امریکی صدر ڈونڈ ٹرمپ نے اپنے عہدے کی چار سالہ مدت کے پہلے ہی روز 100کے قریب ایگزیکٹو آرڈرز جاری کر کے تہلکہ مچا دیا ہے۔ جن صدارتی حکم ناموں سے امریکہ کے بعض حلقوں میں تلاطم پایا جاتا ہے ان میں غیر قانونی طور پر امریکہ میں مقیم تارکینِ وطن کی بے دخلی‘ امریکہ میں پیدائش کی بنیاد پر شہریت کے حق کی منسوخی‘ سزائے موت کی بحالی‘ جسے سابق صدر جوبائیڈن نے منسوخ کر دیا تھا‘ شامل ہیں جبکہ عالمی سطح پر تشویشناک مضمرات کے حامل اعلانات اور فیصلوں میں بحرالکاہل اور بحر اوقیانوس کو ملانے والی نہر پانامہ کو واپس لینے کی دھمکی‘ کینیڈا اور میکسیکو سے درآمدات پر 25 فیصد ڈیوٹی (ٹیرف) قطب شمالی کے قریب دنیا کے سب سے بڑے مگر سال کا بیشتر حصہ برف سے ڈھکے رہنے والے جزیرے گرین لینڈ پر قبضے کا ارادہ‘ چینی درآمدات پر 10 فیصد ٹیرف‘ یوکرین میں جنگ بندی کیلئے مذاکرات کی میز پر آنے کیلئے روس کو الٹی میٹم اور معاہدہ شمالی اوقیانوس (نیٹو) کیلئے یورپی ممالک کو اخراجات موجودہ دو فیصد سے پانچ فیصد تک بڑھانے کا مطالبہ شامل ہے۔ علاوہ ازیں موسمیاتی تبدیلی کے عالمی (پیرس) معاہدے‘ جس پر دو سو سے زائد ممالک نے دستخط کر رکھے ہیں‘ سے علیحدگی‘ عالمی ادارۂ صحت سے اخراج اور بیرونی امداد کے پروگرام کو بند کرنے کا اعلان شامل ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ''سب سے پہلے امریکہ‘‘ کے اعلان کے علاوہ دیگر جن بے شمار اقدامات کا منصوبہ بنا رکھا ہے اگر ان پر پوری طرح عمل ہوا تو دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اب تک امریکہ کا جو عالمی سیاست اور معیشت میں کردار رہا ہے‘ اس کو مکمل طور پر بیک گیئر لگ جائے گا۔ دوسری عالمی جنگ سے قبل امریکہ نے 1823ء کےMonroe ڈاکٹرائن کے تحت یورپی معاملات سے الگ تھلگ آئیسو لیشنزم (Isolationism) کی پالیسی اختیار کی ہوئی تھی۔ اگرچہ پہلی عالمی جنگ میں امریکہ نے جرمنی کی سرکردگی میں سینٹرل پاورز کے خلاف برطانیہ‘ فرانس اور ان کے اتحادیوں کو مالی اور فوجی امداد فراہم کی تھی جس نے بہت سے تاریخ نویسوں کے مطابق سینٹرل پاورز کے خلاف اتحادی طاقتوں کی فتح میں فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا مگر دوسری عالمی جنگ میں پرل ہاربر پر جاپان کے حملے (1941ء) کے بعد جرمنی‘ جاپان اور اٹلی پر مشتمل محوری طاقتوں کے خلاف اعلانِ جنگ کرنا پڑا۔ اس جنگ میں نہ صرف امریکی بحریہ‘ فضائیہ اور بری فوج نے حصہ لیا بلکہ یورپ‘ روس اور شمالی افریقہ میں جرمن افواج کی شکست میں امریکی ہتھیاروں کی فراہمی نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد قائم ہونے والی قوموں کے درمیان امن کے قیام اور جنگ کی روک تھام کیلئے جو پہلی عالمگیر تنظیم یعنی لیگ آف نیشنز قائم ہوئی تھی امریکہ نے اُس کی تشکیل میں حصہ لیا تھا مگر اُس میں شامل ہونے سے انکار کر دیا کیونکہ امریکہ کی سینیٹ نے معاہدہ ورسائی کی توثیق کرنے سے انکار کردیا تھا۔ مگر 1945ء میں امریکہ نے اقوام متحدہ کے قیام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا بلکہ اپنی سرزمین نیو یارک میں اس کا ہیڈ کوارٹر قائم کرنے کی اجازت بھی دی اور اس کے سالانہ اخراجات میں سب سے زیادہ رقم دینے والا ملک بن گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ دوسری عالمی جنگ کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں دنیا میں کوئی ملک عالمی قیادت کے قابل نہیں رہا تھا۔ برطانیہ اور فرانس جو دوسری عالمی جنگ سے قبل دنیا کی سب سے وسیع نو آبادیاتی سلطنتوں کے مالک تھے‘ معاشی اور حربی طور پر اتنے کمزور ہو چکے تھے کہ ایشیا اور افریقہ میں ان کیلئے اپنی نو آبادیات پر پہلے جیسا تسلط قائم رکھنا ناممکن تھا۔ سب سے زیادہ تباہی یورپ میں ہوئی۔ اس کی صنعتیں تباہ اور شہر کھنڈرات میں تبدیل ہو چکے تھے اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے گھر ہو چکے تھے۔ بیروزگاری عام تھی‘ معاشی بحران کے علاوہ ہر ملک سیاسی بحران کا بھی شکار تھا۔
