر مودی کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لوگ ان کے بات پر یقین کرتے ہیں کہ وہ جو کہیں گے‘ کرکے دکھائیں گے۔ راہول گاندھی سمیت کسی اور سیاسی لیڈر پر جنتا کا اتنا وِشواس نہیں ہے۔ جنوبی ایشیا میں نئی سیاسی حقیقتوں میں سے ایک یہ ہے کہ خطے کے تمام ممالک کے انتخابی عمل میں خواتین کے ووٹوں کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ تبدیلی بھارت سمیت پاکستان‘ افغانستان (طالبان کے قبضے سے پہلے) اور نیپال میں بھی نمایاں طور پر نظر آتی ہے لیکن بھارت کے حالیہ ریاستی انتخابات میں خواتین کے ووٹوں نے بی جے پی کی کامیابی میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے‘ خاص طور پر مدھیہ پردیش میں جہاں2020ء کے بعد کانگرس کی جگہ بی جے پی کی حکومت نے خواتین کی فلاح و بہبود کیلئے اہم اقدامات کرکے خواتین کی بڑی تعداد کو بی جے پی کا حامی بنا دیا ہے۔ ان اقدامات میں پاکستان میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی طرح مدھیہ پردیش میں خواتین کیلئے ماہانہ نقد (ایک ہزار روپے) وظیفے کا فیصلہ بھی ہے۔ اس کے علاوہ اربوں روپے کی لاگت سے خواتین کیلئے رہائشیں تعمیر کرنے کے منصوبے بھی شروع کیے گئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مدھیہ پردیش کے حالیہ ریاستی انتخابات میں خواتین نے انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے اور بیلٹ بکسوں میں پڑنے والے ان کے ووٹوں کی تعداد مردوں کے ووٹوں کے برابر ہو گئی ہے۔ اس کا سہرا بی جے پی کی حکومت کو جاتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کیلئے بھارت کے ان ریاستی انتخابات کے نتائج سے سیکھنے کیلئے بہت کچھ ہے اور اگر ہماری سیاسی پارٹیاں بھارت کی انتخابی سیاست کی حرکیات کا باقاعدہ مطالعہ کرتی رہیں اور مطلوبہ نتائج اخذ کریں تو وہ نہ صرف اپنے لیے بہتر نتائج حاصل کر سکتی ہیں بلکہ ملک میں سیاسی‘ جمہوری عمل کی تقویت اور فروغ میں بھی مفید کردار ادا کر سکتی ہیں۔