پاکستان میں موجودہ انتخابی منظر نامے پر تبصرہ کرتے ہوئے کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی پارٹیاں قومی نہیں بلکہ بلدیاتی انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ ملک کو درپیش مسائل خواہ ان کا تعلق معیشت سے ہو یا خارجہ تعلقات‘ سے بڑی نوعیت کے ہیں اور انہیں وسیع تر قومی اور بین الاقوامی تناظر میں رکھ کر سمجھنے اور حل کرنے کی ضرورت ہے‘ لیکن اس کی بجائے چھوٹے چھوٹے مسائل جو کہ دراصل بڑے مسائل کی پیداوار ہیں‘ کا ذکر کیا جاتا ہے۔ دیگر الفاظ میں بیماری کے آثار کا ذکر کیا جاتا ہے اصل بیماری کا نام نہیں لیا جاتا کیونکہ یہ وہ زون ہے جہاں داخل ہوتے ہوئے فرشتوں کے بھی پر جلتے ہیں۔ جن لوگوں نے ماضی میں اس کی جسارت کی اُن کا حشر سب کے سامنے ہے۔ اس لیے سچی بات کہنے سے ڈرتے ہیں اور اس کی بجائے عوام سے سستی بجلی‘ سستی گیس ‘سستی روٹی‘ سستا پٹرول حتیٰ کہ سستی سبزیوں کا وعدہ کر کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ عوام کے شعور کی براہ راست توہین ہے کیونکہ عوام جانتے ہیں کہ یہ کھوکھلے وعدے ہیں۔ 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پی این اے (پاکستان قومی اتحاد) میں شامل سیاسی جماعتوں نے اپنی احتجاجی تحریک میں عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آ کر ملک میں 1970 ء کی قیمتوں کو واپس لائیں گے۔ ان سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کو جنرل ضیا الحق کے ساتھ مل کر حکومت سنبھالنے کا موقع ملا لیکن کیا وہ 1970 ء کی قیمتیں واپس لا سکے؟ کوئی موجودہ سیاسی رہنمائوں سے پوچھے کہ پاکستان میں سستی اور رعایتی نرخوں پر بجلی گیس‘ پٹرول فراہم کرنے کیلئے کون سا ملک یا بین الاقوامی مالیاتی ادارہ پاکستان کو قرض دے گا؟ پاکستان کی حکومت دوست ممالک سے پہلے سے وصول کردہ قرض رول اوور کرنے کی درخواستیں کر رہی ہے اور آئی ایم ایف کیساتھ اخراجات کم کرنے اور توانائی کی قیمتیں بڑھانے کا معاہدہ کر چکی ہے۔ ان حقائق کی روشنی میں سرکاری نوکریوں کا وعدہ کرنا اور سبسڈیز ختم کرنے کی یقین دہانی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی پارٹیوں کو ان مسائل کا ادراک نہیں جو ملک اور قوم کو درپیش ہیں۔
پاکستان کی سیاسی پارٹیاں خاص طور پر پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) ابھی تک اپنے ماضی سے باہر نہیں نکل سکیں۔ آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات میں عوام کو اپنے حق میں قائل کرنے کیلئے دونوں پارٹیاں ماضی کے قصے دہراتی ہیں۔ قائد مسلم لیگ (ن) نواز شریف کی ہر تقریر میں موٹروے‘ لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کا ذکر ملتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ نواز شریف حکومت کے مختلف ادوار کی اہم کامیابیاں ہیں اور ان کا اعتراف کیا جاتا ہے‘ لیکن گزشتہ 10 برس میں دنیا بہت تبدیل ہو چکی ہے۔ تبدیلی کے اس عمل نے پاکستان کیلئے ایسے چیلنجز پیدا کر دیے ہیں جن کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ سب سے پہلے تو ہماری سرحدوں کو لیجیے‘ کوئی سوچ سکتا تھا کہ افغانستان میں 40 سال کی سیاسی سرمایہ کاری کے بعد ہماری مغربی سرحدوں پر ایسی صورتحال پیدا ہوگی جو اس وقت ہے؟باوجود اس کے کہ ہماری مشرقی سرحدیں بدستور غیر محفوظ ہیں ہم نے مغربی سرحدوں پر پیدا ہونے والے خطرات کا مقابلہ کرنے کیلئے کوئی طویل المیعاد سٹریٹجک پلان تشکیل نہیں دیا۔ معاشی طور پر پاکستان شروع سے ہی بیرونی مالی امداد پر انحصار کرتا رہا ہے۔ اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے قرضوں کے انبار نے ملک کی آزادی اور خود مختاری دائو پر لگا دی ہے‘ مگر کسی پارٹی کے ایجنڈے میں ملک کو معاشی طور پر خود انحصار بنانے کا طویل المیعاد عملی پلان موجود نہیں ۔ اس کے برعکس انتخابات میں ووٹ حاصل کرنے کیلئے سرکاری نوکریوں‘ تنخواہوں میں دگنے اضافے سستی بجلی سستی گیس سستا آٹا اور سستے پٹرول کے وعدے کیے جا رہے ہیں جبکہ ماہرین معاشیات کی متفقہ رائے ہے کہ آئندہ کئی برسوں تک پاکستان میں پاپولسٹ پولیٹکس (Populist Politics) کی کوئی گنجائش نہیں اور اگر شارٹ ٹرم مفادات کیلئے سستی بجلی سستی گیس اور سستے پٹرول کے وعدے پورے کرنے کی کوشش کی گئی تو یہ معیشت کیلئے تباہ کن ثابت ہوگا۔
صوبہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشتگردی کے بڑھتے ہوئے واقعات نے انتخابی سرگرمیوں کو محدود کر دیا ہے۔ اس کے باوجود بلوچستان میں بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) اور نیشنل پارٹی اور خیبر پختونخوا میں مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علمائے اسلام (ف) پرویز خٹک کی پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین اور آفتاب احمد خان شیر پائو کی قومی وطن پارٹی نے ورکرز کنونشن اور عام جلسوں کا اہتمام کیا ہے۔ بلوچستان کی سیاسی پارٹیوں کا فوکس لاپتا افراد اور صوبائی مسائل خاص طور پر مرکز کے ساتھ صوبے کے معدنی اور قدرتی وسائل سے حاصل ہونے والی آمدنی میں صوبے کے حصے پر اختلافات ہیں۔ ان مسائل پر بلوچستان کی نیشنلسٹ پارٹیاں ایک عرصے سے جدوجہد کرتی آ رہی ہیں لیکن اپنی اس جدوجہد میں وہ کسی محاذ پر بھی قابلِ ذکر کامیابی حاصل نہیں کر سکی‘ بلکہ صوبے کے حالات بتدریج ابتر ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے صوبے کی سیاسی پارٹیاں اور سیاسی رہنما تیزی کے ساتھ غیر متعلقہ ہوتے جا رہے ہیں۔ مرکز اور بڑی سیاسی پارٹیوں مثلاً پی پی پی‘ پی ایم ایل این اور پی ٹی آئی کیلئے بلوچستان سے منتخب ہونیوالے اراکین اسمبلی اور سینیٹ کی اہمیت اب صرف پارلیمنٹ میں اپنی عددی اکثریت بڑھانے اور مطلوبہ سیاسی مقاصد حاصل کرنے تک محدود ہو چکی ہے۔ بلوچستان میں سیاسی قیادت کے اس خلا کے دو نتائج پیدا ہو رہے ہیں‘ ایک تو دہشتگردی میں ہے اور دوسرا نوجوان طبقہ‘ جس میں کثیر تعداد خواتین کی بھی ہے‘ میدان میں آ رہا ہے۔ تربت میں پولیس کے ہاتھوں ایک نوجوان کے قتل پر احتجاج کرنیوالوں کیساتھ نہ صرف مقامی طور پر بلکہ پورے صوبے میں طلبا‘ سول سوسائٹی کے کارکنوں‘ سیاسی ورکرز‘ عوام اور خواتین کی ایک بڑی تعداد نے جس طرح یکجہتی کا مظاہرہ کیا ہے‘ وہ بلوچستان کی سیاست میں ایک نئے رجحان کی نشاندہی کرتا ہے۔
مولانا فضل الرحمن نے اپنی پارٹی کے ورکرز کنونشنز اور عام جلسوں سے اب تک جو خطاب کیے ہیں ان میں انہوں نے ملک میں قرآن اور سنت کی بنیاد پر اسلامی نظام کے نفاذ پر زور دیا ہے۔ ان کا یہ دیرینہ مطالبہ ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ ان کی ساری جدوجہد صرف اس مقصد کے حصول پر مرکوز رہی ہے مگر اُن کی پارٹی کو مرکز میں مخلوط حکومتوں کا حصہ بننے اورخیبر پختونخوا میں حکومت بنانے (2002ء تا 2008 ء) کا موقع مل چکا ہے اور اگر ان کا یہ دعویٰ سچ ہے کہ ملک میں اس وقت کوئی کام قرآن و سنت کے مطابق نہیں ہو رہا تو اس صورتحال میں ان کی ذمہ داری کا کتنا حصہ ہے؟ اصل میں مولانا دیگر مذہبی سیاسی پارٹیوں کی طرح مذہب کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں انہوں نے افغانستان میں طالبان کو حکومت سنبھالنے پر مبارکباد بھی دی۔ پاکستان میں بھی انہوں نے متعدد مسائل پر جو مؤقف اختیار کیا وہ پاکستانی طالبان کے نظریے سے ملتا جلتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اسلامائزیشن پر زور دے کر وہ لوگوں کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے‘ مگر انہیں سب سے بڑا چیلنج خود طالبان سے ہے جو اُن کی سیاست کو مصلحت اور موقع پرستی کی سیاست گردانتے ہیں۔شدت پسندی اور طاقت کے استعمال کے ذریعے اپنے مقاصد کے حصول پر یقین رکھنے والے طالبان ایک بڑا چیلنج ہیں مگر جمعیت العلمائے اسلام (ف) سمیت پاکستان کی کسی بھی مذہبی سیاسی پارٹی نے‘ جو سیاسی مقاصد حاصل کرنے کیلئے آئینی اور قانونی ذرائع استعمال کرنے کے حق میں ہیں‘نے ابھی تک کوئی ایسا بیانیہ پیش نہیں کیا جو ملک کے موجودہ آئینی اور قانونی نظام کے تحت ان شدت پسندوں کے بیانیے کا توڑ ثابت ہو سکے۔