اٹھارہویں صدی کے آخر میں صنعتی انقلاب کے نتیجے میں یورپ میں قائم ہونے والا سرمایہ دارانہ نظام زمین بوس ہو چکا تھا اور اس کی جگہ لینے کیلئے سابقہ سوویت یونین کی قیادت میں مقامی کمیونسٹ پارٹیاں پَر تول رہی تھیں۔ ایسے میں عالمی سرمایہ دارانہ نظام‘ جسے کئی دہائیوں پر مشتمل نو آبادیاتی نظام نے سامراج کی شکل میں تبدیل کر دیا تھا‘ کو بچانے کیلئے امریکہ کو یورپ سے الگ تھلگ رہنے کی پالیسی کو خیبر باد کہنا پڑا اور نہ صرف یورپ بلکہ ایشیا اور افریقہ میں یورپی نوآبادیاتی نظام کو کمیونزم سے بچانے کیلئے آگے آنا پڑا۔ یورپ (مغرب) کے دفاع کیلئے نیٹو تشکیل دیا گیا‘ معاشی اور مالیاتی بحالی اور تعمیرِ نو کا عمل شروع کرنے کیلئے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ادارے قائم کرنا پڑے۔ سابقہ سوویت یونین اور (1949ء کے بعد) چین کے گرد گھیرا ڈالنے کیلئے ناروے سے لے کر جاپان تک فوجی اڈوں کی ایک زنجیر قائم کی گئی جہاں فوج کے یونٹس کے علاوہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس دور مار میزائل نصب تھے اور امریکی طیارے ہر وقت روس اور چین کی سرحدوں کے ساتھ ساتھ محو پرواز رہتے تھے۔ اس کے علاوہ بحرالکاہل‘ بحر اوقیانوس شمالی‘ بحر اوقیانوس جنوبی‘ بحیرہ روم اور بحر ہند میں امریکہ کے بحری بیڑے جن میں طیارہ بردار جہازوں کے علاوہ ایٹمی آبدوزیں بھی سابقہ سوویت یونین میں جنگی ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کیلئے موجود تھیں۔ بیسویں صدی کے آخر تک امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو نہ صرف عسکری بلکہ معاشی لحاظ سے یہ بالادستی اور غلبہ حاصل رہا مگر اس کے بعد چین اور ترقی پذیر (تیسری دنیا) کے بعض ممالک جن میں برکس (BRICS)‘ جی ایٹ اور شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک شامل ہیں‘ نے معاشی میدان میں خود انحصاری حاصل کرکے امریکی قیادت میں قائم عالمی مالیاتی اور تجارتی نظام کو چیلنج کرنا شروع کردیا۔ صدر ٹرمپ کے خیال میں اس چیلنج کا یعنی ابھرتی ہوئی معیشتوں کو عالمی مالیاتی نظام اور تجارت میں برابر کا شرکت کار قبول کرنے کی بجائے ان کی مصنوعات پر درآمدی ٹیکس عائد کرنا امریکہ کے مفاد میں ہے اور امریکہ کو ''ایک بار پھر عظیم‘‘ بنانے کا انہوں نے جو خواب دیکھا ہے اسے شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے واحد ذریعہ ہے‘ مگر بہت سے ماہرین ‘ جن میں سرکردہ امریکی ماہرین معاشیات بھی شامل ہیں‘ کی رائے میں امریکہ میں دیگر ممالک سے آنے والی مصنوعات پر بھاری ڈیوٹی کی پالیسی سے امریکی صارفین کو نقصان ہوگا کیونکہ درآمدی مصنوعات پر ٹیرف سیلز ٹیکس کے مترادف ہے جو بالآخر خریدار کو ادا کرنا پڑتا ہے۔ امریکہ یا صنعتی طور پر دیگر مغربی ممالک کی منڈیوں میں چین اور دیگر ابھرتی ہوئی معیشتوں والے ممالک کی مصنوعات کی بھرمار سے ان ممالک سے صارفین کو فائدہ ہوا ہے کیونکہ ان کو کم قیمت پر یہ مصنوعات دستیاب ہیں لیکن ہائی ٹیرف عائد کرنے کے بعد جب یہ اشیا‘ جن میں الیکٹرک گاڑیاں بھی شامل ہیں‘ مہنگائی ہو جائیں گی تو صارفین کا ردعمل بھی آ سکتا ہے کیونکہ افراط زر کی سطح بلند ہو جائے گی۔ دوسری طرف صدر ٹرمپ کی پالیسیوں سے جن ممالک کی مصنوعات پر امریکی مارکیٹ میں داخلہ تنگ ہو جائے گا ان کی طرف سے سخت ردعمل کا آنا بھی ناگزیر ہے اور ان ممالک میں کینیڈا‘ جرمنی‘ فرانس اور یورپی یونین کے دیگر رکن ممالک‘ امریکہ کے پرانے اتحادی ہیں‘ ان کے معاشی مفادات کو نقصان پہنچانے والے صدر ٹرمپ کے اقدامات سے ان ممالک کے ساتھ امریکہ کے سیاسی اختلافات بھی پیدا ہو سکتے ہیں جن سے خود امریکہ کے نیشنل سکیورٹی مفادات متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ کینیڈا کی وزیر خارجہ نے ابھی سے ایک بیان میں واضح کر دیا ہے کہ صدر ٹرمپ کے اقدامات پر ان کی حکومت کی طرف سے سخت ردعمل آئے گا۔ حال ہی میں پیرس میں جرمن چانسلر اولاف شولس اور فرانس کے صدر ایمنوئل میکرون کے درمیان یورپی یونین کی طرف سے متفقہ مؤقف اختیار کرنے پر صلاح مشورہ ہوا ہے۔ چین‘ بھارت اور جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک سے بھی سخت ردعمل کی توقع ہے۔