پاکستان میں سیاسی بحران کی پشت پر بہت سے عوامل کار فرما ہوں گے مگر سیاسی سٹیک ہولڈرز کے درمیان باہمی اعتماد کی کمی اُن میں نمایاں نظر آتی ہے۔ اگر اپوزیشن کو یقین ہو کہ آئینی مدت ختم ہونے کے بعد صاف‘ شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے ذریعے اسے اقتدار میں آنے کا موقع میسر آ جائے گا تو وہ معینہ مدت کے ختم ہونے تک اس موقع کا انتظار کرے گی اور کسی قسم کی ایجی ٹیشن‘ لانگ مارچ یا دھرنے کی نوبت نہیں آئے گی اور حکومت بھی سکون سے اپنے ایجنڈے کے مطابق کام کرتی رہے گی۔ ترقی یافتہ جمہوری ملکوں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ وہاں ایک منتخب حکومت کو اپنی مدت پوری کرنے دی جاتی ہے۔ اپوزیشن تبدیلی کیلئے اس مدت کے ختم ہونے کا انتظار کرتی ہے اور انتظار کے اس عرصے کے دوران اگلے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے حکمت عملی تیار کرتی ہے‘ لیکن پاکستان میں معاملہ مختلف ہے‘ جس کی وجہ سے آج تک کسی وزیراعظم کو اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے کا موقع نہیں ملا۔ اگر اپوزیشن کو یقین ہوتا کہ حکومت اپنی مدت پوری کرنے کے بعد صاف‘ شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کا انعقاد کرکے اُسے قسمت آزمائی کا موقع دے گی تو ہر حکومت اپنی مدت پوری کرتی۔
دیکھا جائے تو بداعتمادی کی یہ فضا صرف سیاسی پارٹیوں تک ہی محدود نہیں۔ مختلف ریاستی ادارے بھی اس مسئلے سے دوچار ہیں۔ مرکز اور صوبوں کے درمیان اختلافات کی موجودگی بہت حد تک باہمی اعتماد کی کمی کی وجہ سے ہے۔ صوبوں کو شکایت رہتی ہے کہ مرکز اُن سے جو وعدے کرتا ہے وہ پورے نہیں کرتا۔ اسی طرح صوبے آئین کی واضح ہدایت کے باوجود مقامی حکومتوں کو اس لیے اختیارات منتقل نہیں کرتے کہ انہیں خطرہ ہے کہ اس طرح ان کا دائرۂ اختیار اور بھی محدود ہو جائے گا۔ بداعتمادی کی اس فضا کی موجودگی کی وجہ سے نہ صرف ریاستی اداروں اور حکومتوں کی کارکردگی پر برا اثر پڑتا ہے بلکہ جب کبھی قوم کسی بڑے بحران کا شکار ہو تو اس سے نکلنے کی کوششیں بھی بیکار جاتی ہیں۔
پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیاں بشمول مسلم لیگ(ن)‘ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی اس بات پر متفق ہیں کہ ملک اپنی تاریخ کے بدترین سیاسی اور معاشی بحران سے دوچار ہے اور اس سے نکلنے کا واحد راستہ سیاسی سٹیک ہولڈرز کے درمیان ڈائیلاگ ہے۔ اس ڈائیلاگ کا ابتدائی اور سب سے اہم حصہ سیاسی پارٹیوں کے درمیان ایک متفقہ روڈ میپ کیلئے مذاکرات ہیں‘ لیکن گزشتہ 10برسوں سے سیاسی پارٹیاں مل کر ملک کو درپیش سیاسی اور معاشی مسائل سے نجات دلانے کے بجائے ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی میں مصروف ہیں۔ ان کے درمیان پائی جانے والی نفرت‘ عدم برداشت اور بدگمانی اوپر سے نیچے تک معاشرے میں سرایت کرکے مختلف گروپوں‘ گروہوں اور طبقات کے درمیان جنگ اور تقسیم کا روپ دھار چکی ہے۔ ایسی فضا میں اگر عام انتخابات منعقد ہوتے ہیں تو اس سے جو صورتحال پیدا ہو سکتی ہے اس کا تصور کرنا بھی محال ہے۔ غالباً انہی حالات نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کو دیگر سیاسی پارٹیوں کے ساتھ بات چیت پر آمادہ کیا ہے۔ اپنے ایک حالیہ بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ میں سیاستدان ہوں اور سیاستدان کی حیثیت سے ہر سیاسی پارٹی سے بات چیت کرنے کو تیار ہوں۔ اُن کا یہ بیان اس لیے اہم ہے کہ اب تک وہ باقی سیاسی پارٹیوں خصوصاً پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں سے ہاتھ ملانے پر بھی آمادہ نہیں تھے بلکہ انہیں لٹیرا اور کرپٹ قرار دیتے تھے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انہوں نے اپنی سیاست کی بنیاد ہی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو لٹیرا اور کرپٹ ثابت کرنے پر رکھی تھی۔ دوسری وجہ جس کی بنا پر اپوزیشن کی جماعتیں عمران خان کی اس پیشکش پر ابھی تک خاموش ہیں یہ ہو سکتی ہے کہ وہ اس موضوع پر اپنے بیانات متواتر بدلتے رہے ہیں۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد پی ڈی ایم کی حکومت کو وہ امپورٹڈ اور غیر آئینی کہتے تھے اور ان کا اعلان تھا کہ وہ ملک میں سیاسی فضا کو پُرسکون بنانے کیلئے پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے بجائے مقتدرہ سے بات چیت کرنے پر تیار ہیں۔ اُن دنوں عمران خان لانگ مارچوں اور جلسے جلوسوں سے خطاب کرنے میں مصروف تھے۔ اپنے جلسوں میں لوگوں کا جوش و خروش دیکھ کر انہیں یقین ہو گیا تھا کہ اس عوامی پاور شو کے ذریعے وہ مقتدرہ کو مرعوب کر لیں گے۔ لیکن جلسے‘ جلوس اور لانگ مارچ سے جب کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا تو انہوں نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں توڑ کر اپنی حکومتیں ختم کر دیں۔
اُن کا خیال تھا کہ اس طرح پی ڈی ایم کی حکومت کو عام انتخابات کروانا پڑ جائیں گے کیونکہ یہ آئینی تقاضا تھا۔ اس کے باوجود انتخابات نہ ہوئے اور پنجاب اور خیبر پختونخوا میں نگران حکومتیں اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے بعد بھی برسر اقتدار رہیں۔ دو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد پی ٹی آئی گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے علاوہ ملک کے کسی بھی حصے میں برسر اقتدار نہیں تھی۔ اس سے نہ صرف پی ٹی آئی بلکہ خود عمران خان کو بڑا نقصان پہنچا۔ پی ٹی آئی کے عام کارکن بھی اس بات کا برملا اعتراف کرتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفے دینا اور پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کو تحلیل کرنا خان کی بہت بڑی غلطی تھی۔ نو مئی کے واقعات کے بعد سے عمران خان اور ان کے پارٹی کے کئی رہنماؤں کو مقدمات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پی ٹی آئی بارہا انتخابات کے حوالے سے لیول پلینگ فیلڈ میسر نہ ہونے کا اعلان بھی کر چکی ہے۔ انتخابی نشان ''بلا‘ ‘ واپس لیے جانے سے بھی پی ٹی آئی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان حالات کے پیشِ نظر عام انتخابات کے نتیجے میں بننے والے ایوان میں پی ٹی آئی کی نمائندگی کم دکھائی دے رہی ہے۔
بہت سے حلقوں کا خیال ہے کہ تمام تر آپشنز کی ناکامی کے بعد سیاسی طور پر فعال رہنے کیلئے عمران خان اب ان سیاسی پارٹیوں کی طرف رجوع کر رہے ہیں جن کے ساتھ وہ کبھی مذاکرات کی میز پر بیٹھنا تو دور کی بات ہے‘ ہاتھ ملانے کو بھی تیار نہ تھے۔ بیرسٹر گوہر خان نے بھی ایک انٹرویو میں مصالحت کی طرف اشارہ کیا ہے حالانکہ کچھ عرصہ پیشتر وہ خود کہہ چکے ہیں کہ خان صاحب مخالفین کے ساتھ بات چیت کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ مگر مصالحت کی طرف اشاروں کے باوجود عمران خان اور گوہر خان کے بیانات مکمل طور پر واضح اور غیر مبہم نہیں ہیں۔ اگر ان کی پارٹی اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ ماضی کو بھلا کر آگے بڑھنے کیلئے مل کر چلنا ناگزیر ہے تو خان صاحب کو ان پارٹیوں یا شخصیات کا کھل کر نام لینا چاہیے‘ جن کے ساتھ وہ بات چیت کرنا چاہتے ہیں‘ بلکہ پہل کرتے ہوئے ان کے ساتھ ٹیلی فونک رابطہ کرنا چاہیے کیونکہ یہ عمران خان ہیں جو گزشتہ پانچ چھ سال سے گفتگو یا مصالحت کو مسترد کرتے چلے آئے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے تو گزشتہ انتخابات کے بعد قومی اسمبلی میں لیڈر آف دی اپوزیشن کی حیثیت سے تعاون کی پیشکش کی تھی اور اس سلسلے میں میثاقِ معیشت پر اتفاقِ رائے کی تجویز دی تھی‘ مگر اپوزیشن کی طرف سے تعاون کی ہر پیشکش کو عمران خان نے این آر او کے حصول کی کوشش قرار دے کر ٹھکرا دیا تھا۔
اگرچہ نو مئی کے واقعات کے بعد پی ٹی آئی کے ساتھ مصالحت ایک پیچیدہ اور حساس مسئلہ بن چکا ہے تاہم اب بھی اگر عمران خان اپنی اَنا کو ایک طرف رکھ کر دیگر سیاسی پارٹیوں کے ساتھ کھلے دل سے بات کریں اور ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کیلئے تمام سٹیک ہولڈرز کے درمیان اتفاق کے ساتھ‘ بات چیت کی تجویز پیش کریں تو ان کے سیاسی حریف بھی مثبت رویہ اختیار کرنے پر مجبور ہو جائیں گے‘ ورنہ یہ سمجھا جائے گا کہ مصالحت کا حالیہ بیانیہ موجودہ نامساعد حالات میں محض پارٹی کی سیاسی بقا کی خاطر ہے۔